آئیے بریلوی علماء کی زبانی عید میلادالنبی کے بارے میں سنتے ھیں کہ وہ کیا کہتے ہیں؟
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔بنی اسرائیل کے 72فرقے تھے اور میری امت 73فرقوں میں بٹ جائے گی وہ تمام کے تمام جہنم میں جائیں گے ماسوائے ایک کے ﴿وہ ایک جنت میں جائے گا ﴾آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ وہ فرقہ کونسا ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۛۛماانا علیہ واصحابی وہ ایسا گروہ ہے جس کے اعمال اسطرح ہونگے جیسے میرے اور میرے صحابہ کے ہیں ﴿ترمذی الحدیث 2641﴾ عزیز بھائیوۛہم حنفی علماء سے پوچھتے ہیں کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے ﴿جو جنتی ہیں ﴾کیا جشن عید میلاد النبی منایا یا نہیں؟ ﴿١﴾ حنفی علماء لکھتے ہیں جشن عید میلاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں؛اس جماعت کے بہت بڑے مفتی احمد یار خان نعیمی گجراتی اپنی کتاب جاء الحق ﴿صفحہ :243﴾میں محفل میلاد کی بحث میں امام سخاوی کا قول نقل کرتے ہیں ۔کہ میلاد تینوں زمانوں ﴿عہد نبوی،عہد صحابہ اور عہد تابعین ﴾ مین سے کسی نے نہیں کیا بعد میں ایجاد ہوا۔ ﴿۳﴾حنفی مولوی لکھتے ہیں جشن میلاد خلفائے راشدین سے ثابت نہیں ؛علامہ صدیق ہزاروی شیخ الحدیث جامعہ ہجویریہ بھاٹی دربار لکھتے ہیں خلفائے راشدین میں سے پہلے دو ﴿ابوبکر و عمر﴾کا زمانہ جہاد اور اسلامی حکومت کے قیام کا دور تھا جب کے تیسرے اور چوتھے خلیفہ ﴿عثمان و علی ﴾کا دور حکومت فتنہ و فساد کا زمانہ تھا اس لیے انکی کامل توجہ ان امور کی طرف رہی اور جشن میلاد کی طرف زیادہ توجہ نہ ہوسکی ۔﴿رسائل میلاد حبیب صفحہ :13﴾ ﴿۳﴾ حنفی مولوی لکھتے ہیں جشن میلاد کسی صحابی اور تابعی سے ثابت نہیں؛ مولوی عالم آسی امرتسری اپنی کتاب الارشاد الی مباحث المیلاد کی ابتداء یوں کرتے ہیں ؛اس میں شک نہیں کہ مجالس میلاد جو موجودہ صورت میں پیش کی جاتی ہیں یا جس طرز پر آج کل جریدہ ایمان پیش کر رہا ہے نہ عہد رسالت میں موجود تھیں اور نہ عہد صحابہ میں اس کا ثبوت ملتا ہے اور نہ ہی بعد میں کئی صدیوں تک اس کا نشان آتا ہے ۔۔﴿رسائل میلاد حبیب صفحہ :112مرتبہ صلاح الدین سعیدی بریلوی﴾
﴿۴﴾جشن عید میلاد سلف صالحین سے ثابت نہیں ؛مولوی غلام رسول سعیدی شیخ الحدیث جامعہ نعیمیہ کراچی مفسر قرآن ،جنہوں نے صحیح بخاری و صحیح مسلم کی شرح بھی لکھی ہے۔اپنی کتاب شرح صحیح مسلم میں رقمطراز ہیں ؛گزارش یہ ہے کہ سلف صالحین یعنی صحابہ و تابعین نے محافل میلاد منعقد نہیں کیں بجا ہے۔لیکن صحابہ و تابعین نے اس فعل سے منع بھی تو نہیں کیا۔﴿شرح صحیح مسلم 2/179طبع فرید بک سٹال لاہور﴾قارءین دیکھیے کہ بریلوی شیخ الحدیث نے اس بات کا اقرار کیا کہ یہ میلاد النبی کسی صحابی و تابعی نے نہیں مناءی پھر آگے کہا کہ اس سے منع بھی نہیں کیا تو وہ منع تو تب کرتے کہ جب یہ کام انکی زندگی میں موجود ہوتا جب یہ کام انکی زندگی میں ہوا ہی نہیں جیسا کہ آپ تسلیم کر بھی رہے ہیں تو وہ منع کیسے کرتے اگر آپ اسی بات کو دلیل بناتے ہیں اس طرح تو شیعوں کی اذان بھی درست ہوئی کیونکہ صحابہ نے تو اس سے بھی منع بھی نہیں کیا۔عید سے پہلے اذان اور اقامت سے بھی منع نہیں کیا گیا تو کیا یہ جائز ہوجائیں گی جبکہ اسے تو کوئی بھی جائز نہیں کہتا
