تبلیغی جماعت ایک فتنہ بنتی جا رہی ہے خاص کر امارت والی جماعت
امارت و شوریٰ
نوٹ: مضمون نگار نے جو لکھا ہے وہی پیش کیا جا رہا ہے
یہ تو تاریخ رہی ہے کہ تبلیغی جماعت والوں نے ہمیشہ علماء ، مدارس اور خانقاہ والوں کو بہت پریشان کیا ہے، یہ سیاہ دھبہ ان کے دامن سے کبھی بھی ہٹ نہیں سکتا۔ تاہم تبلیغی افراد عموماً تبلیغ کا کام اللہ کی رضا کے لئے کرتے تھے، لیکن اختلاف بلکہ فتنہ کے بعد اب یہ لوگ کام اللہ کی رضا کے لئے نہیں،بلکہ اپنی اپنی پارٹی سے جوڑنے کے لیے کرتے ہیں، خاص کر امارت والوں نے تو انتہا کر دی ہے، ان کو تو اب رضائے الہی سے کوئی مطلب ہی نہیں رہا ہے۔صرف نظام الدین مرکز سے جوڑنے کی فکر ہے۔
اس میں سب سے زیادہ فتنہ امارت والے پھیلا رہے ہیں، آج تک یہ امارت والے ان جماعت والوں کو پریشان کرتے تھے جو شوری کے ماتحت کام کرتے تھے یا صرف شوریٰ کی جماعت اپنی مسجد میں ٹھہراتے تھے، لیکن اب یہ لوگ ان مدارس والوں کو اور ان علماء کو بھی پریشان کرنے لگے ہیں، جو امارت و شوری کے فتنہ سے دور رہتے ہیں۔
ان کا قصور یہ ہےکہ وہ اپنی مسجد میں امارت کی جماعت کے ساتھ ساتھ شوری کی جماعت کو ٹھہراتے ہیں۔ شوری کے تئیں نرم رویہ رکھتے ہیں۔
راجستان میں یہ فتنہ زیادہ سر اٹھانے لگا ہے،امارت والے ان مدارس والوں کو چندہ بھی نہیں کرنے دیتے ہیں جو شوری کے لیے نرم رویہ رکھتے ہیں، حالانکہ ان کے مدرسہ میں امارت اور شوری دونوں کی ذمہ دار آتے ہیں، یا دونوں جماعتیں قیام کرتی ہیں، یا دونوں میں سے کوئی نہیں کرتی ہیں۔(اختلاف اور فتنوں سے بچنے کے لئے دونوں سے تعلق تو رکھتے ہیں مگر اپنے یہاں کوئی جماعت نہیں ٹھہراتے ہیں۔)
اگر راجستھان کے کسی بااخلاق امارتی عالم نے یا اس فتنہ سے دور رہنے والے کسی عالم نے مدارس کے کام کاج یا علم کے لیے (گجرات کے مدارس جیسی ابتدائی تعلیم دوسری جگہ بہت کم ہوتی ہے، اور قرآن کریم کی تعلیم میں تو ان کو نمایاں مقام حاصل ہے۔) گجرات والوں سے تعلق رکھ لیا تو پھر اس کے سر پر چڑھ جاتے ہیں۔
حالاں کے راجستھان میں کئی ایسے دیہات ہیں جہاں امارت والا نظام قائم ہے، لیکن وہاں مکتب گجرات کے ماتحت چلتا ہے، پھر بھی مکاتب کے ذمہ داروں نے کبھی بھی گجرات سے جماعت نہیں بلائی اور نہ شوری کی جماعت بلائی، وہ تنظیمیں بہت احتیاط کرتی ہیں، وہ تنظیمیں صرف اور صرف بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیتی ہیں۔ امارت اور شورہ کے فتنہ سے بہت دور رہتی ہیں۔
بعض جگہ دیکھا گیا اگر سفیر رات کو کسی امارتی بستی یا مسجد میں پہونچ گیا تو قیام نہیں کرنے دیتے اور راتوں رات وہاں سے روانہ کر دیتے ہیں، اگر سفیر گجرات کا ہے تو پھر ان کے تیور کے بارے میں پوچھو مت. (حالانکہ راجستھان میں جو بھی دین کی چمک دمک ہے وہ صرف اور صرف گجرات والوں کی دین ہے، اختلاف اپنی جگہ پر، مگر احسان کا بدلہ تو اچھا دینا چاہیے۔) یہ لوگ تو بریلویوں سے بھی زیادہ خطرناک بنتے جا رہے ہیں۔
جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ مدارس والوں کو چندہ سے کیوں روک رہے ہیں ؟ سفراء کو اپنی مسجد میں کیوں نہیں ٹھہرنے دیتے ہیں؟ تو کہتے ہیں ہمیں اوپر سے اس کا حکم ہے۔ تو کیا ان کو اس کام کا حکم دہلی سے مولانا سعد صاحب نے دیا ہے یا مولانا چراغ الدین صاحب نے یا مولانا محفوظ صاحب نے یا مفتی امجد صاحب نے؟
اگر یہ حضرات اس کو برا سمجھتے ہیں ہیں تو ان کو چاہئے کہ اپنے ماتحت عملے کو سمجھائیں، ورنہ ایسا نہ ہو کہ کسی سفیر کی بد دعاء سے آپ کی دنیا و آخرت برباد ہوجائے۔
راجستھان کی امارت والی جماعت کے ذمہ دارو! اب معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ ہماری مسجد میں ایک صاحب بیان کر رہے تھے کہ بتاؤ گھر کے پاس مندر ہے اور مسجد دور ہے تو نماز پڑھنے کہاں جاؤں گے؟ وہ صاحب یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ اگر آپ کے گھر کے پاس شوری والی مسجد ہے تو وہاں نماز مت پڑھو، نماز امارت والی مسجد میں پڑھو، اگرچہ امارت والی مسجد دور ہو۔ ذرا سوچو تو سہی معاملہ کہاں تک پہنچ گیاہے۔
راجستھان کے ذمہ دارو! ان سب جرائم کے ذمہ دار آپ حضرات بھی ہیں، کل آنکھیں بند ہوگیں تب سب سمجھ میں آجائے گا۔
ابھی بھی وقت ہے امارت و شوری والے سب مل بیٹھ کر کوئی کوئی لائحہ عمل تیار کرو۔
ایک خیر خواہ
جو امارت و شوریٰ کے فتنہ سے بہت دور ہے، جب سے یہ اختلاف ہوا ہے بندہ نے جماعت میں جانا ہی چھوڑ دیا ہے۔ بندہ کا نہ امارت سے تعلق نہ شوری سے ۔ بندہ کی نمازیں امارت و شوری دونوں کی مسجد میں ہوتی ہے، بلکہ زیادہ تر امارت والوں کی مسجد میں۔ مگر ان سب باتوں کو دیکھ کر بہت تکلیف ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ امت کو سمجھ دیں، امت کو امت بنائیں، اور علماء کی قدر کی توفیق عطا فرمائیں۔
0 Comments