ماں کی خدمت سے اتنا بڑا انعام ملا کہ دنیا حیران رہ گئی

 رونگھٹے کھڑے کر دینے والی تحریر

ماں کی خدمت سے اتنا بڑا انعام ملا کہ دنیا حیران رہ گئی 

میرا نام کلیم حیدر ھے

 میں فوج میں میجر تھا

 میرے والد صاحب نے میری ماں کو مار مار کر ان کے کندھے کی ھڈی توڑ دی تھی۔ مناسب علاج نہ کروانے کی وجہ سے ھڈی نے خون سپلائی کرنے والی نالیوں کو نقصان پہنچایا تھا اور خون کی سپلائی بند ھونے کی وجہ سے میری ماں کا بازو بےجان هو کر سوکھ گیا تھا۔ پھر جب میری ماں کو فالج اٹیک آیا تو میں نے اپنی پوسٹ سے استعفیٰ دے کر ماں کی خدمت کا فیصلہ کیا۔ بیوی کی لاکھ کوششوں کے بعد بھی میرا دل مطمئن نہ ھوا اور میں نے استعفیٰ دے دیا ۔۔۔۔۔ 

میرا تعلق ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ھے۔ میری ماں کی عمر تیرہ برس تھی جب میری نانو کا انتقال ھوا۔ میری نانو کی وفات کے بعد میرے نانا نے میری ماں کی پرورش کا بیڑہ اٹھایا مگر انہیں جلد ھی یقین هوگیا کہ وہ یا تو میری ماں کو کما کر کھلا سکتے ھیں یا پھر ان کے محافظ بن کر گھر بیٹھ سکتے ھیں۔ لہذا جب میری ماں سولہ برس کی عمر کو پہنچی تو میری ماں کا نکاح میرے نانا نے اپنے بھتیجے (میری ماں کے چچا زاد) سے یہ سوچتے ھوئے کر دیا کہ گھر کا دیکھا بھالا لڑکا ھے، میری بیٹی کو اچھی طرح سمجھتا ھے، میرا بھتیجا بھی ھے اس لیے خوش رکھے گا۔ مگر یہ بات میرے نانا کی خام خیالی ھی ثابت ھوئی۔ میرے نانا میری ماں کی شادی کے بعد ڈیڑھ برس زندہ رھے۔ ان ڈیڑھ برسوں میں میری ماں تین بار روٹھ کر اپنے باپ کی دھلیز پر آئی، ھر بار میرے نانا نے اپنے بھائی (میرے دادا) کی منت سماجت کرکے میری ماں کو واپس بھجوا دیا ۔۔۔۔۔ 

ڈیڑھ برس بعد میرے نانا کا انتقال ھوا تو میری ماں بالکل لاوارث هو گئی۔ میرے ددھیال والوں کو کھلی چھٹی مل گئی۔ اب میرے والد محترم کے ساتھ ساتھ میری دادو اور دونوں پھوپھیاں بھی میری ماں کو پیٹنے کا کوئی موقع ھاتھ سے نہ جانے دیتیں۔ یہاں تک کہ ایک بار میرے والد صاحب نے جمعہ کی نماز کے لیے جانا تھا اور میری ماں طبعیت خرابی کی وجہ سے ان کے کپڑے استری کر کے نہ رکھ پائی تو اس بات پر انہوں نے میری ماں کو کپڑے دھونے والے ڈنڈے سے مار مار کر ان کے کندھے کی ھڈی توڑ دی۔ کندھے کی ھڈی توڑنے کے بعد کسی ڈاکٹر تک کو دکھانے کی زحمت نہ کی گئی بلکہ الٹا میری ماں درد سے کراھتی تو اسے اور پیٹا جاتا اور بہانے خور جیسے القابات سے نوازا جاتا یہاں تک کہ مسلسل حرکت میں رھنے کی وجہ سے ٹوٹی ھوئی ھڈی نے انگلیوں اور بازو کو خون سپلائی کرنے والی نالیوں کو بھی کٹ کر دیا۔۔۔۔۔  

