جامعہ رحمانی اور خانقاہ رحمانی کا نظام جان کنی کے عالم میں

 جامعہ رحمانی اور خانقاہ رحمانی کا نظام جان کنی کے عالم میں

جامعہ رحمانی اور خانقاہ رحمانی کا نظام جان کنی کے عالم میں jamia-rahmani-monger
جامعہ رحمانی خانقاہ رحمانی مونگیر 

   عبد القدوس قاسمی۔  

جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کو حضرت مولانا سید محمد علی مونگیری،مولانا سید منت اللہ رحمانی اور مولانا سید محمد ولی رحمانی نور اللہ مرقدھم جیسی عظیم علمی ، عملی اور روحانی شخصیات اور علماء ربانیین نے عہد بعہد سینچتے رہے، تناور درخت بنایا۔اس کی آبیاری میں حضرت مولانا منت اللہ رحمانی ؒاور حضرت مولانا محمد ولی رحمانیؒ جیسے بزرگوں کے آہ سحرگاہی اورمسلسل تگ ودو کو دخل ہے، ان بزرگوں اور جید اساتذہ کرام پورے ملک اور بیرون ملک میں اس کی پہچان کرائی اورہر طرح توسیع کی۔جامعہ اپنی منفرد پہچان ہے۔ہر عہد میں پیدا ہونے والے نئے نئے فتنوں کے خلاف خانقاہ رحمانی ہمیشہ تحریکات کا مرکز رہی،آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قیام اور پھر اس بورڈ کے پلیٹ فارم سے ملت کی بے لوث قانونی اور عملی خدمات ، آزادی ہند کی جنگ میں اس کے جانباز سپوتوں کا میدان جنگ میں مردانا وار مقابلہ۔ قادیانیت کو ناکوں چنے چبوانا اور دھول چٹانا ، دینی مدارس ، ملی ادارے ، نسل ،ملکیت اور عزت و آبرو کے تحفظ کے لئے حکومت وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دو ٹوک بات کرنا اور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا، ہر زمانہ میں ملت کو ایک سے بڑھ کر ایک متدین اصحاب علم و دانش فقہاء و محدثین اور باذوق محققین دیکر ان کی صحیح علمی و دینی رہبری کا حق ادا کرنا وغیرہ بے شمار خصوصیات اور عظیم خدمات کی ایک مستقل روشن تاریخ ہے۔ 

حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب جامعہ رحمانی کے لئے صاف و شفاف آئینہ تھے ،آپ کے وصال کے بعد امت کی یہ امانت اور بزرگوں کا سینچا ہوا تناور درخت اور عظیم علمی ، تحریکی ، تدریسی تحقیقی ،اور تاریخی ادارہ ناخلف جانشینوں ، کم فہم اولادوں ، ابناء الوقت درباریوں ، کاغذی سندیافتہ جاہل خدام کے ہاتھوں جاں بلب ہے۔ جان کنی کے عالم میں ہے۔ لائق اولاد اپنے اسلاف کے کارناموں اور خدمات کو آگے بڑھاتی ہے اور نالائق اولاد باپ دادا کے نام کو صرف استعمال کرکے بزرگوں کی محنت اور ادارے کو برباد کرتی ہے۔ ابھی خانقاہ رحمانی میں یہی کام ہورہاہے۔

موجودہ سجادہ نشیں احمد ولی فیصل رحمانی اور ان کے بھائی فہد رحمانی نے جامعہ اور خانقاہ کے نظام کو درہم برہم کردیاہے، سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ دونوں بھائی اپنے آباء و اجداد کو غلط سمجھتے ہیں ،ان کی پسند کی ہرچیز انہیں ناپسند ہے، اپنے والد کی خواہش کا بالکل الٹا کرنے کا مزاج ہے،دینی تعلیمی اور تحقیقی ادارے کو ایک کمپنی سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے ہیں۔آج امیر شریعت رابع و سابع اور بانی مرحوم کی روحیں تڑپ رہی ہے کہ کاش کہ کوئی ان دونوں کو سمجھائے ، انگلی پکڑ کر انہیں راستہ بتائے کہ یہ امریکن کمپنی نہیں ہے بلکہ یہ ایک دینی تعلیمی و تربیتی ادارہ ، امریکن کمپنی نہیں بلکہ ملت کی بے لوث خدمات کا عظیم مرکز ہے ، کمپنی نہیں بلکہ شریعت و طریقت کو گہرائی و گیرائی کے ساتھ سمجھنے اور پڑھنے کے لئے ایک عظیم علمی مرکزہے۔

