یوم عاشورہ میں کرنے اور نہ کرنے والے کام
محمد امتیاز پلاموی،مظاہری
_____________________________________
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے اور اسی مہینے کی ١٠/ تاریخ (١٠ محرم ) کو عاشورہ کا دن کہا جاتا ہے،یوم عاشورہ میں کچھ کام کرنے کے ہیں؛ جو شرعی اعتبار سے ممدوح اور باعث اجرو ثواب ہے؛ جبکہ بعض افعال نہ کرنے کے ہیں ؛ کیوں کہ شریعت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے؛ بلکہ شریعت کے نام پر دھوکہ اور خرافات ہیں۔چنانچہ یوم عاشورہ میں کرنے والے کام یہ ہیں:
_____________________________________
یومِ عاشورہ میں کرنے والے کام
یوم عاشورہ میں کرنے کے ٢/ کام ہیں:
(١):-- روزہ ---- (٢) اہل و عیال کے لئے کھانے پینے میں وسعت کرنا۔
(١) عاشورہ کا روزہ
ویسے تو پانچ دن کے علاوہ پورے سال کسی بھی دن روزہ رکھا جاسکتا ہے، لیکن یوم عاشورہ میں روزہ رکھنے کی فضیلت ہی کچھ الگ ہے۔
حدیث پاک میں ہے کہ یوم عاشورہ کا روزہ رکھنا ایک سال پیچھے کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے،جیساکہ اس حدیث میں ہے:" عن أبي قتادة أن النبي صلى الله عليه وسلم سئل عن صوم عـاشوراء، فـقــــال: “يكفِّر السنة الماضية”، وفي رواية: “صيام يوم عاشوراء أحتسب على الله أن يكفـــر السنة التي قبله”( رواه مسلم، ح: 1162 ) وفـي حديث آخر: “ومن صام عاشوراء غفر الله له سنة”( رواه البزار، انظر: مختصر زوائد البزار 1/407.
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے سے پہلے یوم عاشورہ کا روزہ فرض تھا؛ لیکن رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے کے بعد یوم عاشورہ کے روزہ کی فرضیت ساقط ہوگئی؛ البتہ اس کی فضیلت ابھی بھی باقی ہے : عن عائشة رضي الله عنها أن قريشا كانت تصوم عاشوراء في الجاهلية ثم أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بصيامه حتى فرض رمضان فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " من شاء فليصمه ومن شاء فليفطره "كتاب الصوم – باب صوم يوم عاشوراء ح 2001۔
_____________________________________
یوم عاشورہ کے کتنے روزے ہیں؟
ویسے تو آخر عمر تک نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی آخری عمر تک ایک ہی دن یعنی صرف ١٠/ محرم الحرام کو روزہ رکھا ہے؛ لیکن اپنی آخری عمر میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہ نصیحت/وصیت فرمائی کہ یہود کی مخالفت کرو،وہ ایک دن کا روزہ رکھتے ہیں تم دو دن روزہ رکھا کرو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خواہش کا اظہار بھی کیا کہ اگر میں آئیندہ سال زندہ رہا تو ٩/ محرم کو بھی روزہ رکھوں گا : __عن ابن عباس رضي الله عنهما حين قيل للنبي صلى الله عليه وسلم إن يوم عاشوراء يوم تعظمه اليهود والنصارى قال : " فإذا كان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع " وفي رواية " لئن بقيت إلى قابل لأصومن التاسع "أخرجه مسلم (كتاب الصيام ح 2266-2267)
روي عن النبي ﷺ أنه قال: خالفوا اليهود صوموا يومًا قبله ويومًا بعده." ____ رواه أحمد في (مسند بني هاشم) بداية مسند عبدالله بن العباس برقم 2155، ورواه البيهقي في (السنن الكبرى) باب صوم قبل يوم عاشوراء برقم 4315.