جب خون سپلائی کرنے والی نالیاں کٹ هو گئیں تو خوں کی سپلائی آھستہ آھستہ انگلیوں تک پہنچنا بند هو گئی اور بازو بےجان هونا شروع هو گیا یہاں تک بازو بےجان هو کر سوکھ گیا اور ساتھ ھی لٹک کر رہ گیا۔ جب میرے دادھیال والوں کو یقین هو گیا کہ میری ماں بالکل مفلوج هو چکی ہئے تو انہوں نے میری ماں پر بدکردار ھونے کا الزام لگا کر  اسے طلاق دلوا کر گھر سے نکلوا دیا۔ جب میری ماں کو طلاق دے کر گھر سے نکالا گیا اس وقت میں اپنی ماں کے پیٹ میں سات ماہ کا هو چکا تھا۔ دو ماہ تک میری ماں کو گاؤں کی دائی نے اپنے گھر پناہ دیے رکھی دو ماہ بعد جب میری پیدائش ھوئی تو میرے دادھیال والوں کو خطرہ پیدا هو گیا کہیں میں ان کی جائیداد نہ ہتھیا لوں اس لیے انہوں نے میری ماں کو دائی کے گھر بلکہ گاؤں سے بھی نکلوا دیا۔ گاؤں سے نکالے جانے کے بعد میری ماں کے پاس اور کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اس لیے میری ماں مجھے کپڑے کی ایک گانٹھ میں لپیٹ کر کبھی دانتوں کی مدد سے کبھی کندھے سے لٹکا کر ٹوبہ ٹیک سنگھ شہر پہنچی اور پہلی رات میری ماں نے مجھے لےکر ایک گوشت والے پھٹے کے نیچے گزاری اور ساری رات میری ماں مجھے گود میں رکھ کر جاگتی رھی تا کہ کوئی آوارہ کتا مجھے چبا نہ ڈالے ۔۔۔۔۔ 

وقت گزرتا ھے۔ پہلے پہل میری ماں فروٹ والی ریڑھیوں کے آس پاس پڑا گندا فروٹ اٹھا کر اپنا پیٹ بھرتی ھے پھر اللہ تعالیٰ کے بنائے نظام کے ذریعے اس خوراک کو دودھ میں بدل کر میرے لیے خوراک کا بندوبست کرتی ھے اور میرا پیٹ بھرتی۔ جب میری ماں کو بازار میں رھتے کچھ عرصہ گزرتا ھے تو مقامی دوکاندار میری ماں پر اعتبار کرنے لگتے ھیں یوں انہیں دکانوں میں صفائی کا کام مل جاتا ھے ۔۔۔۔۔۔ 

دکانوں میں مجھے اٹھا کر اپنے پیچھے جھولی نما کپڑے میں ڈال کر اپنے پیچھے لٹکانے کے بعد صرف ایک ہاتھ سے صفائی کرنا بہت مشکل هو جاتا اس لیے میری ماں کچھ پیسے جمع کر کے برش پالش اور ہتھوڑی کیل دھاگہ اور سوئے خریدنے کے بعد جوتے سلائی کرنے کا کام شروع کر دیتی ھے۔ میری ماں مجھے گود میں لٹا کر ایک ھاتھ اور منہ کی مدد سے جوتے سلائی کرتی ھے۔ کچھ خدا ترس لوگ میری ماں کو اجرت سے زیادہ پیسے دے جاتے ھیں جبکہ کچھ اوباش نوجوان جان بوجھ سیوریج کی نالی میں جوتا گندا کر کے میری ماں کو پالش کرنے کے لیے دیتے ھیں اور جب اس جوتے کو منہ اور کپڑے کی مدد سے میری ماں صاف کرتی ہے تو میری ماں کی بے بسی پر ہنستے ھیں ۔۔۔۔۔ 

خیر وقت گزرتا رہا۔ میں سکول جانے کی عمر کو پہنچتا هوں تو میری ماں مقامی امام مسجد اور چند معزز لوگوں کے ذریعے میرے والد صاحب سے اس وعدے پر شناختی کارڈ کی کاپی لے لیتی ھے کہ میرا بیٹا بڑے هو کر کبھی ددھیال کی جائیداد میں سے حصہ طلب نہیں کرے گا۔ شناختی کارڈ کی کاپی مل جانے پر میری ماں مجھے سکول داخل کرواتی ھے۔ میرے استاد محترم سید ظفر صاحب کو جب میرے حالات کا پتہ چلتا تو مجھے اور میری ماں کو بازار سے اٹھا کر اپنے گھر لاتے ھیں۔ ھمیں ایک الگ کمرہ دیتے ھیں اور ہمارا سارا خرچ برداشت کرتے ھیں۔ بدلے میں میری ماں سید ظفر شاہ کے انکار کے باوجود ان کے گھر کے کام کاج کا ذمہ اٹھا لیتی ھے۔ میں پڑھتا رھتا هوں یہاں تک کہ استاد محترم میرے لیے آرمی میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ اپلائی کرتے ھیں۔ میں سلیکٹ هو جاتا هوں اور میرا شمار ٹاپ ٹین کیڈٹس میں هوتا ھے۔ میں کورس مکمل کرتا هوں اور میری شادی استاد محترم کی بیٹی سے کر دی جاتی ھے ۔۔۔۔۔ 

