ہند و پاک میں مذہبی سیاست / دو مکاتب فکر

 ہند و پاک میں مذہبی سیاست

دو مکاتب فکر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہندو پاک میں مذہبی سیاست hindustan-pakistan-me-mazhabi-siyasat


✍️ محمد اویس پراچہ  

===========================

1857 کی بات ہے۔ جنگ آزادی کے لیے شوری کا اجلاس جاری تھا۔ سب اس کے حق میں تھے کہ معرکہ بپا ہو، سوائے ایک محدث عالم "شیخ محمد" صاحب کے۔ حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ نے پوچھا: " حضرت کیا وجہ ہے کہ آپ ان دشمنان دین و وطن پر جنگ کو فرض بلکہ جائز بھی نہیں فرماتے؟" ارشاد فرمایا: "اس لیے کہ ہمارے پاس اسلحہ اور آلات حرب نہیں ہیں، ہم بالکل بے سر و سامان ہیں۔" حضرت نانوتویؒ نے پوچھا: "کیا اتنا بھی سامان نہیں ہے جتنا بدر میں تھا؟" مشورہ نکلنے کے حق میں ہوا۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کو امیر بنایا گیا۔ شروع میں کچھ فتوحات بھی ہوئیں۔ لیکن جب انگریز نے پلٹ کر حملہ کیا تو آلات کی کمی واقعتاً آڑے آ گئی۔ ایک توپ کا پورے توپ خانے اور توڑے دار بندوقوں کا کارتوس رائفلوں سے مقابلہ تھا۔ ظاہری طور پر پسپائی ہی اختیار کرنی پڑی۔


یہ قصہ مولانا سید محمد میاں صاحبؒ نے "علماء ہند کا شاندار ماضی" میں تحریر کیا ہے۔ مولانا شیخ محمد صاحب اور دیگر حضرات کا یہ اختلاف مذہبی سیاست  کے دو مکاتب فکر کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ مذہبی سیاست سے میری مراد ہے: "مذہب اور اہل مذہب کو لا مذہبیت اور اس کے آلہ کاروں کے تسلط سے بچانے کی کوشش۔" یہ کام اکثر علماء کرتے ہیں لیکن طریقہ مختلف ہوتا ہے۔ ہند و  پاک میں ہمیں اس حوالے سے دو مکاتب فکر نظر آتے ہیں جنہیں آپ "ایکٹو" اور "پیسِو" کہہ سکتے ہیں۔ "ایکٹو" سیاست میں علماء اور  اہل دین  ماحول و موقع کے حساب سے خود میدان عمل میں موجود ہوتے ہیں اور "پیسو" میں دیگر افراد کو تیار کر کے ان کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔


ہندوستان میں سید احمد شہیدؒ کی جد و جہد ایکٹو سیاست کی غالباً سب سے اعلی مثال ہے جس نے ہندوستان کی تاریخ پر گہرے اثرات چھوڑے۔ یہ باقاعدہ مسلح تحریک تھی جو کامیابی سے ہمکنار ہو جاتی اگر اقتدار پرست اپنوں کی سازش بیچ میں نہ آتی۔ ان کی شہادت کے بعد سیاست کے دونوں مکاتب فکر واضح ہو کر سامنے آئے۔ ایک جانب وہ حضرات تھے جنہوں نے کئی بار مسلح جدو جہد کی اور سوات کی طرف ایک عرصے تک اپنی حکومت بھی قائم رکھی، جبکہ دوسری جانب حالات کے مطابق فیصلہ کرنے والے حضرات تھے جن میں مولانا قاسم نانوتویؒ و دیگر تھے۔  دوسرا موقع دونوں کے درمیان حد فاصل کا 1857ء میں سامنے آیا جب علماء کرام کی اکثریت نے انگریزوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے اور شاملی کا معرکہ پیش آیا۔ اس جنگ میں حضرت مولانا امداد اللہ مہاجر مکیؒ کی قیادت میں مذکورہ بالا حضرات (مولانا قاسم نانوتویؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ و دیگر) سر فہرست تھے۔  اسباب کی کمی اور کچھ اور وجوہات کی بنا پر یہ معرکہ بھی انگریزوں کے ہاتھ رہا۔


