حضور پر نور ﷺ کے والدین جنتی ہیں یا جہنمی ؟ دارالعلوم دیوبند

حضور پر نور ﷺ کے والدین جنتی ہیں یا جہنمی ؟

حضور ﷺ کے والدین جنتی یا جہنمی



   پیشکش: محمد امتیاز پلاموی مظاہری  

بہت سے متعصب ، جھوٹے، مکار ، افتراء پرداز  اور جاہل مطلق اکابرین علماء حق علماء دیوبند کی طرف جھوٹی نسبت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ  علماء دیوبند کا عقیدہ ہے کہ حضور ﷺ کے والدین کافر اور جہنمی ہیں لاحول ولا قوۃ الا باللہ

اس سلسلے میں " مسلک دیوبند" کے دو مشہور و معروف اور معتمد دارالافتاء کے فتاوے قارئین کے پیش نظر کیے جا رہے ہیں۔

(١) دارالافتاء دارالعلوم دیوبند

(٢) دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

ان دو فتاوے سے " مسلک دیوبند" کا حقیقی موقف سامنے آجائے گا، ساتھ ہی کذابین و دجالین کا مکرو فریب کا تانا بانا بھی ریزہ ریزہ ہوکر باد سموم کی نذر ہوجائے گا ۔ انشاءاللہ

دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ

سوال:
 آخرت میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبد اللہ اور ماں آمنہ کے ساتھ کیا حال ہوگا؟ وہ کہاں جائیں گے جنت میں یا جہنم ؟ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور نبوت میں نہیں تھے اور نہ ہی وہ مسلمان ہوئے تھے۔ عبد المطلب کا مذہب کیا تھا؟ اور آخرت میں اس کے ساتھ کیا حال ہوگا؟

جواب نمبر: 58648
بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa ID: 364-329/Sn=6/1436-U

امام نووی رحمہ اللہ امام فخرالدین رازی وغیرہم نے تصریح کی ہے کہ جن حضرات کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہوا، اگر وہ شرک کے مرتکب تھے تو یہ لوگ مشرکین کے حکم میں ہیں، اگر ”شرک“‘ کے مرتکب نہ تھے، تو یہ دو طرح کے لوگ تھے کچھ تو راہیاب ہوگئے تھے، اپنی عقل سے انھوں نے اپنے خالق کو پہچان لیا تھا، مثلاً قسّ بن ساعدہ اور زید بن عمرو بن نفیل، یہ لوگ تو ”ناجی“ ہیں۔
دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جنھوں نے نہ تو شرک کا ارتکاب کیا اور نہ ہی راہیاب ہوئے؛ بلکہ ان کی زندکی غفلت میں گزری، ان کے بارے میں اقوال مختلف ہیں، بعض ”ناجی“ مانتے ہیں، بعض غیر ناجی، 
اللہ پاک سے امید تو یہی رکھنی چاہیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین اور دادا وغیرہ آخر الذکر دونوں قسموں میں سے ہی ہوں گے؛ بلکہ بعض ضعیف روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کو دوبارہ زندہ کیا تھا اور یہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ،پھر دوبارہ ان کو موت دے دی گئی۔

 بہرحال آخرت میں حضور کے والدین، دادا وغیرہ کے ساتھ کیا ہوگا؟ اس سلسلے میں کوئی قطعی بات نہیں کہی جاسکتی، اور نہ ہی مسلمانوں کو اس کے درپے ہونا چاہیے؛ اس لیے کہ یہ کوئی عقائد سے متعلق مسئلہ نہیں ہے کہ قبر میں پوچھ ہوگی، مسلمانوں کو تو چاہیے ایسی چیزوں میں اپنا قیمتی وقت صرف کریں جن میں ان کے لیے دنیا یا آخرت کا کوئی فائدہ ہو؟

  نیز اس مسئلے میں ”بحث“ کرنے سے بسا اوقات ایسی بات بھی زبان یا قلم پرآسکتی ہے جو خلافِ ادب ہے؛ اس لیے اس مسئلے میں توقف اور سکوت ہی بہتر ہے۔ 

