نیا سال کا جشن | Happy New year manana نیا سال کی مبارک بادی یا اسلام کی بربادی

 نیا سال کی مبارک بادی یا اسلام کی بربادی

   



   محمد امتیاز پَلاموی،مظاہری  

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

    قارئین کرام! عیسوی سن کا سال رواں ختم ہونے کو ہے اور نیا سال یعنی ۲۰۲۲ آنے والا ہے ۔ سال نو کے پرجوش استقبال کے  لیے بچے، جوان، بوڑھے، مرد اور عورتیں سب منتظر ہیں۔  اسکولوں اور کالجوں میں جشن منانے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔  دیہاتوں میں رہنے والے افراد پِکنِک کے نام پر بریانی پکانے اور ناچ گانے کی محافل سجانے کے لیے جنگلات کی حسین اور دلفریب مناظر کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں جبکہ کچھ لوگ پہاڑ کی نشیب و فراز وادیوں ، ٹیلوں اور بہتے چشموں کی جستجو میں محو ہیں۔  کچھ لوگ فضول خرچی کرتے ہوے اپنے باپ کے پسینے نچوڑ کر محنت کی کمائی کو پٹرول کی شکل میں بہانے اور لوگوں کو پریشان کرنے کے لئے بائک اور سڑک کی فکر میں لگے ہوئے ہیں ۔ کچھ لوگ ہیپی نیو یئر Happy new Year  لکھ کر چوک اور چوراہوں کو مزین کرنے کے لیے سیاہی کے انتظام میں مصروف ہیں ۔ کچھ لوگ آمد سال نو کی مبارکباد پیش کرنے کے لئے عمدہ اور ڈیزائن دار امیج کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ کچھ لوگ اپنے دوستوں کے ساتھ تصویر کھنچوانے کے لیے خوبصورت پارک کی تعیین میں ہمہ وقت مشغول ہیں۔ اور حد یہ ہے کہ اس جشن میں بلاتفریق مذہب و ملت ہندو مسلم سکھ عیسائی سبھی شامل کار ہیں۔

     اسی لیے میں مسلمان بھائیوں کی خدمت میں چند باتیں عرض گزار ہوں

     مسلمان بھائیو! اس دنیا میں ہماری (۲) حیثیت  ہے۔ (۱) انسان ہونا (۲)  مسلمان ہونا۔

    پہلی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں دنیا سے قدم ملا کر چلنا چاہیے ؛ کیونکہ ہم انسان ان اور ایک دنیا و معاشرے میں رہنے والے افراد ہیں؛ اس لیے بلا تفریق دین و ملت اورمذہب و مسلک اس میں بسنے والے انسانوں کے قدم بہ قدم چلنا چاہیے؛ لیکن اگر دوسری حیثیت کو دیکھیں تو یقینا ہمیں وہی کرنا چاہئے جو دوسری حیثیت کے لوگ کرتے ہیں ؛ کیونکہ ہم مسلمان ہیں ۔

    اب اصل مقصد کی طرف رجوع کرتا ہوں

     مسلمانوں ! ہم مسلمان ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ دنیا ختم ہونے والی ہے ،حقیقی اور لافانی زندگی آخرت کی یعنی مرنے کے بعد آنے والی زندگی ہے اور ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ  آخرت کی کامیابی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے اور انکے وارثین کی اتباع میں مضمر ہے ؛جبکہ دشمنان پیغمبر کے طریقے میں ناکامی اور پریشانی کی ناقابل انکار حقیقت اجاگر ہے۔

    اب چلیں ہمارے ساتھ دیکھتے ہیں کہ سال نو کی مبارکباد ی میں ہماری کامیابی ہے یا بربادی؟

  
دنیا کےتمام مذاہب اور قوموں میں تہوار منانے اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔  ہر ایک تیوہار کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہے اور ہر تہوارکوئی نہ کوئی پیغام دے کر جاتا ہے جن سے نیکیوں کی ترغیب ملتی ہے اور برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت ملتی ہے لیکن لوگوں میں بگاڑ آنے کی وجہ سے ان میں ایسی بدعات و خرافات بھی شامل کر دی جاتی ہیں کہ ان کا اصل مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ دنیا جیسے جیسے ترقی کے منازل طے کرتی گئی اور مہذب ہوتی گئی انسانوں نے کلچر اور آرٹ کے نام پر نئے جشن اور تیوہار وضع کیے ،انہیں میں سے ایک نئے سال کا جشن ہے۔

    دراصل یہ نئے سال کا جشن عیسائیوں کا ایجاد کیا ہوا ہے ۔ عیسائیوں میں قدیم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلتی آرہی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق پچیس دسمبر(۲۵ دسمبر) کو حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، اس کی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہے اور یہی کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے۔ 

