اسلام اور کفر کی تعریف اور دونوں میں فرق

اسلام اور كفر

  

تحریر:حضرت مولانامحمد معاویہ سعدی صاحب دامت بركاتہم استاذجامعہ مظاہر علوم سہارنپور  

(۱)اسلام کی تعریف اور حقیقت:

 ’’اِسلام‘‘ کے معنیٰ ہیں: اِطاعت قبول کرنا، شریعت میں جب یہ لفظ بولا جاتا ہے تو مطلب ہوتا ہے: اپنی زبان اور ظاہری عمل میں اِس دنیا کے خالق ومالک اور حاکمِ اعلیٰ اللہ رب العزۃ کی فرمانبرداری کرنا اورپوری طرح سے اُس کی اِطاعت قبول کرنا،اوراِسی کے قریب ایک لفظ ہے’’اِیمان‘‘، جس کامطلب ہوتا ہے: زبان وعمل سے اِقرار کرنے کے ساتھ ساتھ، دِل کی گہرائیوں سے بھی ماننا، لہٰذا ہر وہ شخص جو ظاہراً اللہ کی وحدانیت ، اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اِقرار کرتا ہو، وہ شخص شریعت کی نظر میں ’’مسلمان‘‘ہے، اور یہی فکر وعقیدہ جب دِل کے اندر تک اتر جائے، اور اُس پر پوری طرح سے قلبی اِطمینان، اِعتماد اور شرحِ صدرحاصل ہوجائے تو ایسا شخص ’’مؤمن‘‘ کہلاتا ہے۔ 

 پھر یہ دونوں الفاظ اکثر ایک دوسرے کی جگہ بھی استعمال ہوجاتے ہیں، اِس لیے لغۃً اور اصطلاحاً دونوں میں فرق ہونے کے باوجود عرفاً ایک دوسرے کے مترادف ہی سمجھے جاتے ہیں،لہٰذا ہر وہ شخص جس کو مسلمان سمجھا جاتا ہے؛ اُس کو مؤمن بھی کہا جاسکتا ہے۔


اسلام کا مرتبہ اور اہمیت:

 یہ قرآنِ کریم کا فیصلہ ہے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں سندِ اعتبار اور مرتبۂ قبول پانے والا دنیا کا واحد مذہب اِسلام ہی ہے، حق تعالیٰ کا اِرشاد ہے (المائدۃ: ۳): {ورَضیتُ لکم الإسلام دِیناً} (میں نے تمہارے لیے مذہب کے طور پراِسلام کوپسند کیا ہے)،اُسی کا فرمان ہے(آل عمران: ۱۹): إن الدین عند اللہ الإسلام (اللہ کے نزدیک معتبر دِین تو بس اِسلام ہے)، اُسی کا فیصلہ ہے (آل عمران: ۸۵): ومن یبتغ غیر الإسلام دیناً فلن یقبل منہ (جو اِسلام کے علاوہ کوئی دِین اِختیار کرے گا تو اُس سے وہ قبول نہیں کیا جائے گا)۔ لہٰذا اِسلام قبول کیے اور اُس کی حفاظت کا اِہتمام کیے بغیر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبولیت اور آخرت کی نجات کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔

 پھر جیسا کہ معلوم ہوا کہ ’’اِسلام‘‘ کا تعلق انسان کے ظاہری اَعمال واَخلاق اور سمع وطاعت سے ہے، جب کہ ’’اِیمان‘‘ کا تعلق اُس کے باطنی احوال وکیفیات اور فکر وعقیدہ سے ہے، اور یہی دونوں چیزیں تمام ظاہری وباطنی نیکیوں اوراَخلاقِ حسنہ کا سرچشمہ ہیں، کوئی بھی نیکی اِیمان واِسلام کے بغیر شریعت کی نظر میں ’’نیکی‘‘ نہیں سمجھی جاتی، کوئی بھی اچھائی اِس دولت کے بغیر ’’اچھائی‘‘ تسلیم نہیں کی جاتی، آقاکے دربار میں بندوں کا وہی عمل معتبر ہوتا ہے جو ایمان واسلام کی بنیادوں پر کیا گیا ہو،جس خالق ومالک نے ہم کو پیدا کیا ہے اُس نے اپنی اِطاعت وفرمانبرداری کا بنیادی معیار اور اوّلین علامت ’’اِیمان واِسلام‘‘ ہی کو قرار دیا ہے۔

