15 اگست یومِ آزٓدی پر شاندار تقریر (امتیازی تقریریں)

 ١٥ /اگست کا پیغام ہندوستانیوں کے نام

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


  محمد امتیاز پَلاموی،مظاہری   

نَحْمَدُہ، وَ ُنصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْمِ .اما بعد
اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ .
وقال النبی ؐ یُوْشَکُ الْاُمَمُ اَنْ تُدْعیٰ عَلَیْکُمْ کَمَا تُدَاعٰی الْآکِلَۃُ ِالیٰ قَصْعَتِھَا.

باطل سے دبنے والے ائے آسماں نہیں ہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
میرے عزیز دوستو!
    آج کے اس قومی یادگار کے دن مجھے حکم ہے کہ میں مغرب کی اس عیار اور انسانی درندہ یعنی انگریز کی اصلی صورت کی کچھ جھلکیاں پیش کروں تاکہ ہم سب کو یہ معلوم ہوجائے کہ یہ سفید قوم کس طرح ہمیں اسٹیج سے اتار کر کرسی ئ اقتدارپر جا بیٹھی ۔
حضرات ! یہ تاریخ ١٤٩٨ ئ؁ اس منحوس سال سے شروع ہوئی جبکہ آج سے پانچ سو سال پہلے سفید رنگ کے پہلے شخص نے سرزمینِ ہند پر قدم رکھا تھا،١٤٩٨ ئ؁ کے بعد سے تاریخ مختلف ادوار سے گذرتی ہوئی ١٩٤٧ ئ؁ کے اس تاریخی سال پر ختم ہوتی ہے جس میں برِّ صغیر ہندوستان اور پاکستان دو ملکوں میں تقسیم ہوجاتا ہے ۔


محترم سامعین!
    مغربی قوموں کی ہندوستان کے خلاف یورش یوں تو زمانہ درازسے جاری تھی لیکن صحیح معنی میں ہندوستان کی بدبختی کی ابتداء اس وقت سے ہوتی ہے جب انگریز دوسری تمام سفید قوموں کو شکست دینے کے بعد ١٤٥١ ئ؁ میں کرناٹک کی تیسری جنگ کے بعد کامیاب ہوکر غریب ہندوستان کی ہڈیوں پر برطانوی حکومت کے سنگ لا خ قلعے تعمیر کرنے لگتا ہے ۔

۱۵ اگست یومِ آزادی پر مختصر تقریر کے لیے مجھے دبائیں
محترم حضرات!
    یوں تو دنیا میں سکندر اعظم چنگیز خاں ،تیمور ، نیپولین اور دوسرے بڑے بڑے فاتح ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی غیر معمولی سپاہیانہ طاقت کے بل پر ملک کے ملک فتح کیے ہیں لیکن انگریز ان تمام فاتحان عالم سے بالکل مختلف ہے ۔دوسرے فاتحین نے جرأت ،ہمت اور بہادری کے ذریعہ فتوحات حاصل کی ہیں ؛ جبکہ انگریز چوروں ، ڈاکوؤںاور انتہائی درجہ کے فریب کاروں کی طرح ملک پر قابض ہوا ہے۔انگریز کی عیاری، مکاری اور دغابازی اظہر من الشمس ہے، کہ وہ روٹی کے چند ٹکڑوں کی خاطر تاجر کا بھیس بدل کر ملک ہند میں داخل ہوا اور پھرموقع ملتے ہی اپنے انہیں محسنوں کے گھر میں آگ لگا دی جنہوں نے ان کی نازک ترین وقت میں شکم پری کی تھی۔


محترم حضرات!