با پ داداکی روش کی مخالفت :

آمدنی کا مسئلہ ہو تو باپ دادا کا خوب حوالہ دیا جاتا ہے، یعنی لوگوں کی عقیدت اور ان کے جذبات سے تو خوب فائدہ حاصل کرنے کی کوشش ہوتی ہیں لیکن ان کی ان عقیدتوں کا احترام کرکے اپنے پیشرو نظماء اور آباء و اجداد کے دیرینہ خواب اور علمی و تعلیمی مشن کو سوچ سے زیادہ کامیاب و بامراد بنانے اور کچھ مزید آباء و اجداد کے نہج پر کرنے کی بالکل بھی کوشش نہیں ہوتی۔ان بھائیوں کی روش اور عملی دنیا کا مشاہدہ کرکے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ ان کے اور ان کے آباء و اجداد کے مزاج و مذاق میں بہت زیادہ فرق ہے اور فرق ہی نہیں بلکہ مثبت و منفی کے دو الگ الگ پلڑے میں ہیں ، ان کی روش باپ دادا کے مزاج کے بالکل خلاف ہیں جب کہ والد اور دادا کے بغیر ان کی حیثیت ہی کیا ہے، بیچ سے اگر مولانا منت اللہ رحمانی اور مولانا ولی رحمانی کو کنارہ کردیا جائے تو یہ صفر ہیں، اپنے باپ دادا کے علاوہ انہیں کون جانتاہے اور ان کے ہی نام پر آج حضرت کہلارہے ہیں اور لوگ پلکوں پر بیٹھارہے ہیں،عوام کو یہ حقیقت معلوم ہوجائے تو جو عوام سر پر چڑھارہی ہے وہی اقتدار کا بھوت اتارنا بھی جانتی ہے۔ نالایق اولاد باپ دادا کو غلط سمجھتی ہے اور یہاں ایسا ہی ہےکیوں کہ

باپ کا علم بیٹے کو گر نہ ازبر ہو 

پھر بیٹا لایق میراث پدر کیونکر ہو

نصاب میں انتہائی احمقانہ تبدیلی: 

نہ باپ دادا جیسا تقوی ہے نہ ہی علوم شرعیہ میں علمی تبحر ہے، یہی وجہ ہے کہ جامعہ رحمانی ان سے نہیں سنبھل رہاہے، درس نظامی سے نالبد ہیں؛ لیکن درس نظامی میں تبدیلیوں کی جرات کرتے ہیں،علم بلاغت کی مایہ ناز تصنیف مختصرالمعانی اور تفسیر بیضاوی کی اہمیت سمجھ میں کیا آئے گی، اہل علم سن کر حیرت کریں گے کہ جامعہ کے نصاب سے اور کتابوں کے ساتھ یہ اہم ترین کتابیں بھی نکال دی گئی ہے، نیز صحاح ستہ کے نصاب اور ابواب میں کمی کردی گئی ہے، جس نے درس نظامی میں صحاح ستہ پڑھی ہو وہ حدیث کی ہر کتاب کے مکرر ابواب اورمکرر احادیث کی معنویت سمجھ سکتا ہے ۔اگر امیر شریعت عالم ہوتے تو نصاب میں ایسی مضحکہ خیز تبدیلی ہرگز نہ کرتے،مختصرالمعانی اتنی اہم کتاب ہے کہ جس سال یہ کتاب پڑھائی جاتی ہے اس سال کومدارس میں مختصر المعانی کا سال کہاجاتاہے ۔اس کے بغیرقرآن کی بلاغت سمجھنامشکل ہے ۔یہ ایسا اس لئے ہواکہ خود یہ سب کتابیں پڑھی نہیں تو کہاں سے اہمیت سمجھ میں آئے گی اس لئے جس نے جو سمجھایا وہ کردیا۔قوت فیصلہ نام کی کوئی چیز نہیں، دوچار درباریوں نے جو مولانا ولی رحمانی صاحب کے دور میں جامعہ و خانقاہ کو برباد کرنا چاہتے تھے وہ جم کر ہاتھ صاف کررہے ہیں اور ان ہی کے اشارے پر سجادہ نشیں اور ان کے بھائی ناچ رہے ہیں خود تو زیادہ تر امریکہ سے ہی حکم چلارہے ہیں اور دوسرے بھائی نے یہاں درست و نادرست احکامات نافذ کرنے میں لگے ہیں، اور ساتھ ہی قہر و جبرکے ساتھ اپنی جانب سے نئے نئے احکامات جاری کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھتے ہیں۔

