قربانی کے کتنے دن ہیں ؟ قربانی کے تین دن ہونے کے دلائل

 قربانی کے کتنے دن ہیں؟ ٣ دن یا ٤ دن؟

قربانی کے ٣ دن ہونے کے دلائل 



مستفاد : حنفیہ کا مسلک احتیاط پر ہے ۔ کتاب المسائل جلد دوم

قربانی کے ٣ دن

اہل سنت والجماعت احناف کا مسلک یہ ہے قربانی کے تین دن ہیں ، یعنی ١٠/١١/١٢ ذی الحجہ ، اس سے پہلے یا بعد میں قربانی معتبر نہیں ہے ؛ چنانچہ فقہ حنفی کی معتبر کتاب فتاویٰ ہندیہ میں ہے : وقت الاضحية ثلاثه ايام، العاشر، والحادي عشر، والثاني عشر، اولها افضلها واخرها ادونها. ( فتاوي هنديه ٥/٢٩٥)  کتاب المسائل جلد ٢/ صفحہ ٢٥٨) ۔

قربانی تین دن ہونے کے دلائل 

قربانی کے تین دن ہونے کا ثبوت حضرات صحابہ کرام اور تابعین عظام کے فتاویٰ سے ہے ، جو درج ذیل ہیں۔

غیراللہ کے علم غیب ماننا شرک ہے

(١) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : الذَّبْحُ بَعْدَ النَّحْرِ يَوْمَانِ(بيهقى كبرى ، بَابُ مَنْ قَالَ الْأَضْحَى يَوْمَ النَّحْرِ وَيَوْمَيْنِ بَعْدَهُ ، نمبر 19255)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ : دسویں ذی الحجہ کے بعد قربانی اور دو دن ہیں ( یعنی ١١ اور ١٢) ۔ 

اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کے صرف تین دن ہیں، ١٠/١١/١٢۔ اس کے بعد نہیں یعنی ١٣ تاریخ قربانی کا دن نہیں۔

(٢) سَأَلَ أَبُو سَلَمَةَ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بَعْدَ النَّحْرِ بِيَوْمٍ فَقَالَ: إِنِّي بَدَا لِي أَنْ أُضَحِّيَ. فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: مَنْ شَاءَ فَلْيُضَرِّ الْيَوْمَ ثُمَّ غَدًا إِنْ شَاءَ اللهُ (بيهقى كبرى، بَابُ مَنْ قَالَ الْأَضْحَى يَوْمَ النَّحْرِ وَيَوْمَيْنِ بَعْدَهُ، 19253)

ترجمہ: حضرت ابو سلمہ رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے دسویں ذی الحجہ کے ایک دن بعد پوچھا : میں سوچتا ہوں کہ میں قربانی کر لوں، تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جو چاہے آج قربانی کر لے، پھر انشاء اللہ کل بھی قربانی کر سکتا ہے۔ 

اس قول صحابی ؓ سے بھی معلوم ہوا کہ قربانی کے صرف تین دن ١٠/١١/١٢ ہیں ، اس سے آگے نہیں۔

(٣) أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَ يَقُولُ: الْأَضْحَى يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ الْأَضْحَى. قَالَ: وَثَنَا مَالِكٌ أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ يَقُولُ: الْأَضْحَى يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ الْأَضْحَى ) بيهقى، كبرى، بَابُ مَنْ قَالَ الْأَضْحَى يَوْمَ النَّحْرِ وَيَوْمَيْنِ بَعْدَهُ، نمبر 19254)

ترجمہ: دو صحابی اور ایک تابعی کا قول:  حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے:  کہ عید الاضحی کے بعد دو دن قربانی ہے۔ حضرت امام مالک رحمہ اللہ کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ بات پہنچی ہے کہ وہ فرماتے تھے : کہ دسویں ذی الحجہ کے بعد دو دن تک قربانی کر سکتا ہے۔

اس میں حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰیٰ عنہما جیسے دو جلیل القدر صحابہ کا قول ہے ، جس سے واضح ہے کہ قربانی کے صرف تین دن یعنی ١٠/١١/١٢ ہیں ۔

(٤) عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، أَنَّهُ قَالَ: النَّحْرُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ, فَقَالَ مَكْحُولٌ: صَدَقَ (بيهقي كبرى ، بَابُ مَنْ قَالَ : الْأَضْحَى جَائِزٌ يَوْمَ النَّحْرِ وَأَيَّامَ مِنِّي كُلَّهَا لِأَنَّهَا أَيَّامُ النُّسُكِ، نمبر 19252)

ترجمہ: قول تابعی : حضرت سلیمان بن موسیٰ نے کہا کہ قربانی تین دن ہیں ، تو حضرت مکحول نے کہا کہ صحیح بات ہے۔ 

چوتھے دن قربانی کا حکم

چونکہ قربانی کے تین ہی دن ہیں ،١٠/١١/١٢ ۔ اس لیے اگر ان تین دنوں کے اندر قربانی نہیں کی تو کیا حکم ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر وقت پر قربانی نہ کی جا سکی اور جانور پہلے سے موجود ہو تو وقت گزرنے کے بعد اسی جانور کو زندہ صدقہ کرنا ضروری ہے، اور اگر جانور موجود نہ ہو تو پورے جانور کی قیمت کا صدقہ لازم ہے۔  ( کتاب المسائل جلد دوم ٢٧٠)

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند سے قربانی کے مسائل 

Post a Comment

0 Comments