    ان سفید فاموں کی ابن الوقتی کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہوگی کہ ان کا محسن اعظم نواب انوار الدین والیئ کرناٹک تھا،مگر پہلی ہی فرصت میں اسی محسن کا گلاگھونٹ دیا،اور اس کی اولاد سے تخت و تاج چھین کر ان کو دو، دو آنہ کے لیے محتاج کردیا۔نظام دکن جو انور الدین کے بعد انگریز کا دوسرا بڑا محسن تھا ،لیکن تاریخ داں جانتے ہیں کہ اقتدار میں آتے ہی نظام کو بری طرح کچل کر رکھ دیا۔

میرے عزیزساتھیو!
    انگریز صرف محسن کش ہی نہیں بلکہ انتہائی درجہ کا عیار بھی ہے ؛ چنانچہ! محبِ وطن سراج الدولہ والیئ بنگال کے خلاف سازش کرکے اسے جس طرح شہید کیا ہے وہ اس کے پَست کیرکٹر کا نہایت ہی شرمناک نمونہ ہے۔ شیر میسور ٹیپو سلطان شہید مرہٹوں ، روہلوں،پنڈاریوں اور دوسری مقتدر طاقتوں کے ختم کرنے کے لیے مکاری کے جو حربے استعمال کیے ہیں اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں شاید ہی مل سکے ۔ بطور مثال ایک واقعہ ملاحظہ ہو!


    منگلور کے عہد نامہ کے مطابق انگریز ٹیہو کو اہنا دوست بنا چکے تھے اور وقتِ ضڑورت فوجی امداد کا بھی وعدہ کرچکے تھے؛ لیکن انگریزوں کو جیسے ہی حالات سازگار دکھائی دیے انہوں نے محسوس کیا کہ ٹیپو جنگ کے لیے تیار نہیں ہے تو سارے عہد نامہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دئیے اور طئے شدہ پروگرام کے مطابق شیر میسور کو ذلت آمیز خطوط لکھے گئے اور طرح طرح سے بھڑکایا گیا تاکہ پہل کرنے کا الزام بھی اسی کے سر تھوپا جا سکے ؛ مگر شیرِ میسور جو لائق ترین سپہ سالار ہونے ساتھ بہترین مدبر بھی تھا یہ سب کچھ برداشت کرتا رہا،اور جب یہ چال کارگر نہ ہوئی تو انگریزوں نے کہنا شروع کردیا کہ ٹیپو ہمارے حلیف راجہ ٹرانکور پر حملہ کرنا چاہتا ہے مگر جب ٹیپو نے ا ن کی بھی تردید کردی تو اس کو جھوٹا کہہ کر ایک دم یورش کردی گئی ، ٹیپو بہادری سے لڑا مگر شکست ہو گئی ، مجبوراٰ نہایت ہی گری شرطوں پر صلح کرنی پڑی جس میں ٹیپو کو ریاست میسور کے نصف حصہ سے ہاتھ اٹھانا پڑا ، تین کروڑ تیس ہزار تاوان جنگ ادا کرنا پڑااور شرائط طئے ہونے تک ٹیپو کے بیٹے بطور یرمغال انگریزوں کے پاس رہے،مختصر یہ کہ١٧٩٢ء ؁ میں شیر میسور کو پنجرے میں بند کر دیا گیا۔١٧٩٩ ئ؁ میںمکار سرویلری نے فقط اس لیے ریاستِ میسور پر چڑھائی کردی کہ ٹیپو فرانس سے تعلق کیوں بڑھارہا ہے؟ گویا اب اس ظالم کی اجازت کے بغیر کسی کو سانس لینے کا بھی حق نہیں تھا۔


    خیر بات دور نکلی جا رہی ہے ، میں کہہ رہا تھا کہ یہ سفید فام محسن کش ہی نہیں بلکہ پرلے درجہ کا فریبی بھی ہے،اسی کا نتیجہ تھا کہ ١٨٥٧ ئ؁ میں ملک کے کونے کونے میں نفرت کی آگ بھڑک اٹھی، اور حالات کی نا ساز گاری کے با وجود ہندوستانی قوم نے علم بغاوت بلند کردیا، جس کا نتیجہ اگرچہ بہت تلخ نکلا مگر دیوانوں کا ایک گروہ مستانوں کی پلٹن رُکنے کا نام نہ لیتی تھی، ہر فرد کی ژباں پر ایک ہی ترانہ تھا۔ع