جامعہ رحمانی کمپنی نہیں ہے :

جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر ان بھائی صاحبوں کی نظر میں اب نہ تو ملت کی امانت ہے ، نہ ہی باپ دادہ کی وراثت ہے ، نہ کوئی علمی و تحقیقی ادارہ ؛ بلکہ آج یہ ان بھائیوں کے لئے انتظامات کے لحاظ سے ایک ایسی کمپنی ہے جہاں بے ضابطہ کچھ بیل بکریوں کی پالن پوسن ہو جن کی نگرانی کے لئے کچھ بے روزگار پیٹ بھتّو چرواہے مقرر ہوں۔ اسی لیے ان کا رویہ اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ انتہائی بدتمیزی پر مبنی ہوتاہے۔

رات میں پڑھنے پرپابندی :

جامعہ رحمانی کا پورا نظام تعلیم درہم برہم ہے تعلیمی اوقات صبح ساڑھے پانچ سے ساڑھے دس کردیئے گئے ہیں پھر تین بجے سے تعلیم ہوتی ہے۔ مغرب کے بعد کھانا کھلایا جائے گا اور عشاء کے بعد طلبہ کا پڑھنا منع ہے، اگر پڑھ لیا تو جرم ہوجائے گا، ساری لائٹ بند ، سیدھا سوجائیے، کتنا مزیدار فیصلہ ہے نا ! جب کہ تعلیمی ادارہ پڑھنے کے لئے ہی ہوتاہے لیکن وہاں پڑھنے پر پابندی لگادی گئی ہے ۔مولانا ولی رحمانی اور مولانا منت اللہ رحمانی کی روحیں چیخ رہی ہے کہ بیٹے لائٹ نہیں رہنے پر رات بارہ بجے تک جنریٹر کی روشنی سے طلباء مطالعہ و مذاکرہ کرتے تھے اور بارہ بجے جنریٹر بند ہونے پر رات دو بجے تک طلباء لالٹین اورموم بتی جلا کر پڑھتے تھے تب جاکر جامعہ رحمانی سے فقہاء و محدثین پیدا ہوا کرتے تھے۔جامعہ رحمانی بھی اس مقام تک پہنچا اور اس کے ذمہ داران اونچے پیمانے تک ملت کی رہبری کی اور اونچا مقام پایا راتوں کو جاگ کر محنت و مطالعہ اور مذاکرہ کرکے۔ 

کھانے کا بد تر نظام :

طالب علم کی کھانے کی خواہش ہو یا نہ ہو یا صحت مند ہو یا بیمار ہر حال میں ایک مقررہ وقت پر ایک ساتھ کھانا کھانا ہے۔ یہ کون سا ظلم ہے بھائی !یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ایک ساتھ بیٹھاکر کھانا کھلانے سے تملیک نہیں ہوتی، تملیک مدرسہ کے لئے ضروری ہے لیکن بیٹھاکر کھلانے کی جو صورت یہاں نکالی گئی ہیں اس سے زکوۃ اور صدقات کے مصارف پر سوال ہوگا، کم سے کم اتنا تو پڑھ لکھ لینا چاہئے تھا، پھر کھانے کا معیار ویسا ہی چوپٹ ہے ! طلبہ کی شکایت کی تو ہمت نہیں ہوسکتی ہے ، اساتذہ اگر شکایت کرتے ہیں تو کہاجاتاہے، کہ : تنخواہ کس بات کی دیتے ہیں ، باہر کھالیا کریں! گویا اپنی جیب سے تنخواہ دے رہے ہیں اور احسان کررہے ہیں، ذمہ داروں کا یہ رویہ انتہائی قابل مذمت ہے اس سے عوامی چندہ پر اثر ہوں گے۔

 کتب خانہ اب کتب کھانا ہوگیا:

