اوم اللہ ہے اور منو حضرت آدم علیہ السلام ؟ مولانا ارشد مدنی کے بیان کا مطلب ؟

" اوم" اللہ اور "منو " حضرت آدم

کیا حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب کا بیان کا تعلق وحدت ادیان سے ہے؟



رام لیلا گراؤنڈ میں جیسا مجمع اور موقعہ تھا اس کے اعتبار سے مولانا ارشد مدنی صاحب کا یہی طرز خطابت مناسب و مفید تھا جو انہوں نے اختیار کیا ، اتنے عظیم مجمع میں وقت کی قلت اور مقررین کی بھیڑ کے علاوہ نیشنل اور انٹر نیشنل میڈیا کی موجودگی میں مولانا مدظلّھم نے بڑی حکمت سے پیغامِ دعوت و توحید اور اسلام پر شرک کی یلغار کا جامع اور مدلل جواب خود انہی کے دھرم گروؤں کے حوالے سے دیا ہے یہ اپنے آپ میں خود بہت مضبوط دلیل و شہادت ہے ، یہ موقع کسی خالص علمی بحث کا متحمّل نہیں ہوسکتا تھا ، اور اصولی بات یہی ہے کہ صحیح بات کو صحیح وقت پر صحیح طریقہ سے پیش کیا جائے تو مؤثر ہوتی ہے ورنہ چند لمحوں کی واہ واہی کے بعد نسیًا منسیّا ہو جایا کرتی ہے ۔

ہم لوگوں کا بھی عجیب حال ہے! ہم میں سے جنہوں نے بحث کو سمجھا ہی نہیں وہی یہ سب باتیں کہہ رہے ہیں!

یہاں "وحدت ادیان" کا مسئلہ سرے سے نہیں ہے۔

اصل بحث یہاں یہ ہے کہ رام، وشنو، اور برہما سے پہلے کون تھا؟ تو سیدھا اور سادہ جواب "منو" تھا۔

 سوال: منو کس کی پوجا کرتے تھے؟ جب وہ اوم کہتے تھے؟

اوم کی صفات کیا ہے؟ تو وہ نرا کار ہے، وہ ہر جگہ ہے، وغیرہ وغیرہ 

تو یہی صفات تقریبا اللہ کی بھی بیان کی جاتی ہے 

 اس سے لگتا ہے کہ وہ اللہ کی ہی عبادت کرتے تھے

اب بتاو کہ ہندستان کا پہلا مذہب پہلا دین کون ہوا ؟

     توحید یا شرک؟ 

پورے ہندوستان میں سناتن کی برتری کا شور تھا، انہیں خاموش کرنا تھا، تو فریق مخالف کو ان کے تسلیم شدہ اصول کی بنیاد پر ہی تو جواب دیا گیا ہے۔

مولانا ارشد مدنی کے بیان کو کلی طور پر جب تک نہ دیکھیں اس کا مفہوم و مراد سمجھ نہیں آسکتا اور نہ ہی اس کی اہمیت کا اندازہ کر سکتے ہیں، ان کی تقریر میں شعوری لحاظ سے دوسرے ادیان کی نفی پائی جا رہی ہے، بار بار وہ یہ کہتے سنے گئے کہ ان کے پاس کوئی آسمانی کتاب نہیں!

 یہ کچھ کہتے ہیں تو گمان سے کہتے ہیں!

 اور خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ان کی تقریر کے عین بعد جین منی نے وہی بات دہرائی جو سراسر اٹکل تھی، انہوں نے کہا کہ "ہمارے فلاں پوروج کا نام بھارت تھا جس کے نام پر اس ملک کا نام پڑا" یہ توضیح تو اسی قسم کی ہوئی کہ ہمارے ہاں پرانے وضع کے دیہاتی کبھی کبھی گاؤں کے پیچیدہ نام کی وجہ تسمیہ کوئی سنی سنائی کہانی کا حوالہ دے کر بتاتے ہیں جسے سن کر بچہ بھی کہتا کہ بس یوں ہی آپ اڑا رہے ہیں، لہذا مولانا کی تقریر کی بابت یہ اعتراض تو بالکل فضول ہے کہ وہ گفتگو کی رو میں بہہ کر "وحدت ادیان" تک چلے گئے ، وحدت ادیان کی مفصل بحث علامہ سلیمان ندوی نے سیرت میں کی ہے، اسے دیکھیے اور مولانا کی تقریر سنئے کہیں انگلی نہیں رکھ سکتے۔


مولانا نے اوم اور منو جیسے الفاظ کافروں سے مستعار بھی لیے ہیں تو بس تفہیم مدعا تک کے لئے، اسے اپنے عقیدے کا حصہ بنا کر پیش نہیں کیا ہے، پھر یہ کہ منو کہنے کے بعد بار بار ان کا یہ سوال چھیڑنا کہ منو کس کی عبادت کرتے تھے؟ اعتراض کو بے معنی کر دیتا ہے۔


ان کی تقریر کلی طور پر دیکھیں گے تو تقریر کا وہ جز بھی بہت اہم ہے جس میں غیروں کو بھٹکا ہوا بتایا گیا ہے اور بار بار بتایا گیا ہے، کیا اس کے بعد انہیں گاندھی وادی ، اور ابوالکلام کے وحدت الادیانی تصور کا حامی کہہ سکتے ہیں ؟


کوئی شخص اگر قُلْ يَٰٓأَهْلَ ٱلْكِتَٰبِ تَعَالَوْاْ إِلَىٰ كَلِمَةٍۢ سَوَآءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا ٱللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِۦ شَيْـًٔا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ ٱللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَقُولُواْ ٱشْهَدُواْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ. کو وحدتِ ادیان کی دعوت سمجھ بیٹھے تو یہ اس کی نادانی اور کم فہمی ہے. 


حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب نے اس کے سوا اور کیا کیا کہ جسے ہم آدم کہتے ہیں اسے ان کے نزدیک منو بتایا اور حضرت آدم علیہ السلام جس کی عبادت کرتے تھے یعنی اللہ کی اسے ان کے نزدیک اوم قرار دے کر ایک قدرِ مشترک بنیاد کو ظاہر کرکے توحید کی طرف دعوت دی اور اس کا پیغام دیا. 


غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اگرچہ اہلِ کتاب یعنی یہود ونصاری توحید سے منحرف ہوگئے تھے اور اس پر قائم نہ تھے کیونکہ یہود حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے اور نصاری تثلیث کے قائل تھے مگر اس کے باوجود اللہ تعالی نے آیتِ کریمہ میں توحید کو قدرِ مشترک قرار دے کر ان کو دعوت دی. ایسا اس لئے کیا گیا کہ توحید کو بطور قدرِ مشترک ان کو یاد دلایا گیا کہ توحید ان کے دین کی اساس ہے اور ہونی چاہیے. مولانا نے بھی منو بمعنی آدم اور اوم بمعنی اللہ کے ذریعے مساوات ظاہر کرکے، اسے قدرِ مشترک قرار دے کر انہیں توحید کی دعوت دی یا کم از کم یہ بتایا کہ مسلمان اپنے قدیم ترین اور صحیح عقیدہِ توحید پر قائم ہیں لہذا ان کا پروج کسی اور کو نہ قرار دیا جائے اور انہیں کسی اور دھرم کی طرف دعوت نہ دی جائے.


اس بات کو وحدتِ ادیان سمجھ بیٹھنا بہت بڑی غلط فہمی اور بے بنیاد بات ہے!


مولانا وکیل مظاہری

Post a Comment

0 Comments