کیا قربانی کرناجانوروں پر ظلم ہے؟
قربانی پر اعتراض کا مکمل جواب
محمد عبیداللہ قاسمی بہرائچی
خادم : جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد
عنوان میں موجود سوال آج کل کا نہیں ہے، بلکہ صدیوں پرانا اعتراض ہے کہ قربانی کرنا جانوروں پر ظلم ہے، ان کے ساتھ نا انصافی ہے، حد سے تجاوز ہے اور غیر انسانی رویہ او سلوک ہے، ان بیچاروں کا کیا قصور ہے کہ ہم ان کی اجازت اور مرضی کے بغیر ان کو ذبح کردیں، کیا انھیں دنیا میں رہنے کا حق نہیں ہے؟ کیا انھیں دنیا میں انسانوں کی طرح آزادی نہیں ہے؟ مسلمان رحم دل نہیں ہوتے، ان کے سینے میں دل نہیں ہوتا، اس طرح کے اور بھی بہت سے جذباتی(Emotionally) اعتراضات غیر حضرات اہل اسلام پر کرتے ہیں، اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مذموم اور ناپاک کوشش کی جاتی ہے۔
مذکورہ اعتراض کے جواب میں مسلمانوں کے لیے تو صرف اتنی بات کافی ہے کہ یہ قربانی اللہ کا حکم ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تاکیدی فرمان ہے، اور اللہ تبارک و تعالیٰ جس چیز کا حکم کریں اس میں کوئی برائی نہیں ہو سکتی، وہ حکم ظلم اور ناانصافی پر مبنی نہیں ہو سکتا، اور جس چیز سے منع کریں اس میں کوئی اچھائی نہیں ہو سکتی، وہ حکیم ہے اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہو سکتا، اس لیے ایک مسلمان کو تو حکم خداوندی کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا چاہیے، خواہ اس کی عقل اسے تسلیم کرے یا نہ کرے، کیوں کہ ایمان اسی کا نام ہے کہ بلا چون و چرا ہر حکم خداوندی کو تسلیم کرکے اس پر عمل کریں، نہ کہ عقل کی بنیاد پر تسلیم کریں، پھر عمل کریں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جب کفار مکہ نے مذاقا یہ خبر دی کہ دیکھو تمھارا ساتھی کیا کہتا ہے؟ کیا بہکی بہکی باتیں کرتا ہے کہ راتوں رات معراج کا سفر کیا، بیت المقدس گئے، جنت و جہنم کی سیر کی اور رب کائنات سے ملاقات کی۔ان کے کہنے کا منشا یہ تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی اس واقعہ کا انکار کر دیں گے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے راتوں رات جنت و جہنم کی سیر ہو جائےاور خدا تعالیٰ سے ملاقات ہو جائے اور پھر اسی رات واپسی بھی ہو جائے؛ لیکن قربان جائیے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت, عقیدت پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا اور صادق ماننے پر کہ کفارہ مکہ کی بات سنتے ہی فرمایا : اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ بات کہہ رہے ہیں تو بالکل برحق ہے، اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہو سکتا، یہ سننا تھا کہ کفار مکہ کے چہرے کا رنگ پھیکہ پڑگیا، ان کے چہرے پرہوائیاں اڑنے لگیں، ہکے بکے رہ گئے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اتنی غیر معقول بات کو بھی صرف اس بناء تسلیم کر لیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے تو سچ ہے ۔ یہی ہے اصل اطاعت شعاری امتثال امر اور ہر حکم پر سر تسلیم خم کر دینا کہ عقلی گھوڑے دوڑائے بغیر ہر حکم خداوندی کو تسلیم کر لیا جائے ۔