حوالہ:
فقد صرح النووي والفخر الرازي بأن من مات قبل البعثة مشرکًا فہو في النار ․․․․ بخلاف من لم یشرک منہم ولم یوحّد بل بقي عمرہ في غفلة من ہذا کلہ ففیہم الخلاف، بخلاف من اہتدی منہم بعقلہ الخ بن ساعدہ وزید بن عمرو بن نفیل فلا خلاف في نجاتہم إلخ (رد المحتار علی الدر المختار، ۴/۳۷۹ ط: زکریا) نیز دیکھیں امداد الفتاوی (۵/۳۸۸، سوال: ۳۴۰، ط: زکریا)



دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کا فتویٰ


حضور پاک ﷺ کے والدین کا حکم

سوال:
 حضور پاک ﷺکے والدین سےمتعلق کیا حکم ہے؟ یعنی روزِ آخرت ان سے کیامعاملہ ہوگا؟

جواب:
بعض روایات میں آتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کو ان کی وفات کے بعدزندہ کیاگیاتھا اورآ پ صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائے تھے۔

بعض علماء فرماتے ہیں کہ چوں کہ وہ زمانہ فترت میں انتقال کرگئے تھے اور ان کے نزدیک  جو لوگ زمانہ فترت میں صریح شرک اور بت پرستی سے دور رہے ان  کے لیے آخرت میں نجات  کے لیے کافی ہوگا۔

باقی صحیح بات یہی ہے کہ اس سلسلے میں توقف کیاجائے یعنی خاموشی اختیارکی جائے ،اورآپﷺ کے والدین کے بارے میں کسی قسم کی گستاخی اوربے ادبی سے زبان کومحفوظ رکھاجائے، اس لیے کہ یہ مسئلہ نہ عقائد میں داخل ہے اور ہی ایمان کا جز ہے اور نہ آخرت میں ہم سے اس بارے میں پوچھا جائے گا۔

حوالہ 
فتاوی شامی (3/ 184) میں ہے:
'' ولا يقال: إن فيه إساءة أدب، لاقتضائه كفر الأبوين الشريفين مع أن الله تعالى أحياهما له وآمنا به، كما ورد في حديث ضعيف؛ لأنا نقول: إن الحديث أعم بدليل رواية الطبراني وأبي نعيم وابن عساكر: «خرجت من نكاح ولم أخرج من سفاح من لدن آدم إلى أن ولدني أبي وأمي لم يصبني من سفاح الجاهلية شيء»، وإحياء الأبوين بعد موتهما لا ينافي كون النكاح كان في زمن الكفر. ۔۔۔۔۔۔۔

وأما الاستدلال على نجاتهما بأنهما ماتا في زمن الفترة مبني على أصول الأشاعرة أن من مات ولم تبلغه الدعوى يموت ناجياً، أما الماتريدية، فإن مات قبل مضي مدة يمكنه فيها التأمل ولم يعتقد إيماناً ولا كفراً فلا عقاب عليه، بخلاف ما إذا اعتقد كفراً أو مات بعد المدة غير معتقد شيئاً.
نعم البخاريون من الماتريدية وافقوا الأشاعرة، وحملوا قول الإمام:لا عذر لأحد في الجهل بخالقه على ما بعد البعثة، واختاره المحقق ابن الهمام في التحرير، لكن هذا في غير من مات معتقداً للكفر، فقد صرح النووي والفخر الرازي بأن من مات قبل البعثة مشركاً فهو في النار، وعليه حمل بعض المالكية ما صح من الأحاديث في تعذيب أهل الفترة بخلاف من لم يشرك منهم ولم يوجد بل بقي عمره في غفلة من هذا كله ففيهم الخلاف، وبخلاف من اهتدى منهم بعقله كقس بن ساعدة وزيد بن عمرو بن نفيل فلا خلاف في نجاتهم، وعلى هذا فالظن في كرم الله تعالى أن يكون أبواه صلى الله عليه وسلم من أحد هذين القسمين، بل قيل: إن آباءه صلى الله عليه وسلم كلهم موحدون؛ لقوله تعالى: ﴿ وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِيْنَ ﴾ [الشعراء: 219]۔ لكن رده أبو حيان في تفسيره بأن قول الرافضة ومعنى الآية وترددك في تصفح أحوال المتهجدين، فافهم.

وبالجملة كما قال بعض المحققين: إنه لا ينبغي ذكر هذه المسألة إلا مع مزيد الأدب. وليست من المسائل التي يضر جهلها أو يسأل عنها في القبر أو في الموقف، فحفظ اللسان عن التكلم فيها إلا بخير أولى وأسلم''۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909200666
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

Post a Comment

0 Comments