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زورکتنا بازوقاتل میں ہے۔

    انہیں جذبات کا اثر تھا کہ انگریز سوچنے پر مجبور ہوا اور پرانا شکاری نیا جال لیکر سامنے آتا ہے ، ایک طرف تو ملک کوعیسائی بنانے کے لیے پادریوں کی پلٹن کی پلٹن بلائی گئی دوسری طرف کچھ اصلاحات دیکر اس غیور قوم کو ٹھنڈا کرنا چاہا۔ چنانچہ اصلاحات کا کام سب سے پہلے ١٨٩٢ ئ؁ میں انڈین کونسلر ایکٹ کے پاس ہونے کے بعد شروع ہوا ،مگر انگریز کی اس فیاضی میں بھی کتنا مکروفریب چھپا ہوا تھا اس کا اندازہ فرمائیے کہ جب جب بھی اصلاحات عطاء کی ہیں تو ان میں فرقہ پرستی کا زہر شامل کردیا ،چنانچہ ! ١٨٩٢ ئ؁ میں پہلی بار اس ملک کے باشندوں نے انگریز کی عنایت سے فرقہ وارانہ جھگڑوں کا منہ دیکھا۔

    اس کے بعد ١٩٠٩ ئ؁ میں منٹو مارلے اصلاحات کے بعد تقسیم بنگال کا نیا فتنہ کھڑا کرکے ہندو مسلم میں خوب منافرت پھیلائی گئی، پھر ١٩١٩ئ؁ میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کی رو سے جدید اصلاحات عطا کی گئیں اور ان کا نفاذ ١٩٢١ ئ؁ میں ہوا تو ان سفید فاموں کی جادوگری پورے ملک کو فرقہ وارانہ آگ کی نذر کردیا۔ اسی طرح جب اپنے اخیر زمانہ یعنی ١٩٣٥ ئ؁ میں ایک حد تک صوبجاتی خود مختاری دینے پر مجبور ہوا تو اس کے بعد بھی یہی ہوا کہ ایک بھائی نے دوسرے بھائی کی خوب آؤ بھگت کی اور انگریز کی دلی منشاء کوپورا کیااور اسکی سیاست ڈیوائیڈاینڈرول(Divide and roul)کو پورا کامیاب کیا۔اور جب ١٩٤٧ئ؁ میں دل پر پتھر رکھ کر انگریز کو یہ ملک چھوڑنا پڑا تو سن ١٩٤٦ئ؁ اور ١٩٤٧ئ؁ دونوں سالوں میں کیا کچھ ہوا یہ تو ابھی کل کی بات ہے جس کو سنانے والے وابھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔


سامعین کرام!
    اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا، کہ اگر انگریز اور کچھ انگریز نما ہندوستانیوں کی لگائی ہوئی اس آگ کو بجھانے کے لیے گاندھی جی ، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ ، مولانا ابو الکلام آزاد ؒ اور جواہر لال نہرو جیسے حضرات نے اپنی جان کی بازی نہ لگائی ہوتی تو نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارے ملک کا کتنا نقصان ہوتا ، لیکن ہمارے کانگریسی اور جمعیّۃ العلماء کے لیڈران نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر فساد کے بھڑکتے شعلوں کو ٹھنڈا کیا جو یقینا ان کا فرض تھا ۔ اللہ پاک انہیں اس قربانی کا بہترسے بہتر بدلہ عنایت فرمائے۔آمین


َلیکن ائے نونہالانِ وطن!
ائے میرے وطن کے با شعور لوگو!