اب ذرا غور کریں کہ حنفی علماء نے کتنی وضاحت کے ساتھ لکھ دیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ،تابعین اور اءمہ اربعہ کے دور میں اسکا نہ وجود تھا اور نہ ہی انہوں نے منایا تھا۔تو اگر وہ بغیر منائے جنت میں جاسکتے ہیں تو آپ کیوں نہیں ؟ِنیز آج کل تو مشہور ہے کہ سوائے ابلیس کے اس جہاں میں سبھی تو خوشیاں منارہے ہیں ذرا غور کریں کہ یہ کتنا خوفناک جملہ ہے کیونکہ بریلوی علماء کے حتمی فیصلہ کے مطابق صحابہ ،تابعین،اءمہ،محدثین اور نبی علیہ السلام نے تو جشن نہیں منایا تو کیا نعوذباللہ ہم ان بزرگ ہستیوں کو بھی ابلیس ہی سمجھیں گے استغفراللہ نعوذباللہ ثم نعوذباللہ اے مسلمان ذرا غور کر کہ تیرا یہ کلمہ کس قدر توہین نبی علیہ السلام اور توہین صحابہ و ائمہ پر مبنی ہے
﴿۵﴾جشن میلاد غیر مسلموں کی تقلید ہے؛حنفی عالم لکھتے ہیں کہ غیر اقوام﴿عیسائی،شیعہ﴾کے میل جول نے انہیں اس امر کی طرف مجبور کیا کہ جس طرح وہ لوگ ﴿عیسائی ،شیعہ﴾ اپنے اسلاف کی یاد گاریں قائم کرتے تھے اس طرح مسلمان بھی اسلامی شان و شوکت ظاہر کرنے کے لیے مجبور ہوگئے کہ وہ بھی ایام اللہ منانے میں کوشش کریں ﴿رسائل میلاد حبیب ص113﴾اگر انہی کے طریقے پر چلنا ہے میلادیوں نے تو ہندوؤں ،سکھوں ،مجوسیوں اور باقی تمام کے طریقے بھی اپناؤ۔جبکہ پیارے نبی علیہ السلام نے تو فرمایا ہے کہ جو جس قوم کی مشابہت کرے گا اسی کے ساتھ اسکا حشر ہوگا تو کیا یہ آپ بھی اپنا حشر عیسائی و شیعہ اقوام کے ساتھ کروانا چاہتے ہیں اگر نہیں تو خدارا اس بدعت سے اجتناب کیجیے اور دوسروں کو بھی سمجھاءیں ﴿6﴾جشن عید میلاد بدعت ہے؛فرقہ بریلویہ کے امام احمد رضا بریلوی کے خلیفہ مولوی عبدالسمیع رامپوری لکھتے ہیں یہ سامان فرحت و سرور عینی خوشی اور وہ بھی مخصوص مہینے ربیع الاول کے ساتھ اور اس خاص وہی بارہواں دن میلاد شریف کا معین کرنا بعد میں ہوا یعنی چھٹی صدی کے آخر میں ہوا ﴿انوار ساطعہ ص159﴾الشیخ تاج الدین عمر بن علی الفاکہانی سے سوال ہوا تو جواب دیتے ہیں ؛میں کتاب و سنت میں اس میلاد کا کوئی اصل نہیں جانتا اور علمائے امت جوکہ دین میں نمونہ اور متقمین ﴿صحابہ و تابعین﴾ کے آثار کو تھامنے والے تھے ان میں سے کسی ایک سے بھجی اس کا عمل منقول نہیں بلکہ یہ بدعت ہے باطل پرست،نفسانی خواہشات کے خوگر اور پیٹ پرستوں نے گھڑا ہے۔﴿الحآوی للفتاوی :191.190/1.﴾
ایک عربی عالم علامہ ڈاکٹر سید محد علوی نےمالکی نے کتابچہ لکھا جسن عید میلاد النبی علیہ السلام کے نام پر اور اس کا ترجمہ کیا علامہ یاسیناختر مصباح اعظمی﴿بھارت﴾نے اس کے پہلے صفحہ پر ہی لکھا ہے؛کسی ایک ہی مخصوص شب میں جلسہ میلاد مذکورہ کو ہم سنت نہیں کہتے بلکہ جو اس کا اعتقاد رکھے اس نے دین میں ایک نئی بات پیدا کی۔