یومِ جمہوریہ پر مختصر مضمون
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
![]() |
٢٦ جنوری یوم جمہوریہ پر مضمون |
محمد مہتاب عالم پلاموی۔
محترم ناظرین!
ہمارا ملک ہندوستان دیگر تمام جمہوری ملکوں میں امتیازی شان رکھتا ہے۔
ہمارا ملک امن و سکون کا مسکن ہے۔
یہاں مراکز علم و ادب کی بہتات ہے۔
گنگا جمنی تہذیب کی بل کھاتی ہوئی لہریں ہیں۔
آج ہمارا پیارا وطن ہندوستان کا چوہترواں یومِ جمہوریہ ہے۔
(۱) جمہوری ملک کسے کہتے ہیں؟
(۲) جمہوریت کا مطلب کیا ہے؟
(۳) اس کرۂ ارض فانی و بر انسانی پر جمہوری ملک کتنے ہیں؟
(۱) جمہوری ملک ایک ایسے گلستاں کے مانند ہے جس میں مختلف انواع و اقسام کے پھول ہوں جو باد نسیم کے خمدار گیسؤوں کے ذریعے اپنی مشکبار و مسحور کن خوشبوئیں ایک دوسرے کو بانٹتے ہیں۔ نیز ہر آنیوالے کو اپنی آغوش پھیلا کر والہانہ انداز میں مرحبا خوش آمدید کہتے ہیں۔
(۲) جمہوری ملک کا مطلب ہے جہاں لوگ اپنی زندگی گزارنے میں خود مختار ہوں۔
مذہبی رسوم و تہوار اور ماتمی و شاد مانی تقریب منانے میں آزاد ہوں۔
رباب و شہنائی کے موقع پر ایک دوسرے کا میل ملاپ ہو تاکہ اپنا اپنا غم غلط کریں۔
سیاسی زبان میں، جس ملک میں عوام الناس اپنی آزادانہ رائے کے ذریعے زمام کار کا امیدوار منتخب کرتے ہوں۔
(۳) ۲۰۱۸/۲۰۱۹ کے شرح شمار کے مطابق کل ایک سو سرسٹھ (۱۶۷) جمہوری ممالک ہیں جن میں فائق البلاد العشرة (top ten) مندرجہ ذیل ہیں
__________________
۱ فرانس
۲ برطانیہ
۳ جرمنی
۴ فلیپنس
۵ جاپان
۶ میکسیکو
۷ برازیل
۸ انڈونیشیا
۹ امریکا
۱۰ ھندوستان
ان سب میں نظام و انتظام کے اعتبار سے ہمارا وطن سب سے بہتر وبیشتر ہے۔
یومِ جمہوریہ کی تقریب جوش و خروش کے ساتھ ہندوستان کے گوشے گوشے اور چپے چپے میں منایا جاتا ہے۔
آخر کیوں؟
تو ہمہ تن گوش ہو کر دریچ سماع کے دبیز پردوں کو چاک کر کے سننے کی ضرورت ہے۔
آج کی تاریخ ہم ہندوستانیوں کے لیے وہ ناقابل گم گشتہ تاریخ ہے کہ جس دن عوام الناس کے سامنے لائحہ عمل کی صورت میں وہ آئین پیش کیا گیا جس نے پورے ہندوستان میں مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے لوگوں کو ایک پرچم تلے کھڑا کر دیا۔
ہمیں آپسی محبت و الفت اور اخوت و بھائی چارگی کا پیغام دیتا ہے۔
کالے گورے مذہبی و سماجی تفریق کو مٹانے کی دعوت دیتا ہے۔
علاقائی دیہاتی ہوں یا شہری اجنبیت کو پرے رکھ کر شانہ بشانہ ایک ہی صف میں کھڑے ہونے کی تلقین کرتا ہے۔
یہ ترنگا پرچم ساری بندشوں سے آزاد ہو کر ایک ہی قطار میں قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہونے کی سماجت کرتا ہے۔
پرچم کشائی کے وقت لوگ دست بجبین کر کے آنکھوں سے آنکھیں ملا کر یکجہتی و قوم پرستی اور اخوت و جان نثاری کا حلف جلی اٹھاتے ہیں۔
آسمان کو گواہ بنا کر زمین کو آباد و شاداب کرنے کی قسمیں کھاتے ہیں۔
سیاسی عروج اور تعلیمی فروغ کیلئے یک زبان ہو کر عہد وثیق کے نعرے لگاتے ہیں۔
لیکن آج ملک کا المیہ یہ ہے کہ کسی کو غیر ملکی تو کسی کو غدار وطن کا نام دے کر آپس میں انتشار و خلفشار کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے۔
یہ ترنگا پرچم بھی محو تماشا ہے کہ ہر سال تجدید عہد کرتے ہیں مگر اپنی روش نہ بدلے۔
ایسے حالات میں ملک کی بہبود کا خیال جنگل میں ہنس تلاش کرنے کے مترادف ہے۔
یہ خیال رہے ملک و ملت کا عروج و فلاح تعلیم کے بغیر ناممکن و محال ہے۔
خوف سلاسل اور دام اسیری کا خدشہ ہے مگر کہتا ہوں, آج ملک میں سارے کارخانے محافل سما شراب کے اڈے اور ازد حامی مراکز اپنے میں رواں دواں ہیں اگر پابندی ہے تو صرف تعلیمی اداروں، کالجوں اور یونیورسٹیوں پر ہے۔
کیا دنیا کے سارے ممالک حمقا و سفہا ہیں جو سوشل ڈسٹینس کی بندش کو پرے رکھ کر ملک کی فضا بحال کرنے کی راہ پر گامزن ہو گئے؟
اور دنیا کے سب سے دانا و خردمند یہیں تشریف رکھتے ہیں کہ اب تک لاک ڈاؤن کی صعوبتوں سے عوام زبونحالی و شکستہ بالی کے شکار ہیں؟
کیا بجا ہوتا کہ تعلیم فراہمی کے لئے کچھ ذرائع مہیا کئے جاتے۔
کیا بجا ہوتا کہ جو زر و ثمن لہو لعب میں صرف ہوتا ہے وہی سیم و زر تعلیمی ابلاغ کے لئے دستیاب ہوتا۔
اہلِ طاؤس و زمامِ کار سے یہ اپیل ہے کہ اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملک کی حالت دگرگوں ہوتی جا رہی ہے خصوصاً تعلیمی انحطاط سے ملک کی ابتری مزید بڑھتی جا رہی ہے۔
اس لئے تعلیمی اداروں کو جو کافی عرصہ سے مقفول ہیں جاری کیے جائیں تاکہ خوشحالی بحال ہو جائے۔
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے۔۔۔۔
ترے بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو۔۔۔۔
تمہاری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں۔
✍۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 Comments