مدارس اسلامیہ میں مدرسین کا قحط ؍مہتمم حضرات کا اساتذہ پر ظلم

مدارس اسلامیہ میں مدرسین کا قحط
مدارس اسلامیہ میں مدرسین کا قحط ؍مہتمم حضرات کا اساتذہ پر ظلم

اساتذہ اور مہتممین کے حوالہ سے اہم ترین تحریر


 پیشکش: محمد امتیاز پَلاموی،مظاہری 

مدارس اسلامیہ  میں اساتذہ کی کمی اور تعلیمی و تحقیقی انحطاط کے تعلق سے ایک قلم کار کی صاف ستھری باتیں    

 اگلے دو عشروں میں مدارس میں تجربہ کار، ماہرین فن اور کتابوں پر عبور رکھنے والے مدرسین کا شدید قحط پڑ جائے گا، پرانے ہنر مند اٹھتے جا رہے ہیں اور نئے مدرسین پیدا نہیں ہو رہے ہیں ، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اب مدارس میں بھی تدریس کے لیے اساتذہ کا انتخاب قابلیت کی بنا پر نہیں ؛ بلکہ اقرباء پروری ، گروہ پرستی اور تعلقات کی بنا پر کیا جاتا ہے ، یا پھر اسکولوں کی طرح اپنے شاگرد رکھے جاتے ہیں ؛ جو کم تنخواہ پر گزارہ کرنے والے اور چاپلوسی کرنے والے ہوں۔ 

     اگر قابل مدرس رکھ بھی لیں تو نہ اس کو معقول وظیفہ دیتے ہیں اور نہ ہی اس کی قدر کرتے ہیں ، جیسا کہ پاکستانی حکمران اپنے سائنس دانوں اور ڈاکٹروں کی قدر نہیں کرتے تو وہ امریکہ چلے جاتے ہیں ؛ اسی طرح قابل مدرسین خود مدرسہ کھولنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں، اس طرح ان کی تدریسی صلاحیتیں مدرسہ چلانے میں لگ جاتی ہیں ۔ یہ صورتحال بڑھتی ہی جارہی ہے اور آنے والے وقتوں میں اسی سبب درسگاہوں میں سخت قحط دیکھنے کو ملے گا۔

    بہت سارے اساتذہ ایسے ہیں جو تدریس کے ساتھ ساتھ کاروبار سے بھی جڑے ہوئے ہیں، ایسے میں ایک مدرس کی حقیقی روح ختم ہو جاتی ہے ، تحقیق کے دروازے بند ہوجاتے ہیں ؛ کیونکہ دوران مطالعہ بھی ذہن منتشر ، دوران اسباق بھی کاروبار میں الجھا ہوا اور ان دونوں سے جو وقت بچا وہ کاروبار کی مصروفیات میں گزر گیا ، نہیں تو یوں کہیے کہ بمشکل تدریسی فرائض کے لیے وقت نکلتا ہے ، یوں محققین علماء یادِ ماضی بنتے جا رہے ہیں ۔ 

    ویسے بھی کتاب بینی کی جگہ اب موبائل بینی ہوگئی ہے ، کتابیں پی ڈی ایف فائل میں ہی مل جاتی ہیں تو کتاب اٹھا کر یکسو ہو کر پڑھنے کی برکات سے محروم ہونا پڑا  ؛ اس کی وجوہات یہ ہیں کہ جدید دور کی چمک نے آنکھیں خیرہ  کر رکھی ہیں ، مدارس کی کم تنخواہوں نے بھی آزاد کاروباری زندگی اپنانے کی راہ دکھائی ہیں اور مہتمم حضرات کے نزدیک مدرسین کی قدر نہ ہونا بھی انحطاط کی وجوہات میں شامل ہے ؛ جس کی وجہ سے حوصلہ شکنی پیدا ہوئی اور علماء نے تجارت کو ترجیح دینا مناسب سمجھا۔

     بہت سارے باصلاحیت اور کارآمد فضلاء کو مدارس میں جگہ صرف اس لیے نہیں ملتی کہ وہ خود دار ہوتے ہیں ، ان میں جی حضوری اور چاپلوسی کا مادہ یا تو کم ہوتا ہے یا سرے سے ہوتا ہی نہیں ، ایسے لوگ مہتممین کی مطلق العنان حکمرانی میں خلل کا باعث ہو جاتے ہیں ، ان کی جگہ خصیہ برداروں کو دی جاتی ہے ، جن کا واحد سرمایہ بس یہی ہوتا ہے ، اس کا راستہ کٹ جاتا ہے اور وہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں ضم ہو جاتے ہیں ۔

    وہ وقت دور نہیں جب ہم دیکھیں گے کہ شیخ الحدیث بھی سبق بجائے نفس کتاب کے شروحات کھول کے ، سامنے رکھ کر پڑھا رہا ہوگا۔ باقی نیچے والے مدرسین کا خود سوچیں کہ کیا ہوگا ؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ مدارس کے نظام کو ازسرنو تعمیر کیا جائے ، مہتمم گردی کی بیخ کنی کے ساتھ اس کی بنیاد عدل و مساوات ، ایمانداری و پرہیزگاری پر رکھی جائے ۔ اگر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ یہ اعلان کر سکتے ہیں کہ ایک عام آدمی کے برابر میرا وظیفہ مقرر کیا جائے تو پھر آج کا مہتمم کیوں ایک عام مدرس کے بقدر تنخواہ نہیں لے سکتا ؟ یا عام مدرس کی تنخواہ اپنے وظیفے کے برابر نہیں دے سکتا؟ اسی کے ساتھ ایک نئے تربیتی نظام کے قائم کرنے کی بھی ضرورت محسوس کی جارہی ہے ؛ جو نئے فضلاء کی روحانی تربیت کا باعث بنے ، جس سے ان کی حوصلہ افزائی بھی ہو سکے۔

#salary-of-madarsa-teacher #teacher #salary #madarsa #DarululoomDeoband

محترم قارئین!  

مذکورہ مضمون کے سلسے میں اپنی رائے کمینٹ میں ضرور لکھیں۔

   شکریہ  


 وضاحت  برائے رابطہ : 
ہر طرح کے علمی،فکری و اصلاحی مضامین پڑھنے کے لیے، ہر طرح کے اسلامی و سیاسی خبروں سے واقفیت کے لیے 
درج ذیل لنکس پر کلک کریں، یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کریں۔ شکریہ
محمد امتیاز پَلاموی،مظاہری
7079256979| 6397254972


  مضمون پسند آئے تو واٹس ایپ،فیس بک اور ٹویٹر جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر کریں۔ شکریہ  

Post a Comment

0 Comments