زمانہ جاہلیت میں لڑکیوں کو زندہ دفن کیا جانا
حقیقت یا افسانہ
قرآن کریم کی مختلف آیات کریمہ اور بے شمار حدیث پاک ﷺ اس واقعہ کی تصدیق کرتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لڑکیوں کو زندہ ہی دفن کردیا جاتا تھا جیسا کہ قرآن کی اس آیت کریمہ میں نقشہ یوں کھینچا گیا ہے: وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ ۔يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ۚ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ۔
(النحل:59و60)
ترجمہ ۔ (اور) جس بات کی اسے خبر دی گئی ہے اس کی(مزعومہ) شناعت کے باعث وہ لوگوں سے چھپتا (پھرتا) ہے (وہ سوچتا ہے کہ) آیا وہ اسے(پیش آنے والی) ذلت کے باوجود( زندہ ) رہنے دے یا اسے( کہیں ) مٹی میں گاڑ دے ۔ سنو جو رائے وہ قائم کرتے ہیں بہت بری ہیں۔
زندہ دفن کرنے کی وجہ
اسکی مختلف وجوہات تفاسیر و شروحات حدیث کی کتب میں بیان کی گئی ہیں، جیسا کہ آگے آئے گا ، نیز متقدمین و متاخرین علماء محققین ، سیرت نگار و تواریخ قلم بند کرنے والے مصنفین بھی اس سے اتفاق رکھتے ہیں ۔ دور جاہلیت کے شعراء بھی اپنے کلام میں بیٹیوں کے زندہ دفن کیے جانے کو بیان کرتے ہیں۔
لیکن اس صدی کے کچھ سعودی محققین نے اس رسم جاہلیت کا انکار کرتے ہوے کہا ہے کہ مصنفین نے رسم جاہلیت کو بیان کرنے میں مبالغہ کیا ہے جو کہ ایک من گھڑت قصہ کے سوا اور کچھ بھی نہیں، چنانچہ پوری تفصیل ملاحظہ فرمائیں 👇
’زندہ درگور‘ کرنے کے بارے میں مختلف آرا
تاریخی مفروضہ
اکا دکا واقعات
مرزوق بن تنباک نے جو دعویٰ کیا ہے، اس پر ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ انڈپینڈنٹ عربی نے اس حوالے سے بعض محققین کی آرا حاصل کی ہیں۔ ان میں سے ایک مصنف محمد سعد ہیں جنہوں نے ابن تنباک کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ’لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کی روایت کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی اس کے کوئی واضح اسباب ہمارے سامنے موجود ہیں۔ غالب گمان یہی ہے کہ یہ سارے معاشرے میں سرایت کیے ہوئے نہیں تھی اور اگر کہیں ایسا کوئی واقعہ موجود بھی ہو تو وہ استثنائی واقعہ تو سکتا ہے لیکن اس کے واضح اسباب موجود نہیں ہیں۔
’عار‘ ایک کمزور دلیل ہے
محض معاشی سبب
اس آیت میں کسی صنف کا ذکر نہیں ہے کیوں کہ بچوں کو قتل معاشی وجہ سے کیاجاتا تھا کسی صنفی امتیاز کی بنیاد پر نہیں۔ اور لڑکا لڑکی دونوں کو قتل کیا جاتا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ جدید دور میں بھی جاری وساری ہیں اور آج کا انسان انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو قتل کرکے بھی اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھتا ہے۔
جنگوں میں قیدی بننے کا خوف
جمعیت فقہی کے رکن اور جامع محمد بن سعود میں علوم شرعیہ کے استاد سعود حنان کا کہنا ہے کہ بعض لوگوں لڑکیوں کےزندہ درگور کرنے کی وجہ غیرت وعار بیان کرتے ہیں جبکہ میرے نزدیک یہ وجہ بہت غیر منطقی ہے، اس لیے کہ نوزائیدہ بچی نے تو کسی جرم کا ارتکاب ہی نہیں کیا ہوتا۔ ’عار‘ کا لفظ بذات خود تفصیل و توضیح کا تقاضا کرتا ہے تاکہ ہمیں پتہ چل سکے کہ ایک جنگوں اور لڑائیوں سے بھرے ہوئے معاشرے میں عار کا کیا مطلب تھا۔
دراصل ان معاشروں میں غیرت وعار کا تعلق براہ راست قبائل کی باہمی لڑائیوں سے جڑا ہوا تھا۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ اس میں قیدی بنائے جاتے تھے۔ اور یہ قیدی ان جنگوں اور زراعت پر قائم معاشروں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔ غلاموں کی تجارت اس ریڑھ کی ہڈی کے لیے جدید عہد کی اصطلاح میں افرادی قوت تھی۔ تو اجتماعی غیرت کا تصور یہ تھا کہ باپ یہ سوچتا تھا کہ اس کی بچی یا اس کا خاندان حملہ آوروں کے ہاتھ لگ جائے گا اور انہیں غلام بنا لیے جائے گا تو غیرت وعار کا تعلق اس بات سے ہے کہ باپ کمزور ہے یا یہ کہ قبیلہ اپنے افراد کی حفاظت نہیں کر سکتا۔
جھوٹا قصہ
سعود حنان کے مطابق ایک قصہ مشہور ہے کہ ’خلیفۂ دوم حضرت عمر بن خطاب دور جاہلی میں لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کے معاملے میں باقی لوگوں کی طرح تھے اور انہوں نے اسی جاہلیت کی بنیاد پر اپنی ایک بیٹی کو زندہ دفن کر دیا تھا۔ جب وہ اپنی بیٹی کو دفن کرنے لگے تو ان کی داڑھی کو مٹی لگ گئی اور ان کی بچی نے اپنا ہاتھ ان کی داڑھی پر پھیرا اور ان کی داڑھی کو مٹی سے صاف کر دیا۔ لیکن حضرت عمر نے اسے پھر بھی نہیں بخشا اور اسے زندہ دفن کر دیا۔‘
