حضرت مجدِّد ا لفِ ثانی رحمہ اللہ تعالیٰ اور دینِ الٰہی

حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ اور دین الٰہی


   رشحاتِ قلم: محمد امتیاز پَلاموی ، جھارکھنڈ  
 خادمِ تعلیمات جامعہ امداد العلوم الاسلامیہ مکھیالی ضلع مظفرنگر ( یوپی ) الھند 

    نحمدہ، و نصلی علیٰ رسولہ الکریم اما بعد!   
    حضرات سامعین کرام!

    حضرت مجدد الفِ ثانی رحمہ اللہ کے تذکرہ سے قبل یہ وضاحت کردینا مناسب سمجھتا ہوں کہ یوں تو احمد نام کے سینکڑوں انفاس قدسی نے جنم لیا اور امام احمد ابن حنبل ؒ جیسے جبال العلم بھی فہرستِ آفرینش ہوئے؛ لیکن تاریخِ اسلامی میں احمد نام کی دو شخصیتیں ایسی ہیں کہ ایسی شخصیت نہ احمد اوّل سے قبل کوئی تھی اور نہ ہی ایسی شخصیت احمد ثانی کے بعد پیدا ہونے کی امید ہے۔ احمد اول سے مراد لولاک لما خلقت الافلاک کے مصداق ،سید الاولین والآخرین خاتم النبیین احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ؐ ہیں؛جبکہ احمد ثانی سے مراد علامہ اقبال کے شعر :

ہندمیں سرمایۂ ملّت کے نگہبان 

اللہ نے بروقت کیا جس کو خبر دار

کے مصداق ، فخرِ برِّ صغیر شیخ احمد سرہندی کی ذاتِ گرامی ہے۔ اور یہی شخصیّت مرادِ قلم ہے۔

    حضرات سامعین کرام!

    میرے مقالہ کا عنوان '' مجدِّد الفِ ثانی اور دینِ الٰہی '' تک پہنچنے سے قبل دین الٰہی اور اسکے بانی کا تعارف ضروری ہے۔

مجدِّد ِ دین الٰہی کا تعارف

    اس دین الٰہی کا بانی جلال الدین شاہ اکبر ہے جس نے اپنے دورِ حکومت میں تمام مذاہبِ ہند کو یکجا کرنے کی غرض سے اس دین کو ایجاد کیا۔ در اصل شاہ اکبر کوئی زیادہ پڑھا لکھا انسان نہیں تھا جس کی قوّتِ علم نے اتنا بڑا کارنامہ انجام دینے کی کوشش کی ہو؛ بلکہ وہ تو ایک کم علم آدمی تھا جو ٩٦٣ھ؁ میں اپنے باپ کے ورثہ میں حاصل کردہ حکومت کی بنا پر پروان چڑھا ۔

تخلیقِ دینِ الٰہی کے وجوہات

    جب شاہ اکبر تخت سلطنت پر بیٹھا، تب ہندوستان میں ۹۰ /فیصد ہندو آبادی تھی اور مسلمان صرف ١٠/ فیصد کی آبادی میں تھے۔ ہندؤوں کو گلے لگائے بغیر حکومت کی بقا و استحکام ناممکن تھا؛ اس لیے اکبر نے اپنے دربار میں ہندؤوں کو دعوت دی اور برہمنوں کے ایک جمِّ غفیر کو اپنے دربار کا حلقہ بگوش بنا لیا۔ ایک طرف برہمن جیسی مسلم کٹر دشمن قوم کو گلے کا ہار اور زینتِ دربار بنا یا؛ جو شاہِ اکبر کوخواب و خیالات کی دنیا کی سیر کراتے اور اکبر کو پرانی روایات کا حوالہ دیکر یہ بتلاتے تھے کہ

 '' جہان کا فتح کرنے والا ایک بادشاہ ہندوستان میں پیدا ہوگا جو برہمنوں کی عزت کرے گا ،گائے کی حفاظت کریگا اور عالم کی نگرانی انصاف کے ساتھ کریگا'' 