اس جنگ میں پسپائی کے بعد انگریزوں نے علماء کرام کی اکثریت کو شہید یا پابند سلاسل کرنا شروع کر دیا۔ کچھ جنگ کے تجربے اور کچھ بعد کے حالات کو دیکھ کر ان حضرات نے پیسو  ہونا بہتر سمجھا اور دیوبند اور مظاہر العلوم کے مدارس کی بنیاد ڈالی گئی جن کا مقصد افراد سازی تھا۔ تیسرا موقع ہمارے سامنے حضرت شیخ الہندؒ کی کاوشوں کی صورت میں آتا ہے۔ یہاں "پیسو" دار العلوم دیوبند کی انتظامیہ تھی جو اپنا فوکس رجال سازی پر ہی رکھنا چاہتی تھی۔ شیخ الہندؒ کے مد نظر ہمہ جہت محنت تھی جس میں رجال سازی کے ساتھ ساتھ تحریکی عمل بھی شامل تھا۔ اس کی کچھ تفصیل مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کے یہاں ملتی ہے۔ چوتھا اور سب سے مشہور موقع ہندوستان میں چلنے والی تحریکات اور ان کے بعد سیاسی جد و جہد کی شکل میں نظر آتا ہے۔ اس میں علماء کرام کی اکثریت ایک جانب تحریک بپا  کرتے اور سیاست میں عملی حصہ لیتے ہوئے نظر آتی ہے اور حکیم الامت حضرت تھانویؒ ان کے برعکس رجال سازی میں مصروف اور تحریکات کے خلاف نظر آتے ہیں۔ حکیم الامتؒ کی رجال سازی کی محنت قائد اعظم محمد علی جناحؒ تک پہنچی جس کا بڑا اثر آنے والے دنوں میں دیکھا گیا۔ 


یہ دونوں مکاتب فکر اپنی اپنی جگہ ایک ہی جد و جہد کرتے ہیں جس کا نتیجہ دین کی سربلندی ہوتا ہے لیکن دونوں کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ رجال سازی پر توجہ رکھنے والے حضرات کی زیادہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی فریق کے آڑے نہ آئیں بلکہ اہل اسلام میں سے ہی مقتدر لوگوں اور طاقتوں کو دین کی جانب لائیں۔ ان میں ہمیں مجدد الف ثانیؒ اور حضرت شاہ ولی اللہؒ کی کوششیں سب سے زیادہ کامیاب نظر آتی ہیں۔ ان دونوں حضرات کی پہنچ بادشاہوں تک تھی، اسلام اور اہل اسلام کے خلاف ہر طرح کی سازش ہو رہی تھی اور یہ چاہتے تو اپنی جماعت کھڑی کر سکتے تھے۔ لیکن دونوں حضرات نے مقتدر قوتوں (شاہجہاں اور احمد شاہ ابدالی)  کو ہی استعمال کیا اور یوں کسی کے مقابل آئے بغیر اہل اسلام کو محفوظ کر لیا۔ باقاعدہ عملی میدان میں موجود حضرات کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان کی حکومت آئے یا انہیں قوت نافذہ حاصل ہو اور وہ اس کے ذریعے مسلمانوں کو محفوظ و مضبوط کریں۔ یہ کوشش کامیاب ہو جائے تو بہت بڑا موقع ملتا ہے لیکن اس میں لا محالہ اقتدار کی خواہش رکھنے والے مسلمان ان کے مقابل آتے ہیں اور مسلمان دو ٹکڑوں میں بٹتے ہیں۔ ناکامی کی صورت میں یہ فریق بڑا مسئلہ بن جاتے ہیں۔


ہند و پاک میں اگر دیکھا جائے تو کامیابی عموماً "پیسو" سیاست کرنے والوں کے ہی حصے میں آئی ہے، "ایکٹو" سیاست والے سیاسی طور پر کامیاب نہیں ہوئے (اگرچہ دینی لحاظ سےوہ کامیاب ہی ہیں)۔ اس کی وجہ یہاں کی افرادی صورت حال ہے۔ یہاں مختلف اقوام، ان اقوام میں مختلف مذاہب، ان مذاہب میں مختلف مسالک اور ان مسالک میں مختلف ذاتیں اور ان ذاتوں میں مختلف مفاد رکھنے والے رہتے ہیں۔ ان سب کو سیاسی طور پر ایک قوم، مذہب یا مسلک کے نمائندوں کے تحت لانا تقریباً ناممکن ہے۔ دشمن انہیں بآسانی توڑ لیتا ہے۔ انگریز بھی انہیں توڑ کر اپنے مقاصد حاصل کرتے تھے۔ اس لیے یہاں تبلیغی بھائیوں کی طرح میٹھے بول بولنے والے زیادہ کامیاب رہتے ہیں کہ وہ سب کو ہی ساتھ لے لیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کسی ایک مکتب فکر کو حق کا داعی اور محنت کرنے والا اور دوسرے کو کسی خول کے اندر رہنے والا نہیں سمجھنا چاہیے۔  دونوں کا اپنا اپنا میدان اور اپنا اپنا نتیجہ ہوتا ہے۔ ایک فریق کی وجہ سے پریشر بنتا ہے تو دوسرا اندرونی طور پر اصلاح کر دیتا ہے اور دونوں کام اہم ہیں۔

Post a Comment

0 Comments