خانقاہ رحمانی میں کتب خانہ رحمانیہ جامعہ رحمانی کے اساتذہ و طلبہ،ملک و بیرون ملک سے واردین مسافرین اور محققین کے تحقیق و مطالعہ کے لئے ہر وقت کھلا اور سجا رہتا تھا ، ایک سے بڑھ کر ایک نادر و نایاب علمی و تحقیقی نسخے موجود ہیں ، کچھ نایاب نسخے دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ میں بھی نا قابل استفادہ ہیں ؛ لیکن کتب خانہ رحمانیہ میں وہی قدیم نایاب نسخے اب بھی بہت بہتر حالت میں قابل استفادہ ہیں ، یہی وہ کتب خانہ رحمانیہ ہے جہاں ملک کے مختلف صوبوں سے محققین علماء کرام امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی کی نگرانی میں مجموعہ قوانین اسلامی متعلق مسلم پرسنل لاء کی ترتیب کاعمل آغاز سے انجام تک پورا کیا تھا ؛ لیکن آج وہی کتب خانہ ڈائننگ ہال میں تبدیل ہے ،اس کتب خانہ میں تینوں وقت اساتذہ و مہمانوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے ، اس لئے یہ اب کتب کھانا ہے۔ ضعیف العمر اور بیمار اساتذہ بھی تینوں وقت کتب کھانا کی سیڑھیوں پر ہانپتے کانپتے چڑھنے اترنے پرمجبورہیں*۔

فیملی رہایش گاہ سے وصولی :

اساتذہ کے لئے جو فیملی رہایش گاہ بنی ہے ۔ مولانا ولی رحمانی صاحب کی خواہش تھی کہ تین تین روم کا سیٹ بنا دیاجائے اور اساتذہ کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دی جائیں، تاکہ یکسو ہوکر وہ خدمت کرسکیں لیکن اپنے ابا کے مزاج کے خلاف کرنا ہے اس لئے دوکمروں کے بیچ میں بھی دیوار کھڑی کردی دی گئی ہے اب بعض اساتذہ اپنے جوان بچے اور دیگر ضروریات کے ساتھ ایک روم میں کس طرح رہیں گے لیکن مجبورکیاگیاچاہے جس طرح ہو ایک ہی روم میں رہناہوگا اور ساتھ ساتھ ایک ہزار روپئے بھی ادا کرنا ہونگے۔ یہ ظلم کی انتہاہے۔اگر امیر شریعت سابع کی نیت اساتذہ سے مختلف بہانے بناکر رقم وصول کرنا مقصود ہوتا تو اساتذہ کے لئے فیملی کوارٹرز ہی تعمیر نہیں کراتے ، کیونکہ اساتذہ نے پہلے ہی سے باہر کرایہ کے گھروں میں اپنی فیملی رکھتے تھے ، لیکن انہیں کرایہ ادا کرنا دشوار ہوتا تھا ، قلت تنخواہ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث اساتذہ کے خرچ کو کم کرنے کی ایک مضبوط پہل تھی ، اب جب فیملی کوارٹرز کے مختلف بہانے بناکر رقم وصول کئے جائیں گے تو یقیناً قلت تنخواہ پر گزارہ مشکل ہوگا اس لئے اساتذہ اپنی فیملی اپنے گھروں میں رکھیں گے ، یکسوئی ختم ہوگی ، تعلیم کا معیار گرے گا ، بروقت رخصت نہیں ملنے پر غیر فطری عمل کے رجحانات کے قوی امکانات پیدا ہوں گے۔الامان والحفیظ۔

ایک کمرہ میں18طلبہ کو ٹھونس دیاگیا:

طلبہ کے دارالاقامہ کے کمروں میں بھیڑبکریوں کی طرح ایک کمرہ میں 18 طلبہ کو ٹھونس دیاگیا ہے ۔گویا جانور ہوں ۔ان کمروں میں بمشکل آٹھ طلبہ کی گنجائش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بقرعید کے بعد اسی بد نظمی اور تعلیمی معیار انتہائی کمزور ہونے کی وجہ سے سو سے زائد طلبہ دوبارہ جامعہ رحمانی نہیں آئے ، طلبہ کی اتنی بڑی تعداد کا اچانک گھٹ جانا بھی انہیں فکر مند نہیں کرسکا* ،افسوس ہے ، ایسی بد نظمی پر۔اللہ حفاظت فرمائے آمین۔

