حضرت مولانا محمد الطاف حسین قاسمی رحمہ اللہ
کتاب زندگی کے آخری باب کا اختتام
مولانا الطاف حسین قاسمی |
از : مولانا محمد دلاور حسین قاسمی
صدر مدرس دارالعلوم قاسمیہ مدرسہ عوک بلسوکرا ضلع رانچی
تقریباً ٹیڑھ دو سال کی معمولی مدت میں جہاں ملک ہندوستان کی غیر معمولی شخصیتوں سے علمی دنیا کو نقصان پہنچا ہے وہیں ضلع رانچی کی برگزیدہ ہستیوں کے فیوض و برکات اور دین و ملی قیادت و سیادت سے بھی امت کا بڑا طبقہ محروم ہوا ہے، اس دنیاء بےثبات میں وجود پذیر ہونے والا ہر فرد اپنے نصیبے کے بقدر حیات مستعار لے کر آتا ہے اور وقت کی تیز رفتاری اسے زندگی کی آخری سانس تک پہنچا دیتی ہے اور بالآخر تلخی موت کا ذائقہ چکھنا ناگزیر ہوجاتا ہے لیکن جانے والا شحص جتنا ہردل عزیزاور قوم و ملت کے لیے جس قدر مفید ہوتا ہے اس کی رحلت کا صدمہ بھی اسی قدر محسوس کیا جاتا ہے۔ حضرت مولانا محمد الطاف صاحب قاسمی نوراللہ مرقدہ کی شخصیت بھی اسی نوعیتت کی تھی ، جن کی وفات کا عظیم سانحہ مؤرحہ ۱۰ جمادی الاولیٰ سنہ ۱۴۴۳بروز چہار شنبہ بوقت سوا چار بجے شام پیش آیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ ان للہ ما اخذ ولہ ما اعطیٰ وکل شیئ عندہ بأجل مسمیٰ۔
مؤرخہ ۱۱ جمادی الاویٰ ۱۴۴۳ھ بروز جمعرات تقریباً سوا گیارہ بجے دن ایک جم غفیر نے نماز جنازہ پڑھی جس میں مختلف ا ضلاع سے آئے مؤقر و ممتاز علماء و صلحاء اور مدارس اسلامیہ کے طلباء نے شرکت کی۔
حضرت مولانا ، اطراف و اکناف میں اسلاف کی پاکیزہ روایات کے امین تھے، طبیعت میں سادگی، تواضع و مسکنت، قول و فعل سے عیاں، تصنع اور بے جا تکلفات سے کوسوں دور، اصول پسندی، اوقات کے استعمال کرنے میں انتہائی محتاط ثابت، کام کے سلسلے میں ادنیٰ تساہلی بھی ناقابل برداشت۔ شریعت و سنت اور معمولات کا اس قدر پاس و لحاظ کہ موسم کی سختی یا نرمی سے کبھی متاثر نہ ہوئے۔ اخیر عمر میں بینائی سے محرومی کے باوجود قرآن کریم کے یاد کردہ پاروں اور سورتوں کی تلاوت کا پختہ معمول تھا۔ تہجد اور دیگر نوافل کے ساتھ مخصوص اوقات میں تقریباً نصف گھنٹہ یا اس سے بھی زائد وقت، دعاؤوں میں مشغول رہنا، مولانا ممدوح کے نظام الاوقات کے اہم حصہ تھے۔
مولانا زمانۂ طالب علمی سے ہی عبادت کی حلاوت سے لذت آشنا تھے ؛ چنانچه انكے هم عصر علما ء انهيں صوفي جي كها كرتے تھے۔ بسا اوقات هم مدرسين كو بهت ساري دعائيں سنايا كرتے اور استفسار فرماتے كه يه دعاء كهاں منقول هے؟ ان ميں بهت ساري دعائيں ايسي هوتيں جو هميں ياد نهيں هوتيں۔ پھر اس كي تحقيق كا حكم ديتے اور فرماتے كه هم نے اسے زمانهٔ طالب علمي ميں مدرسه دعائيه دهلي ميں ياد كيا تھا۔ الغرض ! ان كے حافظه ميں ادعيهٔ ماثوره كا وافر مقدار محفوظ تھا۔
معمولات كے اس قدر پابند ، كه ايك دفعه اپنے والد ماجد حاجي يعقوب صاحب مرحوم كے احسانات كا تذكره فرمايا تو احقر نے دريافت كيا كه حضرت ! انكے ليے دعائيں كرتے هيں يا نهيں؟ تو جواب ميں فرمايا: انكی وفات كے بعد سے اب تك بلا كسي انقطاع كے والدين مرحومين اور اهليه مرحومه( جو انكي پهلي زوجه تھيں) كيليے مغفرت اور رفع درجات كي دعائيں كرتا رهتا هوں۔( الله پاك انهيں بھي غريق رحمت كرے ) ۔
