آج کے دور کی بد نصیب بیوہ
'' زنا کرلینا پر بیوہ سے نکاح نہ کرنا "
آج کے دور کی بد نصیب بیوہ ؍ زنا کرلینا پر بیوہ سے نکاح نہ کرنا |
بیوہ عورت سے شادی کرنا Bewa-aurat-ae-shadi-karna |
فیضان سہر وردی
غزوہ موتہ سے واپسی کا منظر ہے کہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہا مجاہدین کی واپسی کی خبر سن رہی ہیں،اپنے پیارے شوہر حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ کی راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھی ہیں، اپنے بچوں کو بھی تیار کر لیا ہے ، دورسے آہٹ کی آواز سنائی دیتی ہے؛ لیکن جب یہ دیکھتی ہیں کہ یہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نہیں بلکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک ہے،حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا اندازے سے ہی سمجھ جاتی ہیں کہ ان کی زندگی کے ہمسفر، ہجرت کے ساتھی اور پیارے شوہر حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے بچھڑ چکے ہیں۔
مجھے بھی پڑھیں: آسان اور مسنون نکاح کا عملی نمونہ
یہی معاملہ ہمارے معاشرے میں ہوتا تو حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کو پوری زندگی بچوں کے ساتھ تنہا حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ؛ لیکن وہ نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے تربیت یافتہ صحابہ کرام کا وسیع القلبی والا دور تھا ، ایک مسلمان بیوہ کو کیسے ان حالات و جذبات کے دھکے کھانے کے لئے اکیلا چھوڑ دیا جاتا ؟
یارِ غار، غیرانبیاء میں سب سے زیادہ افضل شخص یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں اپنی زوجیت میں لے لیا اور بچوں کو باپ جیسی گھنی شفقت اور محبت میسر آگئ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک بیٹا بھی عطا فرمادیا۔۔
پھر کچھ عرصہ بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا وصال ہوگیا،حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہا نے غسل دلوایا۔
دو دفع بیوہ ہونا ہمارے تنگ نظر معاشرے کے لئے تو انہونی بات ہے، وہ غیرت مند رجلان ان باتوں سے ناواقف تھے، مسلمان عورت کو فوراً معاشرتی دھارے کی زندگی میں ہم آہنگ کر لیا جاتا تھا ؛ تاکہ اسے تنہا نفسیاتی اور جذباتی جنگ نہ لڑنی پڑ جائے۔۔
اس دفعہ آگے بڑھنے والے غیرت پیکر کوئی اور نہیں ؛ بلکہ شیر خدا، ابوتراب ، فاتح خیبر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ تھے، آپ حضرت جعفر رضی اللہ تعالی عنہ کے چھوٹے بھائی بھی تھے ؛ لیکن آپ نے صرف بھتیجوں کی کفالت ہی نہیں کی بلکہ فرزند ابوبکر ؓ کو بھی اسی محبت سے پالا جیسے اپنے بھتیجوں کو پالا۔ یہ کیسا معاشرہ تھا جو ایسی عورت کے حقوق کا بھی محافظ تھا، یہ سن کر رشک آتا ہے ، ہم صحابہ کرامؓ کے دور میں پیدا ہونے کی خواہش بھی کرتے ہیں، ان جیسا بننا بھی چاہتے ہیں؛ لیکن جب نفس پر زد آئے تو خاموشی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں ، بیوہ اور اس کے بچوں کو تحفظ دینا، ایسا اس معاشرے میں رچا بسا کام تھا کہ اس کے لیے کوئی تقریر کرنے ، کوئی مہم چلانے،یا کوئی حکمت عملی بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اور ہمارا معاشرہ اور ہمارے رویے؟؟؟؟
مجھے بھی پڑھیں: فحش ویب سائٹ دیکھنے والے کا خوفناک انجام
ایک اور پاکیزہ صحابیہ حضرت عاتکہ رضی اللہ تعالی عنہا کی مثال سامنے رکھنا چاہوں گا۔ پہلا نکاح حضرت عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوا، حضرت عاتکہ رضی اللہ تعالی عنہا بہت خوبصورت تھیں اور اس جوڑے کی محبت عرب میں ایک مثال بن گئی تھی، حضرت عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک دن محبت میں آکر ان سے عہد کروا لیا کہ اگر میں آپ کی زندگی میں وفات پا گیا تو آپ دوسرا نکاح نہیں کریں گی، پھر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کچھ عرصہ بعد شہید ہوگئے، لیکن اس معاشرے میں بیوہ خاتون کو تنہا چھوڑنے کی مثال محیر العقل تھی، اس لئے بڑوں کے سمجھانے پر آپ نکاح ثانی کے لیے راضی ہوگئیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جو آپ کے چچا زاد بھائی بھی تھے انہوں نے حضرت عاتکہ رضی اللہ تعالی عنہا کو اپنے نکاح میں لے لیا ۔ کچھ عرصہ بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ شہید ہوگئے۔عدت پوری کے بعد عشرہ مبشرہ صحابی حضرت زبیر ابن العوام رضی اللہ تعالی عنہ نے نکاح کا پیغام بھیجا اور اب حضرت عاتکہ رضی اللہ تعالی عنہا ان کے نکاح میں آگئیں ۔ ۔کچھ عرصہ بعد حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی جام شہادت نوش کیا۔
حضرت عاتکہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بارے میں عرب میں مشہور ہو گیا تھا کہ جسے شہادت کی تمنا ہو وہ حضرت عاتکہ رضی اللہ تعالی عنہ سے نکاح کرلے، اسی مناسبت سے آپ رضی اللہ تعالی عنہا کو شہداء کی زوجہ کہا جاتا تھا ۔
اس عظیم مثال کا اپنے معاشرے سے مقابلہ کریں ! للہ اللہ کیسا کھلے دل والا معاشرہ تھا اور ہم اور ہمارا معاشرہ کیسا تنگ نظر اور گھٹن کا شکار معاشرہ ہے، ایسا معاشرہ جہاں بیوہ کو تنہا حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، جن مشکلات و مصائب کے پہاڑ، مردوں کی نظروں اور دوسری عورتوں کے طعنوں کے ساتھ یہ خواتین زندگی گزارتی ہیں، اس کی تفصیل آپ اپنے اردگرد، اپنے خاندان یا اپنے محلہ کی کسی بھی بیوہ سے جان سکتے ہیں۔
ہم کب تک ، تن ساسانیوں ، مصلحتوں اور بے جا خوف کا شکار رہیں گے؟ صرف صحابہ کرام کے دور کی بات کرنے یا ان کی مثالیں دینے سے اس دور کے ثمرات، فوائد اور برکات سامنے نہیں آئیں گے ؛ بلکہ انہیں عملی طور پر ہر شعبے میں رفتہ رفتہ نافذ کرنے سے یہ سب کچھ حاصل ہوگا۔
یادرکھیے! صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہماری طرح گفتار کے غاضی نہیں ؛ بلکہ کردار کے بھی غازی تھے۔
محترم قارئین!
مذکورہ مضمون کے سلسے میں اپنی رائے کمینٹ میں ضرور لکھیں۔
شکریہ
0 Comments