شعبہ افتاء بدنظمی کاشکار

شعبہ افتاء کا خاکہ بہت عمدہ تیار ہوا تھا ، فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی بھی اس خاکہ کو سراہا تھا ، اور بڑی امیدیں ظاہر کی تھی ، یہ خاکہ بھی بد نظمی کا شکار ہوگیا ،داخلہ کے وقت ایسی حالت ہوگئی کہ مسجدمیں اعلان ہواتوشعبہ افتاکے لئے کوئی طالب ہی نہیں تھا۔ بعدمیں چندہ کرکے طلبہ کوجمع کرناپڑا۔بعدمیں جب طلبہ آگئے تو تعلیمی نظام خاک میں مل گیا ہے، نہ اساتذہ خوش ہیں اور نہ طلبہ خوش ہیں، بلکہ اندر سے سبھی ناراض ہیں جب کام کرنے والا بددل ہوں گے تو تعلیم پر اثر لازمی ہے۔اس شعبہ میں چند طلبہ ہیں، جو برائے نام ہے ، جامعہ رحمانی کے درجات عربی کے کچھ طلبہ کے ذریعے شعبہ کو زندہ رکھنے کی ناکام کوشش ہے۔ وہ بھی گاہے بگاہے ان کی حاضری ہوتی ہے۔اللہ خیر کا معاملہ فرمائے ۔

چھٹی ختم کرنے کاغیردانشمندانہ فیصلہ:

 رمضان اور بقرعید کی چھٹی بہت کم کردی گئی، 6/ شوال سے جامعہ رحمانی کھل جاتا ہے ، محرم، بارہ ربیع الاول، پندرہ شعبان کی چھٹیاں بھی ختم کردی گئی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ رمضان اور بقرعید کے موقع پر اساتذہ جامعہ رحمانی کا چندہ کرتے ہیں ، چندہ کا سفر مکمل ہوتے ہی دو چار دن کے اندر جامعہ رحمانی کھل جائے گا تو بتائیں کہ انسان اپنی اور اپنے گھر کی ضروریات کی تکمیل کب اور کس طرح کرسکتا ہے ؟اس وقت شادی بیاہ کا موقع ہوتاہے۔ دوسری گھریلو مصروفیات ہوتی ہیں اساتذہ سماج سے کیسے کٹ سکتے ہیں گویا انہیں رہبانیت کی ترغیب دی جارہی ہے اور اس کے لئے مجبور کیا جارہاہے کہ وہ رہبانیت کی زندگی گزاریں اورسماج اوراپنی ضروریات کوچھوڑدیں۔ 

یہی کام سرکارکرے تو؟

 اگر یہی کام یعنی محرم، شعبان، بارہ ربیع الاول کی چھٹی ختم کرنے کا کام سرکار کرتی کہ تعلیمی اداروں کی یہ ساری چھٹیاں ختم ہونگی تو مسلمان کتنے ناراض ہوتے! واویلامچاتے! ابھی جامعہ رحمانی میں محرم کی چھٹی ختم کی گئی ۔دو دن تعلیم جاری رکھ کر طلبہ کو کتنا قابل بنادیا گیا جب کہ پڑھنے کا ماحول ختم ہو چکا ہے۔جمعہ کی چھٹی سے متعلق بہار میں ہنگامہ ہوہی رہاہے ، *یہ کیسے امیرشریعت ہیں کہ اتنی بھی دور اندیشی نہیں ہے اور امیرشریعت ہوکر بھی اپنے ادارہ میں ایسا کام کررہے ہیں کہ حکومت کو شہ ملے، اس پرمسلمانوں کو سخت نوٹس لینا چاہئے! 

ادارہ کسی کی ذاتی جاگیرنہیں:

دراصل دونوں بھائیوں نے ادارہ کو اپنی جاگیر سمجھ لیا ہے جب کہ یہ عوامی ادارہ ہے اور عوام کے چندہ سے چلتاہے، ان لوگ کواب تک خواص تو پسند کرتے ہی نہیں اب یہ لوگ عوام کے دل سے اترتے جارہے ہیں اور خانقاہ رحمانی کادائرہ سمٹتا جارہاہے خود سجادہ نشیں زیادہ ترامریکہ میں ہوتے ہیں اور خانقاہ سے لوگ دور ہوتے جارہے ہیں، جب امریکہ ہی میں رہنا تھا توسجادہ نشیں کیوں بن گئے اور پھر سیاسی جوڑ توڑ کر کے امیر شریعت بن گئے جب اپنا ادارہ نہیں سنبھال پارہے ہیں تو امارت کا کیا حشر ہوگا اللہ ہی کو معلوم ہے۔