     نئے سال کے جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور ۲۵ دسمبر کی رات میں بارہ بجنے کا انتظار کیا جاتا ہے اور بارہ بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارکباد دی جاتی ہے ،کیک کاٹاجاتاہے اور ہیپی نیو ایئر(Happy New Year) کی صدا گونجتی ہے/ آتش بازیاں کی جاتی ہیں اور مختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرام رکھا جاتا ہے جس میں شراب و شباب اور ڈانس کا بھرپور انتظام رہتا ہے، اسی لیے ان کی تفریح صرف دو چیزوں سے ممکن ہے ایک  شراب دوسرے عورت۔

     آج ان عیسائیوں کی طرح بہت سے مسلمان بھی نئے سال کے منتظر رہتے ہیں اور ۳۱ دسمبر کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے ، ان مسلمانوں نے اپنے اقدار و روایات کو کمتر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کر دیا ہے ؛ جبکہ یہ عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظام تاریخ ہے، مسلمانوں کا اپنا قمری اسلامی نظام تاریخ موجود ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے مربوط ہے، جس کا آغاز محرم الحرام سے ہوتاہے یہی اسلامی کیلنڈر ہے ؛ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کو اس کا علم بھی نہیں ہو پاتا۔

ماخوذ از: ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ11، جلد:100 ‏، صفرالمظفر 1438 ہجری مطابق نومبر 2016 

    کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یار مولویوں کی عادت پڑ گئی ہے ہر خوشی پر مضمون لکھ کر اس سے منع کرنا ، تو مسلمانوں یاد رہے کہ  علماء کرام جس کام سے آپ کو منع کرتے ہیں اس میں آپ کی بھلائی پوشیدہ رہتی ہے ، خود ہی غور کیجئے اور بتائیے کہ اسلامی مہینے کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہے اس کی آمد پر کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے، یا ہم نے خوشی منائی ہے یا کسی صحابیؓ نے خوشی منائی ہے ؟ یا  کسی عیسائی یا غیر مسلم نے یہ سمجھ کر کہ مسلمانوں کا اسلامی مہینہ ہے خوشی منائی ہے ؟ نہیں!

مجھ غریب کو بھی پڑھ لیجیے

     جب غیروں نے ہمارے اس مبارک مہینے کی آمد پر خوشی نہیں منائی اور حد یہ ہے کہ ہم نے خود نہیں بنائی تو ہم اغیار کے مہینے کی آمد پر خوشی کیوں منائیں ؟ خاص طور پر جب کہ یہ عیسائیوں کی مذہبی روایت ہے ۔ نیز خوشی کے نام پر ایسی خرافاتمچاتے ہیں کہ دیکھ کر آنکھیں دنگ ، سن کر انسان حیران اور کمزور و ناتواں  پریشان ہو جاتے ہیں۔  نئے سال کی مبارک بادی کی کچھ حیثیت اور افادیت ہوتی تو سب سے پہلے ہمارے آقا اس کی طرف توجہ فرماتے اور محرم الحرام  کی پہلی تاریخ کا استقبال دھوم دھام سے کیا جاتا ؛ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔

     مسلمانوں ! آخر ہمیں کیا ہوگیا ہے؟ اغیار ہم سے نفرت کرتے ہیں ، ہمارےاعیاد سے نفرت کرتے ہیں، ہمارے ہر ایک قول و فعل سے نفرت کرتے ہیں اور ہم ہیں کہ ہمارے سر پر جوں تک نہیں رینگتی اور ان کے ہاں میں ہاں ملا کر ان کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ہم نہیں کہتے کہ آپ بھی ان سے نفرت کیجئے اور ان کی مخالفت کیجئے ؛ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ آپ ان کی موافقت مت کیجئے اور خاص طور سے ان افعال و خیالات میں جو شریعت کے مخالف ہو۔

    مسلمانوں! عزم مصمم کرو کہ ہم ہیپی نیو ایئر نہیں منائیں گے ، پکنک کے نام پر مرغ مسلم اور بریانی نہیں پکائیں گے۔   نئے سال کی مبارکبادی نہیں دیں گے،کرسمس ڈے نہیں منائیں گے ،اسی طرح ان  کے اعیاد و تہوار میں شرکت نہیں کریں گے  انشاءاللہ۔

ہماری عمر عزیز کے قیمتی ایام گزرتے جا رہے ہیں، ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور اللہ رب العزت سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے اور نیکی کی فکر کرنی چاہیے۔

    اللہ پاک ہمیں عمل سمجھ کی توفیق دے۔ آمین


  محترم قارئین!  

مذکورہ مضمون کے سلسے میں اپنی رائے کمینٹ میں ضرور لکھیں۔

   شکریہ  


 وضاحت  برائے رابطہ : 
ہر طرح کے علمی،فکری و اصلاحی مضامین پڑھنے کے لیے، ہر طرح کے اسلامی و سیاسی خبروں سے واقفیت کے لیے 
درج ذیل لنکس پر کلک کریں، 
محمد امتیاز پَلاموی،مظاہری
7079256979| 6397254972


Post a Comment

0 Comments