    دوسری طرف کچھ علماء سوء ، بادشاہ کے چمچے اور صوفی کی بھیس میں دربارِ شاہی کے ٹکڑوں کے لالچی اکبر کی شان میں قصیدہ خوانی کرتے ، جامع المذاہب کے لقب سے نوازتے، ہزارصدی پر ایک شاہِ عادل ہونے کی خوشخبری اور مجدِّدِ دین و ملّت ہونے کی بشارت دیتے ، اور سلف کی عبارتوں کا غلط مطلب بیان کرکے شاہِ اکبر پر چَسپاں کرتے کہ یہ بشارت آپ کے لیے ہے؛ چنانچہ ایک شیعہ عالم نے مولانا محمود بسخوانی کی ایک کتاب سے عبارت قطع کی جس میں لکھا تھا کہ '' نو سو نوے (٩٩٠) ہجری میں باطل کا مٹانے والا ایک صاحب حق پیدا ہوگا '' اس شیعہ عالم نے اس عبارت کا مصداق شاہِ اکبر کو قرار دیا۔

    ایک طرف تو اکبر کی شان میں یہ کارستانی کی گئی او ر دوسری طرف یہ گل کھلائے گئے کہ ، شاہِ اکبر اوّلاً دین دار اور نمازی آدمی تھا ، اس کے دربار میں علما ء کا ہجوم رہتا تھا اور علمی مجلسیں لگتی تھیں، لالچی اور دنیا کے حریص علماء قربِ شاہی کے حصول کی خاطر ، ایک دوسرے سے برتری حاصل کرنے کی کوشش میں بحث و مناظرہ تک پہنچ جاتے ، جس سے اکبر دل برداشتہ ہوتا۔ مزید برآں کہ ملّا مبارک او راس کے دونوں فرزند ( ابوالفضل اور فیضی ) جیسے جیّد علماء بھی وہاں چمچا گیری کرتے اور اکبر کو مجتہدِ مطلق کے لقب سے نوازنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ ملا مبارک نے شاہ اکبر کے ایماء پر ایک محضر نامہ تیار کیا جس میں صاف طور پر یہ لکھا کہ '' جہاں پناہ امام اور مجتہد وقت ہیں ، انہیں اپنے فرمان کے اجراء میں خواہ وہ دینی ہو یا دنیوی کسی عالمِ دین کی کوئی ضرورت نہیں''۔   

    ملا مبارک کی یہی رائے اوریہی تاریخی محضر نامہ ہے جو اکبر اور اس کی مملکت کے رخ کے پھیرنے میں سنگِ بنیاد ثابت ہوا،اور اسی کو ذہنی وتہذیبی ارتداد کے پورے قصر کا صدر دروازہ کہاجاسکتا ہے۔ یہ محضرنامہ رجب ٩٨٧ھ؁ میں تیار کیا گیا اور اکبر کے ایماء پر تمام درباری علماء نے دستخط کیے اور اسکا مملکت میں نفاذ ہوا ۔اس محضرنامہ کی رو سے اکبر امام مجتہد،واجب الاطاعت اور خلیفۃ اللہ قرار پایا ۔ اور یہی اس سفر''ِ دین الٰہی '' کا نقطئہ آغاز ہے، جو نہ صرف دینِ اسلام سے انحراف ؛ بلکہ اس سے عناد و اختلاف پر جاکر مکمّل ہوا۔

دینِ الٰہی کا اجراء

    بادشاہ کو مجتہد مطلق اور مطاعِ حق بنا دینے کے بعد دوسرا قدم یہ تھا کہ ظہورِ اسلام پر ایک ہزار سال گذررہے ہیں اور دوسرے ہزار سال کا آغاز ہورہا ہے،اس لیے اس نئے ہزار سال سے دنیا کی ایک نئی عمر شروع ہوگی، اس کے لیے ایک نیا دین، ایک نیا آئیں ،ایک نیا شارع اور ایک نیا حاکم چاہئے اور اس کے لیے شہنشاہ اکبرجیسے صاحب تاج و نگیں،امامِ عادل اور امامِ عاقل سے بڑھ کر کوئی موزوں نہیں۔

    اس فیصلہ کے بعد وہ تمام تبدیلیاں شروع کردی گئیں جن سے یہ خیال مملکت میں عام اور پختہ ہوجائے ؛ چنانچہ پہلا حکم یہ دیا گیا کہ سکّے اور اشرفیوں میں ''الف'' یعنی ہزار کی تاریخ رقم کردی جائے تاکہ اشتہار کا کام کرے؛کیوں کہ اعلان و پرچار کے لیے سکّہ سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ؛ کیونکہ سکّہ کی رسائی ہر شخص تک ناگزیر ہے۔اس کے بعد ایک نئے دین اور ملّت کی بنیاد رکھ دی گئی ۔چوںکہ اس وقت تک الٰہ اور خدا کا تصوُّر باقی تھا اس لیے الٰہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے اس دینِ جدید کا نام ''دینِ الٰہی'' یا ''الٰہی مذہب‘‘ رکھا گیا۔