خانقاہ رحمانی کادائرہ سکڑا:

 مریدین و معتقدین اور متوسلین خانقاہ رحمانی کی عظیم شخصیات ان کی بے لوث خدمات،علمی مقام،عظیم تحریکات اور بر وقت ملت کی دادرسی ،پیش آمدہ مسائل سے الجھ کر ملت کو سلجھانے ، انہیں بچانے اور آگے بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی وجہ سے منسلک ہیں ، انہیں اسباب عقیدت کی وجہ سے یہاں کے بزرگوں سے حد درجہ عقیدت رکھتے ہیں ، اب رفتہ رفتہ یہ اثرات مدھم پڑ رہے ہیں ،جب سجادہ نشیں اپنے اجدادکوغلط سمجھیں گے الٹی روش پرچلیں گے توعقیدت مندلوگ دورہی ہوں گے نا۔ موجودہ حالات کے تناظر میں اسباب عقیدت کا فقدان جھلک رہا ہے ، عوام و خواص نے ان چیزوں سے اب بڑی تیزی کے ساتھ واقف بھی ہورہے اور بد دل بھی ہوتے جارہے ہیں۔ اللہ تعالی ابھی بھی انہیں عقل سلیم دے اور ادارہ کی حفاظت فرمائے۔

ادارہ کی حفاظت ضروری :جامعہ رحمانی کے ابناء قدیم اور خانقاہ رحمانی کے مریدین و معتقدین اور متوسلین اور ان دونوں اداروں کے بہی خواہ معاونین ، اور ادارہ کے وابستگان حوصلہ و ہمت کے ساتھ موجودہ بدنظمی کے خلاف ، تعلیمی نظام میں بہتری ، اساتذہ و طلبہ کے ساتھ اچھا سلوک اور سر زمین بہار کے لئے باعث فخر ادارہ ، علمی شناخت ، ملی و قومی مرکز کے تحفظ کے لیے آگے آئیں ، مثبت پہل کریں ، انہیں بالمشافہ یا اپنی تحریروں کے ذریعے لائن پر لانے کی کوشش کریں۔اساتذہ و طلبہ بھی کھل ان حالات کا مقابلہ کریں ، جامعہ اور خانقاہ کی حفاظت کی خاطر آگے آئیں،اساتذہ و طلبہ اپنے وقتی مفاد سے سمجھوتہ یاچاپلوسی کرکے خاموش نہ رہیں ، مقدر کی روزی آپ کو مل کر رہے گی ، اگر آپ نے آج اپنی خاموشی توڑی تو کل آنے والی نسل کے لئے بھلا ہوگا اور اگر خاموش رہے تو ملت کا سرمایہ تباہ و برباد ہوگا ، ملت کے پیسے ضائع ہوں گے ، بچوں کی تعلیم برباد ہوگی۔

ہوش میں آئیں:

کاغذی سند یافتہ جاہل خدام ہوش میں آئیں اور ملی ادارہ ، ملت کے سرمایہ اور موجودہ اور آنے والی نسلوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے سے باز آئیں ، یاد رکھیں آپ سبھوں کی تاریخ رقم ہو رہی ہے ، ملت کبھی معاف نہیں کرے گی ، تاریخ اپنے سینے میں آپ سبھوں کو محفوظ کر رہی ہے۔حاجی عارف رحمانی صاحب آپ محاسبہ کریں اور ہوش میں آئیں ، ذاتی مفاد کے لئے ملی ادارے کو یرغمال بنانے سے باز آئیں ، آپ کے کالے کرتوت ایک لمبے عرصے سے تاریخ میں درج ہورہی ہیں، صرف وقت کا انتظار ہے ، تاریخ کے اوراق آپ کی زندگی ہی میں کھلیں گے ، موت کے بعد کھلنا تو یقینی ہے ہی۔اگر کاغذی سند یافتہ جاہل خدام، درباری لوگ اپنے کالے کرتوت سے باز نہیں آتے ہیں تو پھر کالا چٹھا بھی بہت جلد کھلے گا۔

