عالمہ سے نکاح اور مسلم معاشرے کی غلط سوچ

 عالمہ سے نکاح اور مسلم معاشرہ

عالمہ سے نکاح اور مسلم معاشرہ aalima-shadu-karna-chahiye-ya-nahi
عالمہ سے نکاح اور مسلم معاشرہ 

نوٹ: یہ تحریر ایک صاحب کی طرف سے موصول ہوئی ہے، جس میں نام محذوف ہے، تحریر سے لگتا ہے کہ کسی صنف نازک کی ہے، اس میں عالمہ عورت سے شادی کو لے کر کچھ باتیں کہی گئی ہیں، ویسے میرا خیال ہے کہ اس تعلق سے افراط وتفریط پائی جا رہی ہے، جس کو سدھارنے کی ضرورت ہے، آپ بھی پڑھیں اور اپنی رائے دیں۔

ہمارے یہاں ایک رجحان یا نظریہ پایا جاتا ہے کہ "عالمہ" لڑکی سے شادی نہیں کرنا چاہیے، عالمہ سے مراد وہ لڑکی ہے جس نے علوم دینیہ کی تعلیم حاصل کی ہو، اور نکاح کے معاملے میں بارہا دیکھا گیا ہے کہ لوگ اس نظریہ کی وکالت کرتے ہیں، یہ رجحان عام ضرور ہے، لیکن اتنا بھی عام تو نہیں ہے کہ پورا طبقہ اس سے متفق ہو سکتا ہے، مگر سچائی یہ ہے کہ لوگ اس نظریہ پر عملی طور سے عمل پیرا ہیں۔

لیکن ایسا نا مناسب نظریہ جس کثرت سے رواج پا رہا ہے وہ حد درجہ حیرت ناک اور افسوس ناک ہے، مجھے طالب علمی کے زمانہ سے ہی یہ بات اساتذہ سے سننے اور معاشرے میں دیکھنے کو ملی کہ عالمہ لڑکی سے شادی نہ کرنے کی لوگ تشکیل کیا کرتے ہیں، اگر یہ کام عصری تعلیم یافتہ مرد کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے، مگر کچھ مرحوم العقل علماء سے بھی سابقہ پڑتا ہے جو اس نظریہ کی وکالت کرتے ہیں اور خود عالم ہو کر بھی عالمہ سے شادی کو ناپسند کرتے ہیں، یا ترجیح نہیں دیتے ہیں اور بلا تفریق تمام علوم دینیہ کی حامل عورتوں سے شادی کو صحیح نہیں سمجھتے ہیں، اگر یہ بات کسی اور طبقہ سے چلی ہوتی تو تعجب نہ ہوتا، مگر جب یہ مشورہ دینے والے علماء ہوتے ہیں تو سخت حیرت ہوتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے کہ خود نہ عالمہ سے شادی کرنے کو فروغ دیتے ہیں اور نہ کسی کو کرنے دیتے ہیں، لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ سارے علماء کی یہ سوچ ہے، جیسا کہ میں نے لکھا کہ جن کی عقلیں قابل رحم ہیں ان ہی کی یہ سوچ ہے، جب اس وبا کو بڑھتے دیکھا تو محسوس ہوا کہ اسے نظر انداز کرنا صحیح نہیں ہے، جب ایسے علماء علم کے فضائل بیان کرتے ہیں تو کون سی ایسی دلیل عارض آ جاتی ہے کہ وہ علم کے فضائل سے عالمات کو خارج کر دیتے ہیں، بس یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ فکر ونظریہ کی غلطی ہے یا یہ دوہرا معیار ہے جو خود انہوں نے بنایا ہے۔