دینِ الٰہی کے احکامات

    اس دین الٰہی میں توحید کے بجائے،آفتاب و ماہتاب اور کواکب پرستی،گائے کی پوجا اورشجروحجر کی عبادت تھی۔ایمان بالبعث کے بجائے تناسخِ ارواح کا عقیدہ تھا،معراج و اسراء کا استہزاء اور دینِ اسلام کی تحقیر اور مقامِ نبوّت کی اہانت تھی۔اوراگر فروعی احکام کی بات کریں تو اس دینِ الٰہی میں '' سود، جوا ،شراب نوشی اور لحمِ خنزیر کی حلّت ذبیحۂ گائے کی ممانعت اور قوانینِ نکاح میں شدید ترمیمات کی گئیں تھیں۔پردہ اور رسمِ ختنہ کی ممانعت تھی ،طریقہئ تدفین میں خاطر خواہ تبدیلی کردی گئی تھی،اسلامی تعلیمات کو ختم کرکے ہندوانہ رسم و رواج کو ہی دین کا اہم حصّہ شمار کیا جانے لگا تھا اورحد تو یہ ہے کہ نماز جیسی اہم عبادت پر مکمّل پابندی عائد کردی گئی تھی۔ 

    غرضیکہ اس دین جدید اور دینِ الٰہی میں مستقل ایک ہندی اکبری دین کی تدوین ہوئی تھی؛ جو دینِ مکیّ اور دین محمدؐی کے بالکل خلاف تھا۔اس دین الٰہی میں فطرتِ انسان کے قانونِ قدیم کے مطابق اس میں دین اور طریقۂ زندگی کا پلڑا جھکا ہوا تھا؛ جس کی طرف طبعی میلان اور تسکینِ نفس کا سامان تھا۔جب شاہِ اکبر کا ١٠١٤ھ؁ میں انتقال ہوا تب تک دین الٰہی کی ترویج ہوچکی تھی اور دین الٰہی پروان چڑھ چکا تھا جس کے خلاف آواز بلند کرنا یا اس کے مٹانے کی کوشش کرنا پہاڑ کو حرکت دینے کے مترادف تھا۔

    حضرت مجدِّد الفِ ثانی رحمہ اللہ کی ولادت با سعادت

عادۃ اللہ ہے کہ جب کبھی فرعون جیسا حاکمِ وقت اپنے کو خدا منوانے لگے تو اس کی بیخ کنی کے لیے اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مبعوث برِسالت کرتا ہے اور جب کبھی کفارِ مکہّ کی طرح لوگ بے دین ہوجائیں ، معبودِ حقیقی کو چھوڑکر کفروشرک کی تاریکی میں گم ہوجائیں تو نورِ ہدایت سے دنیا کو منوّر کرنے کے لیے محمدِ عربی اور احمدِ ؐ کو نبوّ ت و رسالت سے سرفراز فرماتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جب اکبری فتنہ نے حقیقی دینِ الٰہی کے مقابلہ میں نقلی دینِ الٰہی کو پیش کیا اور اس کی جڑ تناور ہوئی تو اس کی تقطیع و تقلیم اور حقیقی دین الٰہی کی تجدید کے لیے اللہ رب العزت اور خالق ِ کائنات نے ایک با ہمّت، با حوصلہ ،نہایت حکیم ،کریم النفس ،مدبر،ذہین و ذکی، نہایت شیریں و شستہ سخنور ،غیور و خوددار متبعِ سنت ، ماحیئ شرک و ضلالت اور قاطعِ بدعت جیسے صِفاتِ حمیدہ سے متصف شخصیت کو ١٤ شوال المکرم ٩٧١ھ؁ مطابق ١٥٦٢ء ؁ بروز جمعہ وجود بخشا۔