 لہٰذا جس طرح دنیوی حکومتیں اپنے باغیوں کی خوبیوں کو بھی لائقِ اِعتنا نہیں سمجھتیں، بلکہ اُن کی تعریف کرنے والوں کو بھی مجرم مانتی ہیں،اِسی طرح اللہ کے یہاں بھی اُس کی وحدانیت وحاکمیت تسلیم کیے (اور اُس پراِیمان لائے) بغیر کوئی عمل مقبول وقابلِ توجہ نہیں ہوتا، اِرشادِ ربانی ہے (الکہف: ۱۰۳-۱۰۶): قل ھل ننبئکم بالأخسرین أعمالاً، الذین ضل سعیھم في الحیاۃ الدنیا وھم یحسبون أنھم یحسنون صنعاً، أولئک الذین کفروا بآیات ربھم ولقائہ فحبطت أعمالھم فلا نقیم لھم یوم القیامۃ وزناً، ذلک جزاؤہم جھنم بما کفروا واتخذوا آیاتي ورسلي ھزواً (آپ فرمادیجیے کہ کیا ہم تمہیں بتائیں کہ وہ کون لوگ ہیں جو اَعمال میں سب سے زیادہ ناکام ہیں، یہ وہ لوگ ہیں کہ دنیوی زندگی میں اُن کی ساری دوڑ دھوپ سیدھے راستہ سے بھٹکی رہی، اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں ( اورقرآن ودیگر آسمانی کتابوں) کااور آخرت (وقیامت وغیرہ)کا اِنکار کیا، اِس لیے اُن کے سارے اَعمال غارت ہو گئے، لہٰذا ہم بھی اُن کے اَعمال کا کوئی وزن اور قیمت نہیں شمارکریں گے، اور اُن کی سزا دوزخ ہوگی، کیوں کہ اُنہوں نے کفر کی رَوِش اِختیار کی تھی، اور میری آیتوں اور میرے پیغمبروں کا مذاق اُڑایا تھا)۔

 اِس آیت میں یہ واضح کردیا گیا کہ آخرت کی کامیابی کا سارا دارومدار اِیمان اور اسلام ہی پر ہے، اُس کے بغیر وہاں کی نجات یا درجات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

اس لیے جن اَفراد اور قوموں کو اِیمان واِسلام کی عظیم دولت ملی ہوئی ہے اُن کو اِس قیمتی نعمت کا پورا اِحساس اور اِس زبردست اِنعام کی پوری قدر ہونی چاہیے، اللہ تعالیٰ ہی نے شکر کے اَلفاظ بھی سکھادیئے ہیں(الأعراف: ۴۳): الحمد للہ الذي ھدانا لھذا،وما کنا لنھتدي لولا أن ھدانا اللہ (تمام تعریف اُس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں اِس دین کی ہدایت دی، اور اگر اللہ ہی نے ہمیں یہ ہدایت نہ دے دی ہوتی تو ہم از خود راہ یاب نہیں ہوسکتے تھے)۔

 اور الحمد للہ رب العالمین، الرحمن الرحیم، مالک یوم الدین (تمام تعریف اُس اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنہار ہے، جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، جو (اُس)قیامت کے دن کا مالک ہے (کہ جس دن اور سب کی عارضی اور مجازی حکومت وملکیت بھی ختم ہوجائی گی)۔

جس قوم کو اِیمان واِسلام کا عقیدہ ملاہوا ہے وہ آخرت میں تو اِن شاء اللہ کامیاب ہے ہی، دنیا میں بھی اُسے اپنے آپ کو نمبر ایک کا شہری سمجھنا چاہیے، کیوں کہ اِس دنیا کے مالک نے اُنہیں {أولئک ھم خیر البریۃ} (یہ لوگ مخلوق کے سب سے بہتر لوگ ہیں) کا تمغہ (سرٹیفکٹ) دے رکھا ہے، لہٰذا وہ اللہ کی بنائی ہوئی زمین پر جائز طور پر رہ رہے ہیں، وہ اللہ کے باغی اور دشمن نہیں ہیں، جس ذات پاک نے اُنہیں پیدا کیا ہے وہ اُسی کا کلمہ پڑھتے ہیں، اُسی کا دیا ہوا کھاتے ہیں، اُنہیں نعمتِ اِیمان کو جان ومال اور عزت وآبرو سے زیادہ عزیز رکھنا چاہیے، اِس نعمت سے محرومی کو ہی حقیقی خسر ان ونقصان سمجھنا چاہیے۔

(۲)کفر کی تعریف اور حقیقت:

’’اِسلام ‘‘ کی حقیقت واہمیت سے متعلق اِن معروضات کے بعد اُس کی ضد ’’کفر‘‘ کی بھی تعریف وحقیقت، شریعت کی نظر میں اُس کی حیثیت اور اُس کی مختلف صورتوں کا بیان کردینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے(فبضدھا تتمیز الأشیاء)۔