البتہ چوں کہ غیر حضرات اسلام اور شریعت کو نہیں مانتے، اس لیے غیروں کو عقل کی روشنی میں سمجھانے کی ضرورت پڑتی ہے، اس کے بغیر ان کو اطمینان نہیں ہوتا۔
تو آئیے ہم عقل کی روشنی میں اس کا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں کہ کیا واقعتاً قربانی کرنا جانوروں پر ظلم ہے، یا قانون فطرت کے عین مطابق ہے اور اعتراضات محض دھوکہ ہیں، تو اس کو سمجھنے کے لیے چند نکات کو مستحضر کرنا ضروری ہے، چنانچہ پہلے الزامی دلائل پیش خدمت ہیں ۔
*[1]* بیل، بھینس، گھوڑا، گدھا اور خچر وغیرہ جانوروں سے سبھی بلا جھجھک بغیر شرم و عار کے سواری کا کام لیتے ہیں، ان کی پشت پر بھاری بھرکم وزنی سامان رکھ کر بار برداری کا کام لیتے ہیں، کھیت جوتنے میں استعمال کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ، کیا یہ سب کام ہم ان کی اجازت سے کرتے ہیں؟ ہمیں کس نے حق دیا کہ یہ سارے کام ان سے لیں؟ اگر یہ ظلم نہیں، تو قربانی کرنا ظلم کیوں؟ ہاں چھوٹے بڑے ظلم کا فرق ہو سکتا ہے کہ ذبح کرنا بڑا ظلم ہے اور مذکورہ کام لینا چھوٹا ظلم ہے؛ لیکن ظلم تو دونوں ہیں، اگر ظلم ہے، تو نہ بڑے ظلم کی اجازت ہونی چاہیے اور نہ ہی چھوٹے کی، اور دونوں پر اعتراض ہونا چاہیے؛ جبکہ اعتراض صرف قربانی پر ہے ۔ یہ دوہرا پیمانہ کیوں؟
*[2]* گائے، بھینس اور بکری وغیرہ کا دودھ نکالتے ہیں، اور سبھی پیتے ہیں، یہ دودھ کس کی پرمیشن سے نکالتے ہیں، کیا اس بے زبان وبے سہارا جانور کی کوئی ویلیو نہیں ہے؟ اگر یہ بھی ظلم ہے تو اعتراض کرنے والوں کو دودھ نکالنا اور پینا چھوڑ دینا چاہیے، یہ کیا منافقت ہے کہ "میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو"
*[3]* چڑیا گھروں میں بے شمار جانور اور پرندے ہوتے ہیں، شیر کئی قسم کے، چیتا، زیبرا، ہاتھی، سانپ، ہرن، مگر مچھ، اور اتنے نادر نادر جانور ہوتے ہیں کہ ایک مجلس میں سب کا نام یاد آنا بھی انسانی ذہن کے بس کی بات نہیں، اور ان سب کی مختلف انواع ہوتی ہیں، اسی طرح سینکڑوں قسم کے پرندے ہوتے ہیں، ان سب کو چڑیا گھروں کی چہار دیواری میں محبوس کر دیا جاتا ہے صرف اور صرف حکومتی اور سرکاری فائدے کے لیے کہ ان سے بڑی انکم ہوتی ہے، اور یہ چڑیا گھر پوری دنیا میں ہیں؛ بلکہ ہر ملک کے ہر بڑے شہر میں ہیں، ان جانوروں کا کیا قصور ہے کہ انھیں عمر قید کی سزا سنا دی جاتی ہے، کیا انھیں آزاد رہنے کا حق نہیں ہے؟ کیا یہ قید وبند نا انصافی اور ظلم نہیں ہے؟ اگر ظلم ہے تو ان چڑیا گھروں پر آوازیں کیوں نہیں اٹھتیں؟ ان کو بند کرنے کے مشورے کیوں نہیں دیے جاتے؟ حکومتوں پر سوال کیوں نہیں کھڑے کیے جاتے؟ صرف قربانی ہی میں ظلم کیوں نظر آتا ہے؟