حضرت مجدِّد صاحب ؒ کی تعلیم و تربیت

    حضرت مجدد الفِ ثانی رحمہ اللہ کا نسب ٢٨ واسطوں سے امیر المؤ منین حضرت عمر بن خطاّب رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے، آپ کی تعلیم کی ابتداء حفظِ قرآن سے ہوئی اور تقریباً ٧ سال کی عمر میں حفظ کلام پاک کی تکمیل کرلی ،اور بقیہ علوم و فنون اپنے والد ماجد شیخ عبدالاحد صاحب چشتی ؒ اور علامہ کمال صاحب کشمیری ؒ سے حاصل کیے۔ تزکیۂ نفس کے لیے اپنے والد صاحب سے بیعت ہوئے ،بعدہ شیخ عبدالباقی المعروف بخواجہ باقی باللہ نقشبندی رحمہ اللہ سے رشتہ جوڑ کر سلسلۂ نقشبندیہ کی ترویج کی ۔ آپ ؒ ترقیاّت باطنی اور فضائل علمی و عملی میں اس درجہ کمال کو پہنچ گئے جس کی بشارت حضرت خواجہ صاحب ؒ نے اپنے اس قول سے دی تھی ''شیح احمد آفتاب است کہ مثل ما ہزار اں سیّاران در ضمن اینشاں گم اند''۔

نقلی دین الٰہی کا زوال

    ١٠١٤ھ ؁ میں شاہ اکبر کی وفات کے بعد نور الدین جہاں گیر تختِ سلطنت پر بیٹھا،نورالدین جہاں گیر کو اکبر کے بر خلاف اسلام کے متعلق سلامت روی اور حسنِ اعتقاد تھا ، اور اس کو اپنے آباء و اجداد کے دین و آئین کو چھوڑکر کسی نئے دین و آئین کے جاری کرنے سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔حضرت مجدّد صاحب ؒ نے بادشاہ کی اس سادہ طبیعت سے فائدہ اٹھاکر ہندوستان سے دین اکبری کے اثرات کو ختم کرنے کا ارادہ کرلیا ۔چنانچہ ! امراء سلطنت میں سے کچھ لوگ حضرت مجدّد صاحب ؒ کے جاہ و جلال اور نور باطنی سے متأثِّر تھے؛ اس لیے حضرت ؒ نے انہی امراء کبار اور ارکانِ سلطنت کو اپنا مخاطب بنایا ،ان سے مراسلت کا سلسلہ شروع کیا اور صفحہ قرطاس پر اپنے دل کے ٹکڑے اتار کر رکھ دئے۔اور یہی خطوط حضرت کی کامیابی اور نقلی دین الٰہی کے زوال کے سبب بنے ۔

    امراء سلطنت میں ایک شخص نواب سیّد فرید صاحب تھے جنہیں ارکانِ سلطنت اور صواب دیدرانِ مملکت میں نمایاں مقام تھا اور عہدِ اکبری سے سلطنت کے مقرّب اور معتمد تھے۔وہ حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ سے عقیدت رکھتے تھے،انکی سیادت اور دینی حمیّت سے حضرت مجدِّد ؒ نے فائدہ اٹھاکر ان کا اپنا فرضِ دینی و خاندانی ادا کرنے پر آمادہ کیا اور یہ کہ وہ بادشاہ جہاں گیر کو نیک مشورہ دیکر سلطنت کا رخ ،اکبر کے ڈالے ہوئے راستہ پر چلتے رہنے اور اسلام کے تقاضوں سے چشم پوشی و بے تعلّقی ، اسلام اور مسلمان کی کَسمپرسی سے حمایت ،دین اور شعائرِ اسلام کے احترام کی طرف موڑنے کی کوشش کریں۔حضرت مجدّد صاحب ؒ سید نواب صاحب کے نام خطوط لکھتے اور نواب صاحب بادشاہ کو وہ خطوط اپنے انداز میں سنا دیتے ، ان خطوط سے بادشاہ جہاںگیر متأثّرہوا اوراسے اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔ جہاںگیر نے فرمان جاری کیا کہ دین دار علماء کو تلاش کرکے علماء کے ایک وفد کو دربار میں حاضر رہنے پر آمادہ کریں،تاکہ بادشاہ کو نیک مشورہ سے نوازتے رہیں،بادشاہ حضرت مجدّد ؒ کے فقرو استغناء اور معمولات کی پابندی سے باخبر تھا اور اسیر گوالیر کے موقع پر اس نے حضرت کے زہدوتقویٰ ،روحانی فیوض و برکات اور رسوخ فی العلم کا تجربہ کرلیا تھا اس لیے بادشاہ حضرت مجدّد ؒ سے متأثّر ہوا اور رفتہ رفتہ حقیقی دینِ الٰہی پر عمل کرنے اور ملک میں اسی کے مطابق نفاذعمل ہونے سے اکبری دینِ الٰہی کا خاتمہ ہوا-

فالحمدللہ رب العالمین۔

Post a Comment

0 Comments