’’کفر‘‘کا لفظ عربی زبان میں کبھی عام ناقدری اور ’’کفرانِ نعمت‘‘ (ناشکری)کے لیے بھی اِستعمال ہوتا ہے، مگر جس ’’کفر‘‘ پر شریعت میں سخت وعیدیں آئی ہیں، جس ’’کفر‘‘ کو اِسلام میں اللہ سے بغاوت مان کر، ناقابلِ معافی جرم قرار دیاگیا ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا صاف اِعلان ہے (الزمر: ۷):لا یرضی لعبادہ الکفر (اللہ اپنے بندوں کے کفر سے راضی نہیں ہوتا)، اور جس کا اِرتکاب کرنے والوں کے بارے میں اُس کا فرمان ہے (البینۃ: ۶): إن الذین کفروا من أھل الکتاب والمشرکین في نار جھنم خالدین فیھا، أولئک ھم شر البریۃ (اہلِ کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ ’’کفر‘‘پر جمے رہے وہ یقیناً دوزخ کی آگ میں جائیں گے اور ہمیشہ ہمیش اُسی میں رہیں گے، اور یہی مخلوق کے بدترین لوگ ہیں)۔

 اِس ’’کفر‘‘ کا حاصل ہے: اپنے خالق ومالک سے کھلم کھلا بغاوت، اُس کی نعمتوں کی ناشکری، اُس کے وجود کا، یا اُس کی کسی صفت کا، یا اُس کی کسی خبر کا، یا اُس کے کسی حکم کا صراحتاً یا اپنے طرزِ عمل (اِستخفاف واِستہزاء کے ذریعہ ) اِنکار کرنا۔

لہٰذا ’’اسلام‘‘کی بنیاد: اگر اللہ کی اِطاعت وفرمانبرداری اور اُ س کی نعمتوں کی شکرگذاری پر ہے، تو ’’کفر‘‘ کی بنیاد: اپنے خالق ومالک کی نافرمانی اور اپنے رب ومحسن کی ناشکری پر ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں ہی دو متضاد طرزِعمل اور ایک دوسرے کے مخالف راستے ہیں: (التغابن: ۲)ھو الذي خلقکم فمنکم کافر ومنکم مؤمن (وہ وہی ذات ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر تم میں سے کچھ کافر ہوگئے، اور کچھ مومن)۔ 

شریعت کی نظر میں کفر کی حیثیت:

اسی وجہ سے یہ مسئلہ تخلیقِ آدم ہی کے وقت سے اِختلاف کا سب سے بڑا اور سب سے حَسَّاس موضوع رہا ہے، اِبلیس کی شیطانی صفت اِسی مضمون کے پرچہ میں ناکامی سے ظاہر ہوئی، اِسی مسئلہ سے دُنیا میں گروہی اور جماعتی اِختلافات کے فاصلے قائم ہوئے، ہر دور میں حق وباطل کی معرکہ آرائی کی سب سے بڑی بنیاد یہی مسئلہ بنا، حضرتِ آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک آنے والے سارے انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو مخالفتوں اور مشکلات کا سامنا اِسی ’’کفرواِسلام‘‘کے اِختلاف ہی کی وجہ سے کرنا پڑا، قومِ نوح، اورعاد وثمود سے لے کر، نمرود وفرعون، اور ابوجہل وابولہب تک جتنے مجرمین، اِسلامی تاریخ کے رجسٹر میں محفوظ کیے گئے ہیں یہ سب کفر کے مرتکب، اِسلام کے مخالف اور مسلمانوں کے دشمن ہی کی حیثیت سے یاد کیے جاتے ہیں۔

اہلِ اسلام کے لیے یہ مسئلہ اتنا اہم اور نازک رہا ہے کہ انہوں نے ہر طرح کے مشکل حالات ومصائب برداشت کرکے، اِس اِختلاف کو پوری طرح سے زندہ رکھا ہے، اور جان ومال، جاہ ومنصب اور عزت وآبرو؛ ہر چیز کی قربانی دے کر اپنی اور اپنی نسلوں کی ’’کفر‘‘ سے حفاظت کی فکر کی ہے۔