    اس ملک کے سچے ہمدردوں! بلا شبہ آزادی سے پہلے جو فرض مجاہدین آزادی کا تھا وہ انہوں نے خوب طریقے سے نبھایااور وہ آزادی کی تاریخ کو اپنے لہو سے رنگین کرکے چلے گئے اور آزادی کے بعد جو ہمارے لیڈر وں کا فرض تھا اس کو انہوں نے پورا کیا، اور پورا ہی نہیں کیا بلکہ وفاء کا حق ادا کردیا۔ اور اگر کسی نے مادرِ وطن سے غداری کی یا تکمیل فرض میں غافل رہا تو وہ آج کی تاریخ کا بدترین مجرم ہے۔ جسے تاریخ نہ معاف کرے گی اور نہ ہماری قوم ہی اس کا عزت سے نام لے گی ۔ اب میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس ملک میں آپ کا کیا فرض ہے؟ اور مادرِ وطن آپ سے کیا چاہتی ہے؟ کیا بس یہی کہ ١٥ اگست یا ٢٦ جنوری کو تحریکِ آزادی پر کوئی اچھا سا مقالہ پڑھ دیں یا سن لیں اور بس؟

اگر ایساہے تو تو میری جرأت معاف کیجائے !میں صاف کہوں گا کہ آپ اپنے ملک کے با وفا نہیں ہیں۔اور کل قیامت میں مجاہدینِ آزادی ،اور انکی یتیم اور بیواؤوں کے سامنے آپ کو شرم سار ہونا پڑے گا ،شرمندہ ہونا پڑے گا۔بعض نا اہل ذمہ دار بعض دیگر نا عاقبت اندیش لوگوں کی حماقت سے ملک کٹ جائے ،وطن اجڑ جائے، آبادیابرباد ہوجائے،اہلِ وطن کی بہو بیٹیوں کا سہاگ تارتار ہوجائے،بچے
یتیم اور بے سہارا در بدر بھٹکتے رہیں ، یہ سب کچھ ہوتا رہے اور ہمیں احساس تک نہ ہو،ہماری غیرت کو سانپ سونگھ گیا ہو،میں نہیں کہتا کہ یہ کسی انسان کی زندگی ہوسکتی ہے۔ یا ایسی زندگی کو زندگی کہاجائے۔


ائے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

ائے وطن کے سچے پرستارو!

    ہندو ہو یا مسلم ، سکھ ہو یا عیسائی تم ایک ہی زمین کی پیداوار ہو۔
    ایک ہی خمیر سے یہ معجونِ مرکب تیار ہوا ہے۔
تم ہندو ہو تب بھی بھارتی ہو،سکھ اور پارسی ہوکر بھی تم اس اٹوٹ رشتے کو توڑ نہیں سکتے۔
    یہی آج کے دن کا پیغام ہے۔
    یہی ملک کے ساتھ وفاداری ہے۔
    یہی ہماری آرزو اور ایمان ہے۔
آؤ آج ہم اور آپ مل کر ایک نیا عہد کرتے ہیں اور ببانگِ دہل کہتے ہیں کہ کوئی فرنگی یا ترنگی ،کالا یا گورا اگر ہماری ایکتا اور بھائی چارگی کے اٹوٹ رشتے کو یا ہمارے پیار اور پریم میں خلل ڈالنے کی کوشش کریگا اور ملک کی عزت کے لیے خطرہ بنے گا تو اس کا
انجام لکھنے کے لیے وقت کے مؤرخ کو ١٥ اگست کی تاریخ دہرانی پڑے گی،اور انگریز منحوس کا جو انجامِ بدہوا اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اب انہیں باتوں پر پیارو محبت اور امن و شانتی کا پیغام دیتے ہوئے اپنے کلام کا اختتام چاہتا ہوں۔


خدا کرے ہم میں پیار کے رشتے رہے قائم
اگر یہ رشتے ٹوٹ گئے تو ہوجائیں گے ہم درہم برہم


وما علینا الا البلاغ

ماخوذ از : امتیازی تقریریں

۱۵ اگست یومِ آزادی پر مختصر تقریر کے لیے مجھے دبائیں

Post a Comment

0 Comments