﴿رسائل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ص212،مکتبہ صلاح الدین سعیدی بریلوی﴾ اسی طرح یہ سب باتیں سننے کے بعد اگر کوئی کم عقل یہ اعتراض کرے کہ آپ بھی تو اسپیکر،لائٹ ،گاڑیاں وغیرہ استعمال کرتے ہو جو کہ نبی علیہ السلام کے زمانے میں نہ تھیں تو اس گروہ کے امام احمد رضا خان صاحب بریلوی کہتے ہیں لبدعت و ضلالت وہی ہے جو بات دین میں نئی پیدا ہو اور دنیوی رسوم و عادات پر حکم بدعت نہیں ہوسکتا مثلاپہننا،پلاؤ کھانا یا دولہا کو جامہ پہنانا،دلہن کو پالکی میں بٹھانا،اسی طرح سہرا کہ اسے بھی کوئی دینی بات سمجھ کر نہیں کیا جاتا نہ ہی بغرض ثواب کیا جاتا ہے بلکہ سب اسے ایک رسم جان کر ہی کرتے ہیں ،ہاں اگر کوئی جاہل اجہل ایسا ہو کہ اسے دینی بات جانے تو اس کی اس بیہودہ سمجھ پر اعتراض صحیح ہے،﴿فتاوی رضویہ 23/320جامعہ نظامیہ لاہور﴾ لہذا آج کل بریلویت کا ضروریات زندگی کے استعمال پر اعتراض کرنا جہالت او ر بیہودہ سمجھ ہے ۔ڈاکٹر طاہر القادری اس بدعت کو عید کہتے ہوئے اس کی حیثیت بتاتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ جشن عید میلاد النبی عید مسرت ہے نہ ہم اسے عید شرعی سمجھتے ہیں ﴿میلاد النبی علیہ السلام ۔ص757﴾ تو ہمارا سوال ہے کہ اگر آپ اسے عید شرعی نہیں سمجھتے تو اس کے نہ منانے والوں کو ابلیس کیوں کہتے ہیں کیوں انہیں گستاخ ہونے کے طعنے دیتے ہیں خدارا کچھ تو شرم کیجیے ۔۔۔۔
(7)کیا حقیقی عید میں اختلاف ممکن ہے ؟;;ان سب باتوں کے بعد یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آخر میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ میں مسلمان متفق کیوں نہیں ِ کوئی 9 ربیع الاول بتاتا ہے تو کوئی 12 ربیع الاول بلکہ پیر عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ جن کے نام کی ہر ماہ گیارہویں کھائی جاتی ہے وہ اپنی کتاب غنیة الطالبین ﴿2/55﴾ پر لکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیداءش کی تاریخ 10محرم نقل کی ہے احد رضآ خان بریلوی نے سات اقوال نقل کیے ہیں ﴿فتاوی رضویہ :2/411﴾حافظ ابن عبدالبر نے 2 ربیع الاول لکھی ہے اور زبیر بن بکار نے 12رمضان ولادت تسلیم کی ہے ۔﴿الاتیعابلابن البر :1/30﴾ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے 8 ربیع الاول کو رسولا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دن قرار دیا ہے۔﴿ما ثبت بالسنہ ص:57از شیخ عبدالحق محدث دہلوی﴾ ابو جعفر محمد بن علی رحمہ اللہ نے پیارے پیغمبر علیہ السلام کی پیدائش 10ربیع الاول بتائی ہے ﴿طبقات ابن سعد :100/1﴾یعنی اس بارے مسلمانوں کا اختلاف کثیر ہے حتی کہ احناف خود بھی اس بارے متفق نہیں لیکن پھر بھی اسے عید کہ رہے ہیں انہیں اللہ سے ڈرنا چاہیے
(8)بارہ ربیع الاول خوشی کا دن یا۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؛؛؛ اسی طرح ربیع الاول جس دن خوشیاں اور رنگ رلیاں مناءی جاتی ہیں یہ بات قابل غور ہے کہ یہ دن تاریخ اسلامی میں خوشی کا ہے یا غمی کا بریلویوں کے امام احمد رضا خان بریلوی نے بارہ ربیع الاول کو نبی علیہ السلام کی وفات کا دن تسلیم کیا ہے ۔﴿ملفوظات،ص:252،طبع مشتاق بک کارنر لاہور،فتاوی رضویہ :415/2﴾اور اسی بات کے متعلق ڈاکٹر طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں ؛جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کا دن بھی تھا سرکار دو جہاں اپنے خالق حقیقی سے جاملے تو صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر غم و آلام کا ایک کوہ گراں ٹوٹ گیا۔ اس لیے جب بھی انکی زندگی میں بارہ ربیع الاول کا دن آتا تو وصال کے صدمے تلے ولادت کی خوشی دب جاتی اور جدائی کا غم آتا تو خوشی و غم کی کیفیتیں مل جاتیں اور صحابہ اکرام وصال محبوب کو اد کر کے صدمہ زدہ دلوں کے ساتھ خوشی کا اظہار نہ کر سکتے تھے تو وہ ولادت کی خوشی مناتے نہ وصال کے غم میں افسردہ ہوتے ﴿میلاد النبی :454,453﴾