سیدنا حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کو اِسی وصف میں خصوصی امتیاز کی وجہ سے ’’حنیف‘‘ کے لقب سے ملقَّب فرمایا گیا، قرآنِ کریم میں آپ کا ’’براء ت من الکفر‘‘ کا عمل بطور نمونہ ذکر کیا گیا (الممتحنۃ: ۴): قد کانت لکم أسوۃ حسنۃ في إبراھیم والذین معہ، إذ قالوا لقومہم إنا برآء منکم ومما تعبدون من دون اللہ، کفرنا بکم، وبدا بیننا وبینکم العداوۃ والبغضاء أبداً حتی تؤمنوا باللہ وحدہ  (اے مسلمانو! تمہارے لیے ابراہیم اور ان پر ایمان لانے والوں میں بہترین اسوہ ہے، خاص طور پر ان کا یہ قول جو انہوں نے قوم کے اِیمان نہ لانے والے لوگوں سے کہا تھا کہ ہم تم سے اور تمہارے باطل معبودوں سے بری ہیں، ہم تمہارے (عقائد کی وجہ سے تم سے) بیزار ہیں، ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ بغض وعداوت ظاہر رہے گی جب تک کہ تم اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان نہیں لاتے)۔ 

مجدد الفِ ثانیؒ نے کسی موقع پر فرما یا ہے کہ اَصحابِ کہف کا اس کے علاوہ کوئی عمل نہیں ملتا کہ انہوں نے اللہ کی عبودیت کا اقرار اور غیراللہ سے براء ت کا اظہار کیا تھا۔

مکہ مکرمہ میں صحابۂ کرامؓ کو جن مشکل ترین آزمائشی حالات کا سامنا کرنا پڑا اُس کا سبب بھی کفر اور اہلِ کفر سے بیزاری ہی تھی۔ 

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ’’کفر‘‘ و’’شرک‘‘ سے اِظہارِ بیزاری اِسلام کا تکملہ ہے، اس کے بغیر اِسلام معتبر ہی نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ اِسلام کے کلمہ کی بنیاد ’’إلا اللہ‘‘ (حق تعالیٰ)کے اِثبات سے پہلے ’’لا إلہ‘‘ (معبودانِ باطلہ)کی نفی پررکھی گئی ہے، اللہ کے تعلق (عُروۂ وثقی) کا مدار ’’اِیمان باللہ‘‘ کے ساتھ ساتھ، ’’کفر بالطاغوت‘‘ (اِسلام مخالف طاقتوں اور نظریات کے اِنکار) پر رکھا گیا ہے: (البقرۃ: ۲۵۶) {فمن یکفر بالطاغوت ویؤمن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقیٰ}۔

سورۂ اِخلاص میں ’’ھواللہ أحد‘‘ (خدا تو بس ایک ہی ہے) کی پکار کے ساتھ، سورۂ کافرون میں لا أعبد ما تعبدون (ہم نہیں پوج سکتے اُن چیزوں کو جنہیں تم پوجتے ہو) کا اِعلان بھی کروایا گیا ہے، تمام انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی دعوتِ توحید میں وما أنا من المشرکین (میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں)، اور إني بريء مما تشرکون (میں لا تعلق ہوں تمہارے شرکیہ اعمال وعقائد سے) کی براء ت بھی بطور خاص رکھی گئی ہے۔ 

اِن تفصیلات سے ’’کفر ‘‘ (اور اُس کے شعائر ومظاہر)کے بارے میں اِسلام کی حد درجہ حساسیت کا اندازہ ہوتا ہے، اِس کے برخلاف ہماری شامتِ اعمال سے دَجل وتلبیس کے اِس دور میں یہ اہم ترین مسئلہ بھی اِفراط وتفریط اور بے اِعتدالیوں کا شکار ہوتا جارہا ہے، ایک طرف تو بہت سے حلقوں کی طرف سے ’’کفر ‘‘ جیسے گھناؤنے جرم کی بھی اَہمیت کم کرنے، بلکہ ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ’’کفر واِسلام‘‘ کے درمیان موجود فطری اور منطقی فاصلہ کو کم کرنے کی سعی کی جارہی ہے، اِس خطرناک جرم کا اِرتکاب کرنے والوں کو ’’مجرم‘‘ نہ سمجھے جانے کی تحریک چلائی جارہی ہے۔

اور اِس کے برخلاف دوسری طرف کچھ جذباتی لوگ ہر ’’کافر‘‘ کو گردن زدنی کا مستحق قرار دیتے ہوئے، اِس مسئلہ میں اِسلامی تعلیمات سے تجاوز کررہے ہیں، حالاں کہ یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں: ایک تویہ ہے کہ ہم کسی غلطی کو غلطی سمجھ کر خود کو دور رکھیں، دوسرا مسئلہ ہے اس غلطی کی سزا کا، تو اس کے لیے جب تک شرعی اور قانونی اِختیارات نہ ہوں کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔

Post a Comment

0 Comments