جب  میں بطور کیپٹن انٹیلیجنس کے ایک مشن پر هوتا هوں تو ہارٹ اٹیک سے میرے استاد محترم، سسر سید ظفر صاحب انتقال کر جاتے ھیں۔ میں ان کے جنازے میں شامل نہیں هو سکتا اور مشن مکمل کرنے کے بعد میں پورا ہفتہ روزانہ ان کی قبر پر بیٹھ کر ان کے جنازے کو کندھا نہ دے سکنے پر معذرت کرتا رھتا هوں۔ جب دل کا غم ھلکا هوا تو واپس ڈیوٹی جائن کرتا هوں۔ میں اپنے پورے بیج میں واحد اور منفرد آفیسر تھا جو پہلے خود جاسوس بن کر دشمن کا سراغ لگاتا پھر اپنی ٹیم تیار کر کے دشمن کا قلع قمع کرتا۔ میں بلوچستان میں ایک مشن پر تھا جب مجھے پتہ چلا کہ میری ماں کو فالج کا اٹیک آیا ھے۔ میں نے اپنے سینئرز، بیج میٹس یہاں تک کہ اپنی شریک حیات کے روکنے کے باوجود فوج سے استعفیٰ دیا اور اپنی ماں کی خدمت میں مصروف هو گیا۔ مجھے یاد ھے کرنل لطیف اور برگیڈئیر امتیاز نے مجھے کہا تھا اس فیصلے کے بعد تم پچھتاؤ گے۔ میری بیگم نے مجھے قسم دی تھی کہ وہ میری ماں کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی، میں اپنے عہدے پر قائم رھوں مگر میرا دل نہیں مانا ۔۔۔۔۔ 

میرے دل میں کہیں نہ کہیں خلش رھتی تھی کہ میری ماں جو کچھ مجھ سے کہہ سکتی ھے وہ میری بیوی سے نہیں کہہ سکتی۔ لہذا میں نے استعفیٰ دے دیا اور خود اپنی ماں کی خدمت کرنے لگا۔ میری ماں جب تک زندہ رھی میں نے شاید ھی کوئی رات گھر سے باھر گزاری هو۔ نہیں تو میں چوبیس میں سے اٹھارہ گھنٹے ماں کے ساتھ گزارتا تھا۔ میں نے چھوٹا سا گاڑیوں کا شو روم بنایا لیا جس پر ملازم بیٹھتا تھا۔ میں سارا دن ماں کے ساتھ گزارتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ماں کی خدمت کے صدقے میں اتنی برکت دی کہ میرے پاس آج بیرون ملک ناروے میں سات شو روم ھیں۔ آج پاکستان میں میری اپنی انڈسٹری ھے۔ میری ماں فوت هو چکی ھے۔ میرے بچے جوان هو چکے ھیں۔ میری بیٹی امریکہ میں زیر تعلیم ھے۔ دونوں بیٹوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ناروے میں بزنس سنبھال رکھا ھے۔ میری اولاد منتظر رھتی ھے کہ کب ان کے والدین کوئی حکم دیں اور وہ بجا لائیں۔ کچھ عرصہ قبل میں اپنی بیوی کے ھمراہ امریکہ میں اپنی بیٹی کو ملنے گیا تو بیٹی کے کہنے پر ھم اولڈ ہوم چلے گئے۔ وہاں پر مقیم ایک پاکستانی، جسے شکل دیکھتے ہی میں نے پہچان لیا تھا کہ وہ برگیڈئیر امتیاز ھے، کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ پاکستان میں اس کا رعب دبدبہ اس کی شان و شوکت سب کچھ امریکہ میں ختم هو چکا تھا۔ وہ بالکل ھڈیوں کا ڈھانچہ تھا۔ میرے لاکھ یاد دلانے پر بھی وہ مجھے نہیں پہچان پایا۔ انتظامیہ سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ اس کا بیٹا اسے یہاں چھوڑ گیا تھا اور اس کی موت پر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کی نصیحت کر گیا تھا۔ اولڈ ھوم سے واپسی پر میں تھک کر اپنی رھائش پر پہنچا تو میری بیٹی اور بیوی نے مجھے دبانا اور میرا مساج کرنا شروع کر دیا تھا۔ میں بنا کسی قسم کی ناگواری کا اظہار کیے پاؤں کی مالش کرتی بیٹی کو دیکھ کر سوچ رھا تھا کہ واقعی ھی ماں باپ سے حسن سلوک ایک ایسا عمل ھے جسے آج آپ لکھیں گے کل آپ کی اولاد آپ کو پڑھ کر سنائے گی اور برگیڈئیر امتیاز کی حالت نے میری اس سوچ پر مہر ثبت کر دی تھی ۔۔۔

کاپی پیسٹ 

نوٹ اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے

Post a Comment

0 Comments