علماء کا سوشل میڈیا پر فعال طریقے سے موجود رہنا وقت کی ضرورت

علماء کاسوشل میڈیاپرفَعّال طریقے سےموجودرہناوقت کی ضرورت



(ایک قابلِ مطالعہ تحریر)

مولانابدیع الزماں ندوی قاسمی

چیرمین انڈین کونسل آف فتویٰ اینڈ ریسرچ ٹرسٹ بنگلور وجامعہ فاطمہ للبنات مظفرپور، بہار

ماضی قریب تک لکھنے کامطلب طویل مضامین اور کتابیں لکھنا، اورتقریرکرنے کامطلب ایک دو گھنٹے تک دادِسخن دینا سمجھا جا تا تھا ، لیکن اب صورتِ حال بدل گئی ہے، اور سوشل میڈیا جیسے فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب وغیرہ کے رواج کے بعد مختصرتحریراورمختصرتقریرکو بڑی اہمیت حاصل ہوگئی ہے ۔
 آج ایک چھوٹاساتیربہدف جملہ منٹوں میں پوری دنیا میں پھیل کرلاکھوں کروڑوں لوگوں میں دھوم مچادیتا ہے ، دوتین منٹ کی تقریرکاویڈیو ایک دن میں ہزاروں لاکھوں لوگ سن کرمتاثر ہو جاتے ہیں۔ 
سوشل میڈیامیں ہرفردکے قارئین کا ایک حلقہ بن جا تا ہے، بعض عرب علماء نے اس پر خاص توجہ دی ، ان کے شائقین کی تعدادایک ایک کروڑ تک پہنچ گئی ، ایک چھوٹاساجملہ لکھ دیتے ہیں، اور وہ دن بھر میں لاکھوں کروڑوں لوگ پڑھ لیتے ہیں ۔
 دوتین جملوں میں مکمل بات کہہ دینا، اوردوتین منٹ میں مکمل تقریرکردینا بھی ایک فن ہے جس کی مہارت حاصل کر نا ہماراہدف ہونا چاہیے ۔ 
علماء کاسوشل میڈیاپرفَعّال طریقے سے موجودرہنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اسلام کے متعلق غلط باتیں پھیلانے کایہ بہت بڑا میدان ہے، پہلے مستشرقین اور اسلام کے مخالفین جوکچھ لکھتے تھے وہ سب لوگوں تک نہیں پہنچتا تھا، صرف پڑھے لکھے خاص لوگوں تک محدودرہتا تھا ، اب توہر بات میں ہرخاص وعام شریک رہتا ہے، اس لیے اہلِ علم کی فَعّال شرکت وہاں بہت ضروری ہوگئی ہے، تاکہ لوگوں کی بروقت رہنمائی کرسکیں ۔
لیکن یہ آگاہی دینی بھی بہت ضروری ہے کہ زمانۂ طالب علمی میں اپنے اندروہ مختصرجامع اوراثرانگیز بات کہنے کی صلاحیت تو پیداضرور کرنی چاہیے، جوسوشل میڈیا کے ذریعے اثراندازہونے کے لیے بہت ضروری ہے ، علمی تیاری بھی بھرپورکرنی چاہیے کہ دینی رہنمائی علمی تیاری کے بغیر ممکن نہیں ہے، لیکن طالب علمی کے زمانے میں خود کو سوشل میڈیا میں مصروف نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اس زمانے میں وقت کو سب سے زیادہ ضائع کرنے اورذہن کو سب سے زیادہ منتشر کر نے والی چیزسوشل میڈ یاہی ہے۔ 
سوشل میڈیا کے تعلق سے دینی مدارس کے طلبہ وفضلاء کو بہت محتاط رہنے کی بھی ضرورت ہے، یہ بات سچ ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ ملک مخالف سرگرمیوں سے ہزاروں کوس کی دوری پرہوتے ہیں ، ان کا کسی قسم کی شر پسندی اور دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے، لیکن اسلام دشمن میڈیا ، اوراسلام دشمن ایجنسیاں دینی مدارس اوران کے فضلاء کو بد نام کرنے کے لیے ہرقسم کے حربے اختیار کرتے ہیں۔
اس لیے فیس بک اور واٹس اپ وغیرہ کے سلسلے میں اس کا سختی سے خیال کریں کہ کسی شدّت پسندفردیاگروپ سے دوستی اور کسی قابلِ اعتراض تصویریا کسی جذباتی پیغام کے حامل ویڈیو سے اورایسی ہر چیز سے آپ کی پروفائل بالکل پاک رہے۔ ایسے کسی پیغام یا پوسٹ کی ترسیل نہ کریں ، نہ ہی ایسی کسی چیز کو لائیک کریں ، جس پر آپ بلاوجہ کسی شک کے دائرے میں آ جا ئیں ۔ اورخدانخواستہ بے قصور ہونے کے باوجودخود بھی آزمائش کا شکارہوں اورگھروالوں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنیں ۔
 یاد رہے کہ سوشل میڈ یا میں غلط پیغام لکھنا ہی جرم نہیں ہے، کسی دوسرے کےبھیجے ہوۓ پیغام کو آگے بڑھانا بھی جرم ہے، یہ بھی سدا یادر ہے کہ سوشل میڈیا میں ہونے والی سرگرمیوں کی سخت نگرانی کی جاتی ہے۔ 
آپ کو ایک طرف اپنے عمل سے سچامحبّ وطن ہونے کا ثبوت دینا ہے ، اور دوسری طرف احتیاط کادامن بھی مضبوطی سے تھامنا ہے کہ کوئی بدخواہ اور کینہ پرورآپ کو جھوٹے کیس میں پھنسا نہیں سکے۔

Post a Comment

0 Comments