*[4]* دنیا میں جتنے بھی جاندار ہیں اکثر کی غذا اور کھانا کوئی نہ کوئی جاندار یا کیڑا مکوڑا ہے، شیر کو انسانی گوشت سب سے زیادہ محبوب ہے۔ سمندر کی بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہیں، کتے کو گوشت پسند ہے۔ بلی چوہے کو کھاتی ہے۔ چھپکلی کیڑوں کو کھاتی ہے۔ جونک، مچھر، جواں اور کھٹمل انسان کا خون پیتے ہیں، اور تقریبا تمام جنگلی جانوروں کی خوراک کوئی دوسرا جانور ہے، کیا ان سب جانوروں کو ظالم کہا جائے، یقیناً نہیں کہا جائے گا اور کوئی کہتا بھی نہیں، ہر انسان یہی سمجھتا ہے خدا نے ان کی روزی کہ یہی مقدر کی ہےاور یہی ان کا کھانا ہے، ورنہ یا تو جانوروں کو ظالم کہیں گے(جو کہ حماقت ہے) یا (نعوذ باللہ) خدا کو ظالم کہنا پڑے گا کہ اس نے جانوروں کی روزی اس طرح کیوں بنائی، اور ظاہر ہے کہ خدا کو کوئی دوش نہیں دیتا، بلکہ ہر ایک یہی سمجھتا ہے کہ ان جانوروں کی کی روزی اور غذا ہی یہی ہے، تو جب یہ جانور ظالم نہیں ہوئے، تو انسان جانور کی قربانی کرکے ظالم کیوں ہوا؟ یہاں کیوں نہیں کہا جاتا کہ خدا نے جانوروں کو انسان کی روزی بنائی ہے؟ یہ کیسی دو رخی ہے کوئی سمجھائے ذرا۔
*[5]* سانپ، بچھو، مچھر، کھٹمل، جواں، چوہا، مکڑی، چھپکلی، گرگٹ، ان سب کو ہم بلا جھجھک دیکھتے ہی مار دیتے ہیں، کیا یہ ظلم نہیں؟ کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ تکلیف دینے والے جانور ہیں اس لیے مار دیا جاتا ہے، اور یہ اپنی حفاظت کے لیے ہے، تو اس سے سوال ہوگا کہ کیا مچھر، جواں، اور کھٹمل کے تھوڑا سا خون چوسنے کا بدلہ سزائے موت ہے، یہ کہاں کا قانون اور انصاف ہے؟کیا بچھی کے ڈنک مارنے اور سانپ کے کاٹنے سے پہلے ہی ان کو مار دینا جبکہ ان کا ارادہ حملے کا نہ ہو، یہ ظلم نہیں ہے؟ مکڑیوں کو مار دیتے ہیں، جالے صاف کرکے ان کا گھر تہس نہس کر دیتے ہیں، خواہ وہ جالا اپنے گھر میں ہو کسی اور جگہ، کیا کسی انسان کا گھر اس طرح توڑ سکتے ہیں؟ کیا کورٹ کچہری میں اتنے معمولی سے قصور پر اس طرح کی خطرناک سزائیں ہوتی ہیں؟ اگر عدل وانصاف کا اتنا ہی بھوت سوار ہے تو ان بے زبان مظلوم جانوروں کے لیے بھی کورٹ کچہری ہونی چاہیے، تاکہ یہ وہاں فریاد رسی کر سکیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ظلم صرف قربانی میں نظر آتا ہے، اس کا مطلب دال میں کالا ہے۔
[6] جو لوگ ہم پر اعتراض کرتے ہیں، انھیں خود اپنی گریبان میں جھانکنا چاہیےکہ خود ان کے بہت سارے مندروں میں بھی جانوروں کی بلی چڑھائی جاتی ہے، کیا اس کو جانوروں کے ساتھ رحم دلی کہیں گے؟ کیا یہ ظلم نہیں کہلائے گا؟ یہ سوال آتے ہی ان کا سر بھی خم ہو جاتا ہے اور تھوڑی دیر کے لیے زبان و قلم پر لغزش طاری ہو جاتی ہے، اور مزے کی بات تو یہ کہ مسلمان تو جانور ذبح کرکے گوشت کھا لیتے ہیں، اور ان کے یہاں تو گوشت کھانے کی اجازت نہیں ہے، گویا جانور بلا وجہ ذبح ہو گیا، تو انھیں تو ہمارے مذہب سے زیادہ اپنے دھرم پر اعتراض ہونا چاہیے ۔
تحقیقی جواب
[1] آج کی سائنس نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ پیڑ پودوں میں بھی روح اور جان ہے، اور کوئی بھی اناج بغیر پیڑ پودے کے پیدا نہیں ہوتا، پیڑ پودوں کو کاٹ کر ہی ان سے اناج حاصل کیے جاتے ہیں، تو اگر معترضین کے بقول جانوروں کو ذبح کرنا ظلم ہے، ان کو تکلیف پہنچانا ہے،تو سبزیوں اور درختوں کو کاٹنا بھی ظلم ہے ان کے اندر روح ہونی وجہ سے، اس کا تقاضہ یہ ہے کہ سوال کرنے والوں کو نہ تو گوشت کھانا چاہیے اور نہ ہی سبزیاں، کوئی ایسی چیز کھانے کے لیے ایجاد کرنی چاہیے جس میں روح اور جان نہ ہو ۔
