علماء کو ہنر بھی سیکھنا چاہیے
ایک عالم کی آپ بیتی پر دردناک اور نصیحت آموزمضمون
فراغت سے پہلے یہی سنتے رہے کہ باہر نکل کر امامت اور خطابت کرنی ہے ، تدریس کرنی ہے ، باہر نکلے تو دو سال تک مسلسل کوشش کے باوجود بھی کہیں پڑھانے کے لیے جگہ نہیں ملی ، اگر کہیں جگہ ملتی بھی تو ایک ہزار قسم کی شرائط اور قواعد و ضوابط ،ڈیوٹی ٹائم 15/16 گھنٹےاور تنخواہ باورچی سے بھی کم۔
مجبور ہوکر ایک پینٹ فیکٹری میں 15000 روپے پر نوکری شروع کی تو ساتھیوں اور اساتذہ کو معلوم ہوگیا ، مدرسہ بلا کر اتنی زیادہ بےعزتی کی کہ رونے پر مجبور کر دیا اور میرے والد صاحب کو بھی بلا کر بےعزتی کی ۔
میں نے استاد صاحب سے عرض کی کہ استاد جی حالات ٹھیک نہیں ہیں، دو سال مسلسل تدریس اور امامت ڈھونڈنے پر بھی جگہ نہیں ملی ؛ تو انہوں نے مجھے ایک مدرسے میں تدریس کے لیے بھیج دیا، وہاں 8 اسباق پڑھانے شروع کیے، رہائش بھی ادھر تھی ، 10/ ذمہ داریاں بھی میرے ذمے تھی ، اور تنخواہ 6/ ہزار روپے اور یہ تنخواہ مجھے پانچ ماہ نہیں ملی ، ہرماہ یہی بات ہوتی کہ اس بار بجٹ نہیں بنا اگلے ماہ تنخواہ مل جائے گی ۔
ایک بار مہتمم صاحب سے عرض کر دی کہ حضرت مجھے پانچ ماہ سے تنخواہ نہیں ملی ، ابھی بہت ضرورت ہے ، مجھے رقم چاہیے ، تو مہتمم صاحب نے کہا کہ یہاں تو سال سال بھی تنخواہیں نہیں ملتیں۔ ، تمہیں استاد صاحب نے یہاں بھیجنے سے پہلے نہیں بتایا تھا کہ تنخواہوں کا مسئلہ ہے ہے ؟
میں نے وہیں مہتمم صاحب سے کہا کہ حضرت آپ کے بیٹے اور آپ کے گھر والے ہر ماہ اپنی تنخواہ پابندی سے وصول کرتے ہیں اور آپ کے داماد صاحب تو تنخواہ کے ساتھ ایڈوانس بھی لیتے ہیں ، تب تو بجٹ ہوتا ہے ؟
میری اس گستاخی کی وجہ سے مجھے اسی دن مدرسہ سے نکال دیا گیا اور استاد صاحب کو فون کرکے بتایا کہ آپ کا شاگرد بہت بدتمیز اور نالائق ہے ، مزید نہیں برداشت کرسکتا۔
تین سال ہوگئے میری تنخواہ جو 30/ ہزار بنتے ہیں وہ مجھے نہیں دیے ؛ جبکہ حضرت مہتمم صاحب ہر کچھ ماہ بعد عمرہ کے لئے بھی جاتے ہیں ، کبھی ملائشیا ، کبھی یورپ ۔ بیٹے سمیت چندے کے لیے چکر پابندی سے لگاتے ہیں ، ہر سال ایک دو جانور بھی قربان کرتے ہیں اور 28 سال سے امامت و خطابت اور درس حدیث بھی دے رہے ہیں۔
8/10 بار پیسے لینے گیا مگر پیسے نہیں ملے ، الٹا میرے خلاف باتیں بھی کیں ، اس کے بعد جامعہ کلاتھ مارکیٹ سے کٹ پیس کا کام شروع کیا، مگر اپنوں کی طنزیہ باتوں اور بےعزتی کے بعد وہ کام بھی چھوڑ دیا ؛ لیکن مسلسل مالی حالات اور مجبوریوں سے تنگ آ کر فیصلہ کرلیا کہ کوئی لاکھ باتیں کرے تو بھی پرواہ نہیں اور اپنا بریانی کا کام شروع کر دیا اس کے بعد سے اب تک ایک جگہ بریانی کا کام کر رہا ہوں۔
میرے پاس 12/ ملازمین ہیں جن میں 8/علماء کرام ہیں۔ میری ترجیح علمائے کرام ہوتے ہیں، اپنے مدرسے کےمیرے پاس پانچ عالم ہیں جو کافی ذہین اور قابل تھے مگر کسی کو تدریس کی جگہ نہیں ملی ، سب کو اچھی تنخواہ رہائش اور کھانا پینا بھی فری ہے ، ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے ، اپنی ایک مسجد بھی ہے ؛ جہاں تمام نمازیں ترتیب وار پڑھاتے ہیں اور محلے کے بچوں کو بھی پڑھاتے ہیں ، ان تمام حالات کے بعد یہ بات سمجھ آئی کہ کسی بھی عالم کو ہنر ضرور سیکھنا چاہیے، کوئی نا کوئی کام ضرور آنا چاہیے ، تدریس کے لیے ہر کسی کو جگہ نہیں ملتی چاہے کتنے ہی ماہر کیوں نہ ہوں، سب کے پاس موبائل تو ہوتا ہی ہے فضول کام کرنے سے بہتر ہے کوئی نہ کوئی ہنر سیکھے جائیں۔
محترم قارئین!
مذکورہ مضمون کے سلسے میں اپنی رائے کمینٹ میں ضرور لکھیں۔
شکریہ
0 Comments