قارءین غور فرمائیے کہ قادری صاحب اور احمد رضا خان نے اقرار کیا ہے کہ بارہ ربیع الاول کو صحابہ غمگین تھے لیکن افسوس صد افسوس آج بریلویت صحابی کے برعکس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر خوشیاں منا رہی ہے اب سچیں کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے طریقے پر عمل کرنا ہے یا من گھڑت نظریے پرِہم نے نبی علیہ السلام و صحابہ کے ساتھ جنت میں جانا ہے یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم نے نبی و صحابہ کرام کا ساتھ دیتے ہوءے فرقہ ناجیہ ﴿جسکے جنتی ہونے کی بشارت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ﴾ میں شامل ہونا ہے یا باقی 72فرقوں میں ۔۔محترم قارئین اگر ہم نے ان دلائل و گھر کی گواہیوں کو پڑھ کر بھی اس عمل سے باز نہ آئے تو یاد رکھنا ہر وہ عمل جو بعد کی پیداوار ہو اور اسے دین کا حصہ بنا دیا جائے بالاتفاق بدعت اور حرام کے زمرے میں آتا ہے نبی علیہ السلام نے فرمایا ﴿من احدث فی امرنا ما لیس منہ فھو رد﴾بخاری؛2697کہ جس نے کوئی ایسا عمل ہمارے دین میں کیا جو اس میں نہیں تھا وہ مردود ہے ۔۔امام بغوی رحمہ اللہ نے اسے یوں روایت کیا ہے ﴿من احدث فی دیننا ما لیس منہ فھو رد﴾باب رد البدعوالھوا:103۔۔۔۔۔۔۔۔اسی طرح نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ بیشک اللہ تعالی بدعتی آدمی کی اس وقت تک توبہ قبول نہیں کرتا جب تک وہ بدعت کو چھوڑ نہیں دیتا ۔۔اور اللہ نے فرمایا اور جو ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرے گا اور مومنوں کے علاوہ دوسرے رستے کی پیروی کرے گا تو ہم اسے اس طرف پھیر دیں گے جدھر وہ پھرے گا اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے ۔۔اس لیے اے مسلمان بدعت کو چھوڑ دے اور سنت کو اپنا اگر اپنی کامیابی چاہتا ہے اللہ ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان بنائے اور بدعات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔
سمجھ نہیں آتی ایک غیر شرعی اور بدعتی عمل کو اتنی اہمیت کیوں دی جاتی ہے، اور اس بدعتی عمل کے لیے علماء کو کیوں دلیل بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اگر چہ آپ نےمحمد بن عبدالوہاب، امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم جوزی وغیرہ کو ہمارے لیے دلیل بنا کر پیش کیا ہے تو سن لیں کہ:
ہمارے لیے حجت قرآن و حدیث ہے، قرآن و حدیث پر ہم اسی طرح عمل کرنا چاہتے ہیں جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے کیا۔
اگر آپ ان علماء کے اقوال کو اپنے لیے دلیل بناتے ہیں تو سن لیں کہ:
یہ علماء کرام موحد تھے اور انہوں نے اپنی زندگی توحید کی دعوت دینے میں گزاری، اگر آپ کو محمد بن عبدالوہاب کے اقوال میلاد کے بارے میں اتنے ہی پسند ہیں تو سنیے کہ دین اسلام کا بنیاد عقیدہ توحید ہے تو پہلے عقیدہ توحید کے بارے میں ان کی پیش کی گئی دعوت کو مانیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ چلو بحث کے طور پر مان لیں کہ 12 ربیع الاول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دن ہے، تو یہ دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کتنی بار آیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کی زندگی میں کتنی بار آیا، تابعین، تبع تابعین کی زندگی میں کتنی بار آیا، اگر انہوں نے یہ دن نہیں منایا، اس دن کو عید نہیں مانا، جلوس نہیں نکالے، نعرے نہیں مارے، تو کیا یہ سارے غلط تھے، کیا یہ سارے محروم لوگ تھے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کیا جواز رہ جاتا ہے میلاد کا دن منانے کا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کی اہمیت تھی تو قرآن نے واضح کر کے بیان کر دیا ہے، میلاد منانا کوئی اہم نہیں تھا نہ ہی یہ کوئی ثواب کا کام تھا اسی لیے یہ دین اسلام میں نہیں ہے، اللہ تعالیٰ بریلویوں کو ہدایت عطا فرمائے آمین۔
عید میلاد کی شرعی حیثیت کیا ھے۔؟
مروّجہ جشنِ عید ِمیلاد ِالنبی کی قرآن و حدیث میں کوئی اصل نہیں ،
اس کی ابتدا چوتھی صدی ہجری میں ہوئی ، سب سے پہلے مصر میں نام نہاد فاطمی شیعوں نے یہ جشن منایا۔
(الخطط للمقریزی : ١/٤٩٠وغیرہ)
نبی کے یوم ِولادت کو یومِ عید قرار دینا عیسائیوں کا وطیرہ ہے ، مروّجہ عید ِمیلادِ النبی،عید ِمیلادِ عیسیٰ علیہ السلام کے مشابہ ہے اور بدعتِ سیّئہ ہے ، جبکہ کفار کی مشابہت اور ان کی رسومات پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔
صحابہ کرام کے زمانہ بلکہ تینوں زمانوں میں اس کا وجود نہیں ملتا، بعد کی ایجاد ہے ۔
جناب احمد یار خاں نعیمی بریلوی صاحب نقل کرتے ہیں :
لَمْ یَفْعَلْہُ أَحَدٌ مِّنَ الْقُرُونِ الثَّلَاثَۃِ، إِنَّمَا حَدَثَ بَعْدُ .
میلاد شریف تینوں زمانوں میں کسی نے نہ کیا ، بعد میں ایجاد ہوا ۔''(جاء الحق : ١/٢٣٦)
جناب غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب یوں اعتراف ِحقیقت کرتے ہیں:
''سلف صالحین یعنی صحابہ اور تابعین نے محافلِ میلاد نہیں منعقد کیں بجا ہے۔''
(شرح صحیح مسلم : ٣/١٧٩)
جناب عبد السمیع رامپوری بریلوی لکھتے ہیں :ــ''یہ سامان فرحت و سرور اور وہ بھی مخصوص مہینے ربیع الاول کے ساتھ اور اس میں خاص وہی بارہواں دن میلاد شریف کا معین کرنا بعد میں ہوایعنی چھٹی صدی کے آخر میں۔''(انوارِ ساطعہ : ١٥٩)
اہلِ بدعت علی الاعلان تسلیم کر رہے ہیں کہ صحابہ و تابعین نے یہ جشن نہیں منایا ، ہم بھی یہی کہتے ہیں ، لہٰذا یہ کہنا کہ اس فعل سے منع بھی تو نہیں کیا ، یہ سراسر جہالت اور سنت دشمنی کی دلیل ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم نعمت ِعظمیٰ ہیں ، اس نعمت کی قدرآپ کی اطاعت و اتّباع اور آپ کی سنّتوں سے محبت میں ہے ، نہ کہ دینِ حق میں بدعات و خرافات جاری کرنے میں ۔
بدعتی حضرات خود اس میلاد کے بارے میں یہ اقرار بھی کرتے ہیں کہ صحابہ کرام اور تابعین اور ائمہ دین کے دور میں اس کا وجود نہ تھا بلکہ چھٹی صدی کے آخر میں شروع ہوا ، پھر اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم اس کو منانے کے دلائل بھی رکھتے ہیں ۔ کیسی بات ہے کہ وہ دلائل چھ صدیوں تک کسی مسلمان کو سمجھ نہ آئے !!!