اگر دونوں انجینئر صاحبان ہوش کے ناخن نہیں لیتے ہیں تو یاد رکھیں پاؤں کے نیچے زمین کھوکھلی ہو چکی ہے ، خانقاہ اور جامعہ میں انہیں بھوتوں کا بسیرا ہوگا جو پاگلوں کے ساتھ ملک کے مختلف حصوں سے آکر وہاں جمع ہیں۔ابھی بھی وقت ہے گنوار اور جامعہ و خانقاہ کے لئے ہمیشہ مضر رہے حواریین کی باتوں سے باہر نکلیں اپنی عقل استعمال کریں اور عوامی ادارہ کو اپنے بزرگوں کے نہج پر چلائیں ۔عوام طلبہ اور اساتذہ کی سہولیات کے لئے ہی چندہ دیتے ہیں یہ پیسے طلبہ کے ہی ہیں آپ کی جاگیر نہیں ہے*۔اگر ان حالات میں بھی اساتذہ اور طلبہ خاموشی کے ساتھ حالات سے سمجھوتہ کرکے وقت گزار رہے ہیں تو پھر ان حضرات کا بہتری اور انقلاب کی امید رکھنا فضول ہے بلکہ جامعہ رحمانی اور خانقاہ رحمانی کے تباہی و بربادی میں یہ حضرات برابرکے شریک ہوں گے۔اگر اساتذہ و طلبہ میں واقعی غیرت ہے ، ملی ہمدردی ہے ، ادارے سے محبت ہے، حضرت مولانا محمد علی مونگیری ، مولانا سید منت اللہ رحمانی اور مولانا سید محمد ولی رحمانی نور اللہ مرقدھم سے سچی عقیدت اور محبت ہے ، ان رفتگان کے ہدف اور اور ملی ہمدردی سے واقفیت ہے تو آپ حضرات اپنی زبان کھولیں ، اگر ادارے کے نظم و نسق کی امید جھلک جائے تو بہتر ورنہ دنیا دیکھیں اور اللہ سے بہتری کی دعائیں کریں۔

 چھٹی کی چھٹی ہوگئی پرغلط صفائی:

چھٹی کی چھٹی ہوگئی کے عنوان سے شایدکسی طالب علم نے آواز اٹھانے کی کوشش کی۔سحری کے عدم انتظام اور چھٹیوں کے منسوخی پر سوالات اٹھائے گئے تو فکر و نظر یوٹیوب چینل پر یہ دکھایا گیا کہ جامعہ رحمانی میں سحرو افطار کا شاندار نظم ہے ، *حقیقت یہ ہے کہ پہلے دن سحر کا نظم بالکل نہیں ہوا اورطلبہ پلیٹ لے کردوڑرہے تھے کیوں کہ ہمیشہ انتظام ہوتارہاہے اسی لئے طلبہ نے خودانتظام نہیں کیا۔اور افطار کا بھی نظم نہیں ہوتا ؛ لیکن واٹس ایپ میں جب سوال گردش کرنے لگا یہاں تک کہ وہ سوال فارورڈیڈ مینی ٹائمز ہوگیا تو دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے افطار کا دستر خوان لگوایا۔لیکن چینل نے یہ نہیں بتایاگیاکہ سو سے زیادہ طلبہ کو واپس کیوں لوٹنا پڑا، جھوٹ بولنے کی بھی حد ہوتی ہے، آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے،پہلے دن سحری کا انتظام نہ ہونے پر جب تحریر گشت کرنے لگی تو خفگی چھپانے کے لیے دوسری سحری کا انتظام کیا گیا اور اس پر یوٹیوب کے ذریعہ شور ایسا کیے گئے گویا پہلی بار افطار سحرکا انتظام ہورہاہے یا یہ طلبہ پر ایسا احسان عظیم ہے کہ ملت اسلامیہ اس سحری کرانے اورافطارکرانے پر مقروض رہے گی طلبہ کے پیسے طلبہ اساتذہ پر خرچ کرنا کوئی احسان نہیں ہے، یہ پرچار کرنا بدنظمی چھپانے کا ڈھونگ ہے اور کچھ نہیں۔ اصلاح کرنے کے بجائے ڈھونگ بے انتہا قابل مذمت ہے۔وقت ہے سدھرجائیں۔

Post a Comment

0 Comments