نکاح کا معاملہ اپنی جداگانہ حیثیت اور امتیازی شان رکھتا ہے اور اس کا ایک بڑا امتیاز یہ بھی ہے کہ نکاح صرف دو لوگوں کے جڑنے اور ایک دوسرے کی تسکین کا نام نہیں ہے،  بلکہ نکاح دو خاندان کے جڑنے اور مربوط ہونے کا نام ہے، اللہ کے نبی ﷺ نے ازدواجی انتخاب میں شرعی ترجیحات کو سامنے رکھنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ اس باب میں ایک حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عورت سے چند چیزوں کو دیکھ کر نکاح کیا جاتا ہے، اس کے حسن وجمال کی وجہ سے، اس کی مال داری کی وجہ سے، اس کے حسب ونسب کی وجہ سے اور اس کی دین داری کی وجہ سے، لہٰذا تم دین داری کو اختیار کرو، تم کامیاب رہوگے۔ (بخاری ومسلم)

اس روایت میں دین داری کی بنیاد پر نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ ایسا کرنے سے روئے زمین پر فساد نہیں ہوگا۔

دیندار ہونے میں بھی کئی چیزیں بنیادی ہیں، درستگئ عقیدہ، صلاح و تقوی، علم و عمل اور اخلاق و کردار وغیرہ کا ہونا،

کیا یہ ساری چیزیں غیر عالمہ میں اتنی پختہ اور مستحکم طور پر مل سکتی ہیں جتنا کہ ایک عالمہ عورت میں اس کا امکان ہوتا ہے؟

معاشرے کی سچائی یہی کہ تدین جتنا عالمہ میں ہوتا ہے، غیر عالمہ میں نہیں ہوتا ہے، عالمہ عورت بہر حال اپنے علم کا لحاظ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

 اپنے استاد سے ایک بات سنی تھی جو تجرباتی زندگی میں دیکھنے کو بھی ملی کہ دیندار گھرانے میں بھی لوگ اس وبا کے شکار ہیں، لڑکی دیکھتے ہوئے وہ بھی عالمہ سے اعراض کرتے ہیں اور غیر عالمہ کو ترجیح دیتے ہیں۔

درحقیقت عالمات سے نکاح نہ کرنے کی چڑھ بالکل اتنی ہی بری ہے جتنی ذات اور برادری والے جہالت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے کرتے ہیں، کسی ایسی چیز کو معیار کا درجہ دینا جو شرعا معیار نہیں اسی کو گروہی تعصب اور کبر بھی کہتے ہیں ۔ 

عالمہ سے شادی کرنا کسی بھی طرح فائدہ سے خالی نہیں ہے اور یہ بات وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو کجروی کا شکار نہ ہوں جس طرح مدارس کے طلبہ میں صلاح و تقوی اور اخلاقی حالت میں تفاوت ہوتا ہے اسی طرح انکا بھی معاملہ ہے، اگر بعض کی کمی اور خرابی پوری ایک جنس کو بدنام کرتی ہے تو ایسے افراد علماء میں بھی کثرت سے پاۓ جاتے ہیں۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ عالمہ سے شادی کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے، وہ ہمیشہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرتی ہے، تو ذہن میں رہنا چاہیے کہ شریعت نے دونوں کو حقوق دیے ہیں، جو بالکل ظاہر ہیں، اب اگر حقوق کے مطالبہ کی بات ہے تو اگر وہ اپنا جائز حق مانگتی ہے تو اس میں برا کیا ہے؟ کیا شریعت نے عورت کے جائز حقوق کے مطالبہ سے منع کیا ہے؟ یا ان کو پورا کرنا جرم قرار دیا ہے؟ سوچنا چاہیے کہ اگر وہ اپنا حق مانگ رہی ہے تو آپ کے بھی حقوق پورا کرے گی، جب مرد اسکے سارے حقوق کی ادائیگی کریگا تو عورت کو بھی اپنے حقوق جھاڑنے کا موقع ہی کہاں ملے گا؟

ایک عالمہ سے شادی کرنے میں مرد کا ہی فائدہ ہے، گھر کا ماحول دینی ہوگا، بچوں کی دینی تربیت  بھی آسانی سے ہوگی اور بہت کچھ، جس کا علم تجربہ سے ہی ہوسکتا ہے، اس لیے اس نظریہ میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔

Post a Comment

0 Comments