[2] دنیا میں تین طرح کے جانور ہیں: (1) جو صرف گوشت کھاتے ہیں، جیسے: شیر اور چیتا یا دیگر پھاڑ کھانے والے درندے (2) جو صرف گھاس اور اناج کھاتے ہیں، جیسے: بھینس، گائے، اور بکرا وغیرہ (3) جو اناج اور گوشت دونوں کھاتے ہیں، جیسے: انسان ۔ حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نوکیلے دانت خدا نے گوشت کھانے کے لیے بنائے ہیں اور چپٹے(Flat) دانت گھاس اور اناج کھانے کے لیے، اب ہم غور کرتے ہیں تو درندوں کے کے منھ میں صرف نو کیلے دانت ہیں، اس لیے وہ صرف گوشت کھاتے ہیں، اور بھینس، بیل، گائے، اور بکرا، بکری وغیرہ میں صرف Flat (چپٹے) دانت ہوتے ہیں؛ اس لیے وہ صرف گھاس اور اناج کھاتے ہیں، گوشت نہیں کھاتے، جبکہ انسانوں کو اللہ نے نوکیلے اور چپٹے دونوں طرح کے دانت دیے ہیں، اس کا مطلب یہ کہ انسان فطرتاً اناج اور گوشت دونوں کھا سکتا ہے، اب یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا نے صرف دانت دے دیے ہوں گوشت کھانے کے لیے اور اس کا انتظام نہ کرے، جس طرح جسم کے اندر ہر عضو(کان، آنکھ، اور ناک وغیرہ) کا ایک نفع ہے، انسان اس سے فائدہ اٹھاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس فائدہ کو حاصل کرنے کے راستے بھی ہموار کیے ہیں، اسی طرح جب اللہ نے انسانوں کو نوکیلے دانت دیے ہیں، تو اس کا بھی فائدہ ہونا چاہیے، اور وہ فائدہ حاصل بھی ہونا چاہیے، اور یہ فائدہ جانوروں کے گوشت سے ہی حاصل ہو سکتا ہے، ورنہ تو یہ لازم آئے گا کہ خدا نے(نعوذ باللہ) ایک بیکار چیز پیدا کی ہے اور یہ محال (Impossible) ہے، اور جو محال کو مستلزم ہو وہ بھی محال ہے، لہذا نتیجہ یہی نکلا جانوروں کو ذبح کرکے کھانا ظلم نہیں ہے؛ اس لیے کہ اللہ نے جانوروں کو انسان کی غذا اور خوراک بنائی ہے سبزیوں اور دیگر اناج کی طرح، تو جس طرح دیگر چیزوں کے کھانے پر اعتراض نہیں ہوتا، اسی طرح جانوروں کو ذبح کرکے ان کا گوشت کھانے پر بھی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
مذکورہ الزامی وتحققي دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح اور منقح ہو گئی کہ جانوروں کو اللہ نے انسانوں کے کھانے ہی کے لیے پیدا کیے ہیں، ورنہ وہ سارے کام جو ہم جانوروں سے لیتے ہیں، یا ان کو اپنے فائدے کے لیے مارتے ہیں، وہ سب ظلم کے دائرے میں آجائے گا، جس کا کوئی بھی قائل نہیں، اسی طرح یہ لازم آئے گا کہ اللہ
نے بلاوجہ انسانوں کو نوکیلے دانت دیے، جبکہ اللہ کا کوئی کام بلاوجہ نہیں ہوتا، اس لیے مسلمانوں پر یہ اعتراض کرنا کہ وہ جانوروں پر ظلم کرتے ہیں، ان کے اندر رحم نہیں ہوتا، یہ سب حقیقت سے پرے ہے، مقصد تخلیق خداوندی سے ناواقفیت کی دلیل ہے، اللہ تبارک وتعالی ہم سب کو دین کا صحیح فہم عطاء فرمائے اور ہر طرح کے شکوک وشبہات سے حفاظت فرمائے۔ آمین
0 Comments