لیکن عمر مبارک نے حضورﷺ کے ساتھ وفا نہ کی اور اس خواہش کی تکمیل سے قبل ہی مالک حقیقی سے جاملے؛ البتہ حضرت کی یہ خواہش اور مخالفت یہود کا حکم تا قیام قیامت ہمارے لیے مشعل راہ بن کر رہیں گے؛اسی وجہ سے فقہاء کرام نے صراحت کی ہے کہ یوم عاشورہ کے روزہ کے ساتھ ٩/ محرم الحرام کو بھی روزہ رکھا جائے تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کی تکمیل ہو، یا ١٠/ کے ساتھ ١١/ کو روزہ رکھا جائے تاکہ مخالفت یہود کے حکم کی تعمیل ہو۔
_____________________________________
یوم عاشورہ کے روزہ کا پس منظر:
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ شریف تشریف لے گئے تو دیکھا کہ مدینہ کے یہود یوم عاشورہ کو روزہ رکھتے ہیں،معلوم کرنے پر یہود نے بتایا کہ اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپکے ساتھی بنی اسرائیل، فرعون کے ظلم و ستم سے نجات پاکر دریا پار کئے،جس کے شکرانہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے روزہ رکھا تھا ،تو ہم بھی روزہ رکھتے ہیں، حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم زیادہ حقدار ہیں کہ موسی علیہ السلام کی نقل کریں، جیساکہ امام بخاری و مسلم رحمہا اللہ نے یہ حدیث نقل کی ہے: عن ابن عباس ـ رضي الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قدم المديـنـة، فوجد اليهود صياماً يوم عاشوراء، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: “ما هذا اليوم الذي تصومونه؟” فـقـالـوا: هــــذا يوم عظيم أنجى الله فيه موسى وقومه، وغرّق فـرعـون وقومه، فصامه موسى شكراً، فنحن نصومه . فقال رسول الله صلى الله عـلـيـه وسلم: “فنحن أحق وأوْلى بموسى منكم” فصامه رسول الله صلى الله عليه وسلم وأمر بصيامه (البخاري، ح/2004، ومسلم، ح/11330).
؛چنانچہ اس کے بعد سے ہر سال خود بھی روزہ رکھتے اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیتے : ؛ البتہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے کے بعد اس روزہ کے بارے میں اختیار دے دیا گیا کہ جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے: عن جابر بن سمرة رضي الله عنه قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يأمرنا بصيام يوم عاشوراء ويحثنا عليه فلما فرض رمضان لم يأمرنا ولم ينهنا ولم يتعاهدنا عنده.أخرجه مسلم في ( كتاب الصيام ح 2652)
_____________________________________
(٢):-- بچوں کے لیےعمدہ کھانا پکانا
یوم عاشورہ میں جہاں بڑوں کو روزہ رکھنے کا شریعت نے حکم دیا ہے؛ تاکہ وہ ١/ سال کی فضیلت پاسکیں،وہیں یہ بھی حکم دیا ہےکہ اس دن بچوں کے لیے عمدہ کھانے کا انتظام کیا جائے،ان پر کھانے کی کشادگی کی جائے؛ تاکہ ان کے اس عمل سے سال بھر کے لیے رزق میں کشادگی کردی جائے،جیسا کہ ارشاد نبویؐ ہے: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ -رضي الله عنه- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: ((مَنْ وَسَّعَ عَلَى أَهْلِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ سَائِرَ سَنَتِهِ)) أخرجه ابن أبي الدنيا في النفقة على العيال، والطبراني في المعجم الكبير، والبيهقي في شعب الإيمان.
