مدارس اسلامیہ نے ہمیں کیا دیا ؟ مدارس اسلامیہ کی اہمیت ، افادیت اور ضرورت

 مدارسِ اسلامیہ نے ہمیں کیا دیا؟



رشحاتِ قلم۔ محمد علقمہ صفدر ہزاری باغوی 
متعلم۔ دار العلوم دیوبند

آج دنیا کا گوشہ گوشہ مدارس دینیہ کے برکات و ثمرات سے معمور شاداب ہے، خصوصاً برِّ صغیر ایشیا کا تو پوچھنا ہی نہیں، بلکہ اگر یوں کہا جاے تو اس میں کوئی غلو و مبالغہ کا شائبہ نا ہونا چاہیے کہ پچھلی صدی سے لیکر تا حال قیامِ مدارس کے حوالے سے جو کارہائے نمایاں ہندوستانی علما و فضلا نے پیش کیے ہیں دیگر ممالک میں اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں پایا جاتا، خود ملکِ ہندوستان کے طول و عرض میں ہزاروں کی تعداد میں مدارس و مکاتب کا جال پھیلے ہوئے ہیں،جو شب و روز اپنے مشن میں کاربند ہیں، ہر لمحہ قال اللہ و قال الرسول کے صدائیں بلند کرنے میں مگن ہیں۔

           یوں تو ان مدارس کا بنیادی اور اساسی مقصد مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات اور اخلاقی اقدار و اطوار سے وابستگی کے لیے جد و جہد کرنا ہے، جو کافی حد تک مدارس اپنے مشن میں کامیاب ہیں، اور ان کی خدمات کا دائرہ نہایت وسیع و عریض بلکہ زندگی کے ہر شعبوں پر محیط ہے، اور حیات انسانی کے متعدد میدان میں ان کے مساعی جمیلہ کے نقوش ثبت ہیں، ان کے کارگردگی کی ایک طویل فہرست ہے۔

                   یہ دینی مدارس یقیناً ایک عطیۂ خداوندی اور نعمت غیر مترقبہ ہے، یہ مدارس ہی کا فیض ہے کہ آج ہم کلمہ گو ہیں،اپنے آپ کو مسلمان سے تعبیر کرتے ہیں، ہم اپنے خالق و مالک اور اپنے محسن اعظم سرکارِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہایت ہی اعتماد و اعتبار، غیر معمولی عقیدت و نیاز مندی، الفت و محبت کے ساتھ لیتے ہیں، اور ہم ان کے نام کا دم بھرتے ہیں، یہ مدارس دین کے جزیرے اور اسلام کے محفوظ قلعے ہیں، جہاں سے ہمیں امن و وفا، عقیدت و الفت، مروّت و ہمدردی، احترام انسانیت، غیرت و حمیت کے نغمے اور زمزمے سنائی دیتے ہیں،

             یوں تو یہ دینی مدارس اسلامی معاشرے کو درپیش جن ضرورتوں کو پورا کر رہا ہے اور جن مسائل کو حل کر رہا ہے، ان تمام کو احاطے اور قیدِ تحریر میں لانے کے لئے دفتر بھی کم پڑ جایگی، مگر احاطے سے قطعِ نظر ایک اجمالی فہرست پر طائرا‌نہ نگاہ یوں ڈالی جا سکتی ہے کہ،

                  قرآن و حدیث اور اسلامی علوم و فنون سے مسلم معاشرے کا ربط و تعلق اور وابستگی کو قائم رکھنے کا واحد ذریعہ یہی دینی مدارس ہے 

٭۔ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں جو کچھ بھی دین و ایمان کی رمق اور جھلک باقی ہے یہ اسی چشمۂ فیضان سے سیراب ہوئے ہیں۔

٭۔ مساجد کے لیے مناسب علمی صلاحیت کے حامل ائمہ و خطبا اور اسلامی تعلیمات کے لیے معلمین و مدرسین کی صلاحیت سازی اور رجال کی تعمیر کا فریضہ یہی دینی مدارس انجام دے رہے ہیں۔