آئیے ان دلائل کا علمی جائزہ لیتے ہیں :
شبہ نمبر 1 : اہلِ بدعت بدعات کی آڑ میں قرآن ِ پاک میں معنوی تحریف کے بھی مرتکب ہو تے ہیں ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(قُلْ بِفَضْلِ الْلّٰہِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا) (یونس : ٥٨)
''کہہ دیجئے کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کی بنا پر لوگ خوش ہو جائیں ۔''
بدعتی ترجمہ یہ ہے : ''اللہ تعالیٰ کے فضل ا و راس کی رحمت پرخوشی مناؤ۔''حالانکہ ''فَرِحَ'' کا معنی خوش ہونا یا خوشی محسوس کرنا ہوتا ہے ، نہ کہ خوشی منانا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ)(التوبۃ: ٨١) ''(غزوہ تبوک سے) پیچھے رہ جانے والے (منافقین )خوش ہوئے۔'' کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے خوشی منائی تھی ؟
صحیح بخاری (١٩١٥)میں ہے کہ جب سورۃ البقرۃ کی آےت (١٨٧)نازل ہوئی فَفَرِحُوا بِہَا فَرَحًا شَدِیدًا . ''تو اس پر صحابہ کرام بہت خوش ہوئے ۔''
کیا صحابہ کرام نے خوشی منائی اور جلو س نکالا؟
شبہ نمبر 2 :
سیّدنا معاویہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے ایک حلقے کے پاس تشریف لائے اور فرمایا، کیسے بیٹھے ہو ؟صحابہ نے عرض کی:
[جَلَسْنَا نَدْعُوا اللّٰہَ ، وَنَحْمَدُہ، عَلٰی مَا ہَدَانَا لِدِینِہٖ ، وَمَنَّ عَلَیْنَا بِکَ]
'' ہم بیٹھ کر اللہ سے دعا کر رہے ہیں اور اس نے ہمیں جو ہدایت دی ہے اور آپ کی صورت میں ہم پر جو احسان کیا ہے ،اس پر اسکی تعریف کر رہے ہیں ۔''
(مسند الامام أحمد : ٤/٩٢، سنن النسائي : ٥٤٢٨، جامع الترمذي : ٣٣٧٩، وسندہ، حسنٌ)
اہلِ بدعت کا اس حدیث سے مروّجہ جشنِ عید ِ میلاد کے جواز پر استدلال کرنا صحیح نہیں،کسی ثقہ امام نے اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت نہیں کیا، اس حدیث سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کا وہ حلقہ اللہ تعالیٰ کے احسانات پر اسکی تعریف بیان کر رہا تھا اور دعا کر رہا تھا، نہ کہ بدعتیوں کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ِولادت کو جشن منا رہا تھا،اس پر سہا گہ یہ کہ اکابرِ اہلِ بدعت کو اعتراف ہے کہ تینوں زمانوں میں میلاد کسی نے نہ منایا، بعد میں ایجاد ہوا،متعدّد علماء نے اس جشن کو بدعت ِمذمومہ قرار دیا ہے ۔
(دیکھیے: المدخل : ٢/٢٢٩،٢٣٤، الحاوي للفتاوي للسیوطي : ١/١٩٠۔١٩١)
شبہ نمبر 3 :
احمد یا ر خاں نعیمی لکھتے ہیں :
''عیسیٰ علیہ السلام نے دعاکی تھی:(رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا)(المائدہ : ١١٤)معلوم ہوا کہ مائدہ آنے کے دن کو حضرت مسیح علیہ السلام نے عید کا دن بنایا ۔''('جاء الحق' : ١/٢٣١)
یہ کس آیت یا حدیث کا معنی و مفہوم ہے؟ آیت ِ کریمہ کا ترجمہ تو یہ ہے :
''اے ہمارے رب ! ہم پر کھانا نازل فرما جو ہمارے پہلوں اور پچھلوں کے لیے باعث ِ خوشی ہو جائے ۔''
مطلب یہ ہے کہ وہ کھانا ہمارے لیے خوشی کا باعث ہو ، نہ کہ وہ دن جس دن کھانا اتارا جائے ، لہٰذا نعیمی صاحب کا یہ کہنا ''معلوم ہو ا کہ مائدہ کےاس کابطلان اوراس کی ممانعت پیش کی جاچکی ہے ۔
واضح رہے کہ جہاں تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کاتعلق ہے تو اس سے کسی کوانکار نہیں ،بلکہ حدیث رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہماراعقیدہ تویہ ہے کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتاجب تک کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نزدیک تمام چیزوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں ،لیکن محبت کاطریقہ کتاب وسنت سے ثابت ہوناچاہئے ۔
واللہ اعلم ۔۔
1 Comments
Mashallah very nice thqeeq
ReplyDelete