یہ بالکل بے بنیاد قصہ ہے، اس لیے کہ سب سے پہلے جس عورت سے حضرت عمر نے شادی کی، ان کا نام زینب بنت مظعون ہے، ان دونوں کے بچوں کے نام حفصہ، عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں۔ حفصہ بعثت نبوی سے پانچ برس پہلے پیدا ہوئیں۔ تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت حفصہ حضرت عمر کی سب سے بڑی بیٹی تھیں تو انہوں نے بڑی بیٹی کو تو زندہ دفن نہیں کیا اور اس سے چھوٹی کو کیسے زندہ درگور کر دیا؟
انتقام کی وجہ سے
یہ ایک ایسی وجہ ہے جس کی طرف محقق اور تاریخ اسلامی کے استاد محمد الشیبانی نے اشارہ کیا ہے۔ ان کے مطابق عربوں میں قیس بن عاصم وہ پہلا شخص تھا جس نے بیٹیوں کو زندہ درگور کیا۔ وہ اس بات سے ڈرتا تھا کہ اسے اپنی بیٹیاں اپنے سے کمتر مرتبہ شخص سے بیاہنی پڑ جائیں۔ اس نے آٹھ بچیوں کو زندہ درگور کیا۔
بیٹیوں کے قتل کا سبب بیان کرتے ہوئے الشیبانی نے کہا کہ نعمان بن منذر نے بنو تمیم پر اپنے لشکر کے ساتھ حملہ کیا اور ان کی عورتوں کو قیدی بنا کر لے گیا، تو قوم کے لوگ اس کے پاس گئے اور اس سے التجا کی کہ ان کے قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے۔
نعمان بن منذر نے قیدیوں کو اختیار دیا کہ جو جانا چاہے چلی جائے۔ تو کچھ اپنے والد کے ساتھ اور کچھ اپنے شوہروں کے ساتھ واپس چلی گئیں۔ ایک قیس بن عاصم کی بیوی نے اپنے قید کرنے والے کو پسند کیا تو قیس بن عاصم نے اس وقت قسم کھائی کہ اب سے اس کی جو بھی بیٹی پیدا ہو گی، وہ اسے قتل کر دے گا۔
الشیبانی نے مزید کہا کہ قیس بن عاصم نبی اسلام حضرت محمد کے پاس آیا اور کہا: ’میں نے دور جاہلیت میں اپنی بیٹوں کو زندہ درگور کیا ہے۔ تو آپؑ نے اس کہا :ہر ایک کہ بدلے میں ایک غلام آزاد کرو۔ تو اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی ’اور جب زندہ درگور کی گئی سے پوچھا جائے۔ کہ کس گناہ پر ماری گئی تھی۔‘ (تکویر:9-8)
سیاست شرعیہ کے ماہر خالد شایع نے ابن تنباک کی کتاب پر تنقید کرتے ہوئے کہا، انہوں نے بہت فاش غلطی کی ہے۔ انہوں نے ایک ایسی بات کو رد کرنے کی کوشش کی ہے جس پر تمام اگلے پچھلے علما متفق ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرزوق ایک ایسے میدان میں اترے ہیں جس میں ان کی مہارت نہیں ہے۔ انہوں نے اہل ادب، شعر کے راویوں اور تاریخ کے ماہرین کی مخالفت کی ہے۔ جیسے وہ فرزدق کے اس شعر کو بھی نہیں مان رہے جس میں اس نے کہا ہے:
میرا دادا ہی وہ شخص ہے جس نے لڑکیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچایا اور زندہ درگور کی گئی کوزندہ کیا پھر اسے کبھی زندہ درگور نہ کیا گیا۔
خالد شایع کا یہ کہنا ہے کہ قرآن پاک میں ایسی آیات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ شیطان نے انسانوں کو اس گھناونے فعل میں مبتلا کر دیا تھا کہ وہ اپنی لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔
مندرجہ ذیل آیت تو اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ وہ لڑکیوں کو اسی انداز میں مارتے تھے: ’اور جب زندہ درگور کی گئی سے پوچھا جائے۔ کہ کس گناہ پر ماری گئی تھی۔‘ (تکویر:9-8)
اسلام نے اس روایت کا خاتمہ کیا
قابلِ تحقیق مسئلہ
ان کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹر ابن تنباک اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ عرب لڑکیوں کو زندہ درگور نہیں کرتے تھے۔ یہ ڈاکٹر ابن تنباک کی ذاتی رائے ہے جس سے ہم اختلاف کرتے ہیں لیکن یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں کسی کی اپنی ذاتی رائے ہو سکتی ہے اور یہ کوئی ایسا قطعی مسئلہ نہیں ہے۔
ایک اور خوب صورت تبصرہ داعی ڈاکٹر محمد نجیمی کا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’جو کچھ ڈاکٹر ابن تنباک نے کہا ہے وہ ممکن بھی ہو سکتا ہے، اس لیے کہ وہ عرب میں قبل از اسلام لڑکیوں کے زندہ درگور کیے جانے کا انکار نہیں کرتے لیکن اس بارے میں ان کا ایک خاص نقطۂ نظر ہے۔ اگرچہ ہم ان سے اس بارے میں مکمل اختلاف رکھتے ہیں لیکن یہ ایسے معاملات ہیں جن میں اختلاف جائز ہے۔ ہمارے علما نے اس موضوع کو پڑھا اور مصنف سے اختلاف کیا اور یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں دو مختلف آرا ہو سکتی ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر پہلے انڈپینڈنٹ عربی پر شائع ہوئی تھی۔
0 Comments