مجھے بھی پڑھ لیجیے : مسلم نوجوانوں کے نام اہم پیغام
حضرت مولانا مرحوم كو الله تعاليٰ نے علمي صلاحيت اور ذوق عبادت كے ساتھ بے پناه انتظامي صلاحيتوں سے نوازا تھا۔ چنانچه اداره كو مختلف شعبهٔ جات ميں تقسيم كركے اسي مناسبت سے تمام شعبوں كو موسوم كرنا پھر اسي صلاحيت كے حامل فرد كو اس شعبه كا ذمه دار بنانا اور اس كے جزئيات سے روشناس كرانا ، پھر وقتاً فوقتاً اس كا محاسبه كرتے رهنا حضرت كي اعليٰ دماغي كي دليل تھي۔
مدرسه كي امانت كا اسقدر خيال كه عديم البصارت هونے كے باوجود كبھي روپے دو روپے تو دور پانچ دس پيسے بھي حساب سے غائب نه هوے۔ چنانچه حساب سے متعلق تمام مندرجات کو نہایت غور سے پڑھواکر سنتے اور حسب موقع نکیر فرماتے اور مناسب اصلاح کراتے۔ علاوہ ازیں مدرسہ کے جملہ شعبہ جات کا جائزہ لیتے رہتے، بوقت ضرورت مناسب راہنمائی فرماتے اور ادارہ کی ترقی و استحکام کے لیے ہمیشہ فکرمند رہتے۔
مولانا مرحوم کے دل میں ہندوستان کی باوقار چھوٹی بڑی تنظیموں اور جماعتوں اور ان کے سربراہان سے بے پناہ محبت تھی؛ چنانچہ جب بھی کسی تنظیم کی طرف سے کوئی تحریک چلتی مولانا مرحوم اسکے ابتدائی مراحل سے لیکر آخری مرحلہ تک ادارہ کی طرف سے حسب تقاضہ نمائندہ بھیجتے رہتے اور کسی قسم کے عذر پیش کرنے پر خفا ہوتے اور یوں فرماتے: کیا صرف مدرسہ چلانے سے آپ بری الذمہ ہوجائیں گے؟ کیا یہ دین کا اہم کام نہیں ہے؟ کیا ہمارے اکابر ایسے ہی تھے؟ اسی طرح کارکنان مدرسہ کو متحرک رہنے کے لیے بارہا فرماتے کہ کام کو فوجی انداز میں کیجیے وقت بہت کم ہے۔
علاقائی ملی و سماجی مسائل پر غور و فکر کے لیے فوری طور پر معاو نین و مدرسین بالخصوص حضرت مولانا عبدالقیوم صاحب علوی و مولانا محمد ادریس صاحب ، مولانا نورالحس صاحب مظاہری (موجودہ ناظم ) مولانا عبدالقیوم صاحب قاسمی اور راقم الحروف وغیرہم کو طلب فرماتے، پھر ہر ایک کے سامنے مسئلہ کی نزاکت کو رکھتے ،پھر اسکے تمام پہلؤوں پر غور فرماتے اور جملہ حاضرین کو بھی غوروفکر کی دعوت دیتے۔ جب کسی ایک پہلو پر متفق ہوجاتے تو فرماتے : فأذا عزمت فتوکل علی اللہ۔ چنانچہ بیشتر مواقع پر اس کے مفید و مثبت نتائج برآمد ہونے پر کارکنان کی تحسین فرماتے اور یوں فرماتے کہ : یہ آپ سب کی جدو جہد کا ثمرہ ہے۔ فللہ الحمد علیٰ ذالک۔
مجھے بھی پرھ لیجیے : آج کے دور کی بدنصیب بیوہ
افسوس کہ آج ہم ایک علمی و روحانی بزرگ ، بے مثال محسن ومربی،امت کی فکر رکھنے والے ہمدرد و غمخوار، عالی صفات منتظم، اکابر و اسلاف کے عاشق صادق ، گوناگوں محاسن کی حامل شخصیت سے محروم ہوگئے۔
اللہ تعالیٰ حضرت کی مختلف النوع خدمات کو قبول فرماکر نجات اخروی کا ذریعہ بنائے اور انکے خون جگر سے سیچے ہوئے گلشن دارالعلوم قاسمیہ کو روز افزوں ترقیات سے نازے اور ہر طرح کے شرور و فتن سے حفاظت فرمائے۔
این دعاء از من و از جملہ جہاں آمین باد
محترم قارئین!
مذکورہ مضمون کے سلسے میں اپنی رائے کمینٹ میں ضرور لکھیں۔
شکریہ
0 Comments