دعاء کیسے مقدر بدلتی ہے !
قرآنی واقعات کی روشنی میں
پیشکش: محمد امتیاز پلاموی،مظاہری
اللہ تبارک و تعالی نے حضرت ایوب علیہ الصلاۃ والسلام کو بے پناہ دولت سے نوازا تھا ، دنیا میں موجود کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو حضرت ایوب علیہ السلام کے پاس نہ ہو ،حضرت ایوب علیہ السلام اپنے وقت کے کے ملٹی میلیینر تھے ، پھر اللہ پاک نے ان کو آزمایا اور ان سے سب کچھ چھین لیا ، ان کی بہت ساری اولاد تھی وہ ساری ایک ساتھ فوت ہوگئی ، وسیع و عریض رقبے پر ان کی فصلیں جل کر راکھ ہوگئیں اور اللہ پاک نے ان کو بے شمار بیماریاں لاحق کر دیں ۔ پھر ایک دن حضرت ایوب علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالی سے دعا کی اور اللہ تعالی سے رحم مانگا۔
وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ۔
ترجمہ: اور ایوب علیہ السلام کو یاد کرو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے بہت تکلیف ہو رہی ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ (سورۂ انبیاء آیت ۸۳)
اللہ پاک نے ایوب علیہ السلام کی دعا قبول کرلے اور حضرت ایوب علیہ السلام کو صحت یاب کر دیا اور ان کو پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ دولت اور شان وشوکت عطا کی۔
فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِیْنَ۔
ترجمہ: ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور جو ان کو تکلیف تھی وہ دور کر دی اور ان کو بال بچے بھی عطا فرمائے (سورۂ انبیاء ۸۴)
اسی طرح اللہ تعالی نے قرآن کریم میں حضرت زکریا علیہ السلام کی بے بسی کا واقعہ ذکر کیا ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کی بیوی بانجھ تھی وہ بچے پیدا نہیں کرسکتی تھی ، حضرت زکریا علیہ السلام بوڑھے ہو گئے ، پوری عمر گزر گئی بیوی بچے پیدا نہیں کرسکتی تھی تو ایک دن گھبرا کر اپنے اللہ سے دعا کی : یا اللہ اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں ، میری بیوی بچے پیدا نہیں کرسکتی ، یا اللہ تو مجھے بڑھاپے کا سہارا دے اور اللہ تعالی نے دعا قبول کرلی اور ایسی بیوی سے بچہ دے دیا جو بچے پیدا کر ہی نہیں سکتی تھی اور پھر حضرت زکریا نے کہا :
وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا
اے میرے رب میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا۔ (سورۂ مریم آیت ۴)
إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا
جب اس نے اپنے رب کو آہستہ سے پکارا
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَ اشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا وَّ لَمْ اَكُنْۢ بِدُعَآىٕكَ رَبِّ شَقِیًّا
اور کہا اے میرے رب میری ہڈیاں بڑھاپے کے سبب کمزور ہو گئی ہیں اور سر بڑھاپے کی وجہ سے شعلہ مارنے لگا ہے یعنی سر کے بال سفید ہو گئے
وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا
اور میں اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے تو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا فرما
يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ يَحْيَىٰ
اے زکریا ہم تجھے خوشی سناتے ہیں ایک لڑکے کی جن کا نام یحییٰ ہے
عرض کی کہ اے میرے رب میرے لڑکا کہاں سے ہوگا؟ میری عورت تو بانجھ ہے اور میں بڑھاپے سے سوکھ جانے کی حالت کو پہنچ گیا ہوں ،
قَالَ كَذَٰلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِن قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئًا
حکم ہوا کہ اسی طرح ہوگا کہ مجھے یہ آسان ہے اور میں پہلے تم کو بھی پیدا کر چکا ہوں اور تم کچھ چیز نہ تھے۔ (
سورۂ مریم آیت تا ۹)
پھر قرآن میں اللہ تعالی نے حضرت یونس علیہ السلام کا واقعہ ذکر کیا کہ جب وہ مچھلی کے پیٹ میں گئے تو بے بسی کا یہ عالم تھا ، قرآن کہہ رہا ہے: کہ وہ تین اندھیروں کے پیٹ میں تھے، ایک رات کا اندھیرا دوسرا سمندر کے نیچے گہرآئی کا اندھیرا اور تیسرا مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا اور حضرت یونس علیہ السلام نے بے بسی میں اللہ کو پکارا:
فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ
اندھیرے میں اللہ کو پکارنے لگے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے بیشک میں ہی قصوروار ہوں۔
(سورۂ انبیاء آیت ۸۷)
اللہ پاک فرما رہے ہیں ہم نے یونس علیہ السلام کی دعا کو قبول کیا اور اور ان کو وہاں سے نکالا جہاں سے نکلنے کے سارے راستے بند تھے تھے۔
فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ
تو ہم نے ان کی پکار سن لی اور ان کو غم سے نجات بخشی
پیارے دوستو!
اللہ تعالی نے یہ واقعات قرآن کریم میں اس لیے ذکر کیے کہ میں نے بندوں مجھ سے کبھی نا امید نہ ہونا ، میں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی گود میں پال کر دکھایا ،حضرت اسماعیل کو چھری کے نیچے بچا کر دکھایا ، حضرت ابراہیم کو جلتی آگ میں بچا کر دکھایا ،حضرت مریم کو بن باپ کے بیٹا دے کر دکھایا ، حضرت یوسف ؐ کو ایک قیدی سے بادشاہ بنا کر دکھایا ، حضرت موسی کو سمندروں میں خشک راستے نکال کر دکھایا ۔ (علیہم السلام)
ہم جسے پریشان سمجھ رہے ہوتے ہیں ہوسکتا ہے وہ کسی نئے سفر کا آغاز ہو، جب حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں گرایا گیا تو انہیں نہیں معلوم تھا کہ یہ ایک نئے سفر کا آغاز ہے، پیغمبری کا سف، بادشاہت کا سفر، اور وہ کچھ نا جانتے ہوئے بھی کہ آگے کیا ہونے والا ہے اس یقین اور بھروسے کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے کہ میرا اللہ میرے ساتھ ہے ، اور اللہ نے نبوت سے بھی نواز دیا اور بادشاہ سے بھی نواز دیا ۔
وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗؕ-
اور جو کوئی بھی اللہ پر بھروسہ کرے گا تو اللہ اس کے لیے کافی ہے
اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖؕ
یقین رکھو اللہ اپنا کام پورا کرکے ہی رہتا ہے ۔ (سورۂ طلاق آیت ۳)
اس لیے ہمیں اللہ تعالیٰ سے ہر وقت مانگتے رہنا چاہیے، اللہ کے لئے کیا مشکل ہے، اللہ کی ذات تو وہ ہے جو ناکامیوں میں بھی کامیابی پیدا کر سکتی ہے ، کیونکہ میرے اللہ نے خود کہا :
أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ
جب کوئی ٹوٹ کر تڑپ کر مجھ سے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں اس کی تکلیف کو دور کرتا ہوں۔
#duwa_qubool_hone_tariqa #duwa_qubool_hone_Quraani_waqiyat
محترم قارئین!
مذکورہ مضمون کے سلسے میں اپنی رائے کمینٹ میں ضرور لکھیں۔
شکریہ
0 Comments