اسی طرح علامہ شامی تحریر فرماتے ہیں: [(قَوْلُهُ: وَحَدِيثُ التَّوْسِعَةِ إلَخْ) وَهُوَ «منْ وَسَّعَ عَلَى عِيَالِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ السَّنَةَ كُلَّهَا» قَالَ جَابِرٌ: جَرَّبْته أَرْبَعِينَ عَامًا فَلَمْ يَتَخَلَّفْ].رد المحتار على الدر المختار" (2/ 418):
_____________________________________
یوم عاشورہ میں نہ کرنے والے کام:
جیسا کہ اوپر گذرا کہ یوم عاشورہ باعث خیرو برکت اور اجرو ثواب کا ذریعہ ہے،اس دن شریعتِ مطہرہ نے روزہ رکھنے اور بچوں پر کھانے پینے میں کشادگی کرنے کا حکم دیا ہے،اور کھانے میں کشادگی کرنا اس بات کی علامت ہے کہ یہ خوشی کا دن ہوسکتا ہے لیکن غم کا دن نہیں ہوسکتا، اس لیے اس دن یعنی ١٠/ محرم الحرام کو منحوس دن سمجھنا، غم کا دن خیال کرنا،شریعت کی رو سے غلط اور بے بنیاد ہے۔
شہادت حسین ؓ اور رسم ماتم و نوحہ:
اس میں کوئی شک نہیں کہ ١٠/ محرم الحرام کو نواسۂ رسول حضرت حسین ابن علی ؓ کی شہادت واقع ہوئی،اس کا ہر کسی کو غم اور افسوس ہے،لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ انہوں نے باطل کے سامنے سر نہیں جھکایا۔
کسی کی بھی وفات یا شہادت پر وقتی طور پر رنج و غم ضرور ہوتاہے،اور یہ واقعہ جب کسی بڑی شخصیت کا ہو تب تو یہ غم روح میں سماجاتا ہے جس سے جدا ہونا ناممکن سا معلوم ہوتا ہے،لیکن اس کے باوجود شریعتِ اسلامیہ نے اس پر رنج غم کے اظہار یا سوگ منانے کے لیے محض تین دن کی اجازت دی ہے، وہ بھی شروع کے تین دن نہ کہ ہرسال ؛ اس لیے شہادت حضرت حسین کےنام پر
سالانہ سوگ منانا،
ماتم کرنا،
رنج وغم کا اظہار کرنا،
گریبان چاک کرنا ،
اپنے بدن کو چاقو یا چھری سے زخمی کرنا،
حضرت حسین ؓ کے روضۂ مبارک کی شبیہ یعنی تعزیہ بنانا،
ماتم کے نام پر جلوس نکالنا
نواسۂؓ رسولؐ اور آل رسولؐ کو پانی سے روک دیا گیا تھا؛ اس لیے سبیل لگانا،
کھچڑے پکوانا،
____ یہ سب خلاف شریعت ، غلط،ناجائز اور حرام ہے۔
اور ڈھول تاشے کے بارے میں تو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں،وہ بدیہی طور پر خبیث عمل ہے۔
اگر شہادت کا سالانہ سوگ منانے کی اجازت ہوتی، یا شرعی حکم ہوتا ،تو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیارے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سوگ خود مناتے اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس کا حکم فرماتے،کیوں کہ یہ واقعہ نبی پاک ﷺ کی موجودگی میں پیش آیا جو کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سب سے زیادہ رنج کا باعث بنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ کو سید الشہداء کا لقب دیا ہے، لیکن دور نبوی میں ایسا نہیں ہوا___
اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت ایک محرم کو ہوئی،وہی عمر فاروق جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے___ لیکن انکی شہادت پر بھی کوئی سوگ کی محفل یا ماتم کا جھلوس نہیں نکالا گیا،اس لیے کہ شریعت کا حکم نہیں ہے۔
اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں کے لیے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے بڑھ کر کوئی سانحہ اور غم کا دن نہیں ہوسکتا،اگر ماتم،سوگ یا سالانہ رنج و غم کا جلوس نکالا جاتا تو حضور کے نام پر ______ لیکن ایسا بھی نہیں ہوتا_______ معلوم ہوا کہ یہ سب کام نہ تو شریعت کے اعتبار سے ہے اور نہ ہی شریعت پر عمل کرنے کے مقصد سے ہے،بلکہ سراسر خلاف شریعت ، اور جاہلانہ رسم و رواج کے ساتھ معاندین رسول شیعوں کی حمایت ہے،اس لیے اس سے بچنا،پرہیز کرنا لازم و ضروری ہے۔
0 Comments