اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح
سلسلہ نمبر 290
قربانی کے نصاب میں قرض اور واجبُ الاداء رُقوم سے متعلق احکام
▪سلسلہ مسائلِ قربانی نمبر: 🔟 (تصحیح ونظر ثانی شدہ)
قربانی کے نصاب میں قرض اور واجبُ الاداء رُقوم سے متعلق احکام
قربانی کے نصاب کا حساب لگاتے وقت قربانی کے اموال میں سے قرضوں اور واجب الاداء رقوم کو منہا یعنی منفی کیا جاتا ہے، اس کے بعد بھی اگر باقی مال نصاب کو پہنچتا ہو تو قربانی واجب ہوگی ورنہ تو نہیں۔
📿 *منہا کیے جانے والے قرضوں اور واجب الاداء رقوم کی تفصیل:*
یہ بات تو واضح ہے کہ کل اموالِ قربانی میں سے قرضے اور واجب الاداء رقوم منہا کیے جاتے ہیں، ذیل میں اس کی متعدد مثالیں ذکر کی جاتی ہیں:
▪مکان، دکان یا گاڑی وغیرہ کا کرایہ۔
▪قرضہ۔
▪اسکول، انسٹیٹیوٹ اور دیگر تعلیمی اداروں کی فیسیں۔
▪فون، گیس، بجلی اور پانی کے بِل یا دیگر سرکاری اور غیر سرکاری اخراجات کے بِل۔
▪ادھار پر لیے ہوئے گھریلو راشن کے بِل۔
▪ملازمین کی تنخواہیں اور مزدوروں کی اجرت۔
▪ادھار اور قسطوں پر لیے ہوئے سامان، دکان، مکان یا گاڑی وغیرہ کی رقم۔
▪ادھار پر لیے ہوئے مالِ تجارت کی رقم۔
▪کمیٹی اور بی سی وصول کرنے کے بعد اس کی بقیہ قسطیں۔
▪بیوی کا مہر جو کہ ادا نہ کیا ہو البتہ ادا کرنے کی نیت ہو، چاہے معجل ہو یا مؤجل۔ (البتہ بعض اہلِ علم کے نزدیک مہر مؤجل منہا نہیں کیا جائے گا۔)
مذکورہ واجب الاداء رقوم اس وقت منہا کی جائیں گی جب یہ قربانی کے تین دنوں میں واجب ہوچکی ہوں، بھلے قربانی کے ایام ہی میں واجب ہوچکی ہوں یا اس سے پہلے واجب ہوچکی ہوں۔ (رد المحتار، فتاویٰ ہندیہ)
📿 *دوسروں کے ذمے قرضوں اور ادھار رقوم کا حکم:*
دوسروں کو دیے جانے والے قرضے یا دوسروں کے ذمے ادھار رُقوم بھی اموالِ قربانی میں شمار ہوتے ہیں، اس لیے قربانی کے نصاب میں ان کا بھی حساب لگایا جائے گا، البتہ یہ اس صورت میں ہے کہ جب ان قرضوں اور ادھار رقوم کے ملنے کی امید ہو بھلے تاخیر سے ہی کیوں نہ ہو، لیکن اگر ان کے ملنے کی امید نہ ہو تو ایسی صورت میں ان پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔ (رد المحتار، فتاویٰ ہندیہ)
📿 *دوسروں کے ذمے قرضوں اور ادھار رقوم کی تفصیل:*
جیسا کہ ماقبل کی تفصیل سے معلوم ہوا کہ دوسروں کو دیے گئے قرضوں اور ادھار رقوم کو قربانی کے نصاب میں شمار کیا جائے گا، چوں کہ بہت سے حضرات کو ان کی تفصیلات معلوم نہیں ہوتیں اس لیے ذیل میں ان کی متعدد مثالیں ذکر کی جاتی ہیں:
▪قرضے۔
▪ادھار اور قسطوں پر فروخت کیے جانے والے مال اور سامان کی رقم۔
▪انشورنس یعنی بیمہ پالیسی میں جمع کرائی گئی اصل رقم۔
▪پرائز بانڈ کی اصل رقم۔
▪بینک اکاؤنٹ میں جمع کرائی گئی رقم۔
▪ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں جمع کرائی گئی رقم۔
▪کمیٹی یعنی بی سی میں جمع کرائی گئی رقم جبکہ بی سی اب تک وصول نہ ہوئی ہو۔
▪بچت سرٹیفیکیٹ جیسے NIT, NDFC, FEBC میں جمع کرائی گئی اصل رقم۔
ان تمام رقوم کو قربانی کے نصاب میں شامل کرکے حساب لگایا جائے گا۔ (رد المحتار، فتاویٰ ہندیہ)
📿 *کمیٹی یعنی بی سی سے متعلق قربانی کا تفصیلی حکم:*
کسی نے کمیٹی یعنی بی سی ڈالی ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں:
1⃣ ایک یہ کہ اگر کمیٹی لے چکا ہو تو اس صورت میں جتنی قسطیں دینی ہوں وہ اس پر قرضہ ہیں، قربانی کے نصاب کا حساب لگاتے وقت اس قرضے کو نکال کے حساب لگائیں گے۔
2️⃣ دوسری صورت یہ کہ اگر کمیٹی نہیں لی ہو تو جتنی قسطیں جمع کراچکا ہو وہ تمام رقم اس کا قرضہ ہے، قربانی کے نصاب کا حساب لگاتے وقت اس کو بھی جمع کرکے حساب لگائیں گے۔ (رد المحتار، فتاویٰ ہندیہ)
▪ *مسئلہ:*
کسی صاحبِ نصاب شخص نے دوسرے کو قرض دیا ہو اور اس کے پاس قربانی کے ایام میں قربانی کرنے کے لیے رقم نہ ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ قرض دار سے اس قدر رقم کا مطالبہ کرے کہ جس کے ذریعے قربانی کی جاسکے، لیکن اگر وہ رقم نہ دے سکتا ہو تو ایسی صورت میں اس صاحبِ نصاب شخص کے ذمے قربانی واجب نہیں۔ (فتاویٰ عثمانی)
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی
10 ذو القعدہ1441ھ/ 2 جولائی 2020
0 Comments