٭۔ زندگی کے مختلف میدان میں در پیش مسائل کا اسلامی فقہ کی روشنی میں حل کرنے کے لئے دار الافتا اور دار القضا کا قیام، نیز ان دار الافتاوں میں خدمات انجام دینے والے بصیرت مند علما اور ماہر مفتیانِ کرام کو مہیا کرنے کی ذمےداری بھی مدارس ہی انجام دے رہے ہیں۔

٭۔ اصلاح معاشرہ کے حوالے سے ہر میدان میں مختلف انداز سے ہونے والے کوششوں کا منبع یہی دینی مدارس اور اہل مدارس ہیں، چنانچہ تصنیف و تالیف کا میدان ہو یا دعوت و تبلیغ کا، وعظ و خطابت کی رزم گاہ ہو یا خانقاہ کا صوفیانہ نظام،آپ اگر گرد و پیش پر نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان تمام اصلاحی کاوشوں کی سوتیں ان مدارس سے ہی پھوٹ رہی ہیں، 

٭دشمنانِ اسلام کی فکری،نظریاتی اور اعتقادی یلغاروں کا مقابلہ بھی یہ اہلِ مدارس اور فضلاءِ مدارس ہی انجام دے رہے ہیں،

٭۔ جمعیت علمائے ہند، امارتِ شرعیہ،مسلم پرسنل لا بورڈ اور آل انڈیا ملی کونسل اور اس جیسی درجنوں ملی اور رفاہی تنظیمیں علما حضرات ہی کی مساعیِ جمیلہ کے شاندار نمونے ہیں، جو مختلف واقعات و حادثات میں ملت کے لیے مصروف خدمات نظر آتے ہیں،

                    الغرض اتنا سمجھ لیں کہ یہ دینی مدارس عصرِ حاضر میں اسلامی معاشرے کی تشکیل اور اس کی بقاء و تحفظ کا ضامن ہے، عصرِ حاضر میں مرکزِ علوم و فنون، یہ مدارس کے بوسیدہ عمارات ہیں، خدا نا خواستہ اگر یہ مدارس نا ہوتے، اور قیامِ مدارس کی تحریک جو دار العلوم دیوبند کے قیام سے تا حال تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے، اگر اس کا خواب و خیال علماء دیوبند رحمہم اللہ علیہم کے حاشیۂ خیال میں نا آتا، تو آج حالات کچھ اور ہی منظر پیش کرتا، یہ اذانوں کی صدائیں جو مسجد کے میناروں سے ہر روز پانچ دفعہ گونجتی ہے، سننے کے لئے کان ترس جاتے،

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ ″ 

ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہیں مدارس میں پڑھنے دو، اگر یہ ملّا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہوگا میں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں، اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہو گئے تو بالکل اسی طرح ہوگا جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلّی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملےگا ″ علماءِ کرام کے احسان کے متعلق جناب قدرت اللہ شہاب تحریر فرماتے ہیں کہ ″ لو سے جھلسی ہوئی گرمی دو پہروں خس کی ٹٹیاں لگا کر پنکھوں کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گیے کہ محلّے کی مسجد میں ظہر کی آذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اُٹھ کر فجر کی آذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے ؟ دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد، دور ہو یا نذدیک، ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی، قریہ قریہ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملّا کے دم سے آباد تھیں ″

               خلاصۂ کلام یہ ہے کہ، یہ مدارس اور اہل مدارس اپنے زمانۂ قیام سے لے کر تا حال مسلمانوں کی بہتری کے لیے گراں قدر خدمات انجام دئے ہیں، جن سے احسان شناس اور منصف مزاج کا حامل شخص کبھی بھی چشم پوشی نہیں کر سکتا، اور مدارس اور اہل مدارس کے ان خدمات جلیلہ کو سراہے بغیر نہیں رہ سکتا، اور وہ یقیناً اس بات کا اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکتا ہے کہ یہ مدارس مسلمانوں کے لیے حرزِ جاں بنانے اور اس کے معاشرے کے لیے ایک ناگزیر ضرورت ہے

رشحاتِ قلم۔ محمد علقمہ صفدر ہزاری باغوی

متعلم۔ دار العلوم دیوبند


تاریخ۔ 1/6/2023

Post a Comment

0 Comments