اہلِ حدیث یا دشمنِ حدیث
از۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد نصیرالدین گریڈیہوی
جیساکہ آپ کو معلوم ہے کہ استادمحترم مناظراسلام حضرت علامہ ومولانا سید طاھرحسین صاحب گیاویؒ کے انتقال کے بعد سے اہل الحاد وبدعت خوشی سے جھوم رہے ہیں۔(حالانکہ ان کی یہ خوشی عنقریب غم سے بدل جاۓگی ان شاءاللہ۔
اپنے مخالف کی موت سے خوشی تو منائی جاسکتی ہے مگر اسے گندی گندی گالیاں دینا کسی بھی اعتار سے درست نہیں ہے۔
گالی کسی کی بھی زبان سے نکلے وہ غلط اور بری بات ہے مگر اہل الحاد یعنی نام نہاد اہل حدیث کی زبان سے اگر گالی نکلے تو وہ زیادہ باعث تعجب وافسوس ہے اس لیے کہ وہ عامل بالحدیث کے دعویدار ہیں اور مندرجہ ذیل احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ مُردوں کو گالی دینا، لعن طعن اور برا بھلا کہنا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ ملاحظہ فرمائيں:
حدیث نمبر١:
عن عائشةؓ قالت: قال النبي صلی الله علیه وسلم: لاتسبوا الأموات، فانه قد أفضوا إلی ما قدموا۔ (بخاری رقم ١٣٩٣۔)
یعنی مُردوں کو گالیاں مت دو اس لیے کہ وہ اپنے اعمال کے ساتھ بارگاہِ ایزدی میں پہنچ چکے ہیں۔
حدیث نمبر٢:
عن المغیرة بن شعبةؓ قال: نهی رسول الله صلی الله علیه وسلم عن سب الأموات۔ (مسنداحمد رقم١٨٢٠٨)
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مُردوں کو گالی دینے سے منع فرمایا ہے۔
*حدیث نمبر٣*: عن عاٸشةؓ قالت: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم إذا مات صاحبكم فدعوه ولا تقعوا فیه۔ (ابوداود رقم٤٨٩٩)
یعنی مُردوں پر لعن طعن مت کرو۔
حدیث نمبر٤:
عن ابن عمرؓ قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم اذکروا محاسن موتاكم وکفوا عن مساویهم۔ (رواہ ابوداود والترمذی۔مشکوة رقم١٦٧٨)
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مُردوں کی خوبیاں بیان کرو ان کی برائياں بیان کرنے سے اپنے آپ کو باز رکھو۔
حدیث نمبر٥:
عن المغیرة بن شعبةؓ قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم لا تسبوا الأموات فتٶذوا الأحیاء۔ (مسنداحمدرقم١٨٢٠٩)
یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مُردوں کو برا بھلا مت کہو اس لیے کہ اس سے زندوں کو تکلیف ہوگی۔
حدیث نمبر٦:
عن عاٸشةؓ قالت: لا تذکروا موتاکم الا بخیر۔ (مساوئ الأخلاق رقم ٩٠)
یعنی مُردوں کا ذکر برائی کے ساتھ بالکل مت کرو۔
*حدیث نمبر٧*: عن عبدالله بن الزبیر قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔إن سب المیت یٶذي الحي ولا یبلغ المیت۔(مستدرک حاکم رقم٥٠٥٥)
یعنی مُردوں کو گالی دینے سے انہیں کچھ فرق نہیں پڑےگا بلکہ اس سے زندوں کو تکلیف ہوگی۔
حدیث نمبر٨:
عن ابان بن عثمان وغیره قال لما توجه النبي صلی الله علیه وسلم إلی الطائف رأی علی العقبة قبرا فقال: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدیث لمبی ہے اس لیے اس کا صرف حاصل لکھا جاتا ہے:
یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کے ساتھ طائف کی طرف نکلے، گھاٹی میں ایک قبر دیکھ کر پوچھا۔ ابوبکر یہ کس کی قبر ہے؟ تو آپؓ نے فرمایا کہ یہ ہمارے ساتھ موجود ابان بن سعید کے والد ابو احیحہ سعید بن العاص کی قبر ہے۔ اور یہ شخص آیات قرآنیہ کی تکذیب دل کھول کر کرتا اور آپ کی تردید شدت کے ساتھ کرتا تھا ۔ اللہ اسے اپنی رحمت سے دور کرے۔ یہ سن کر ابان بن سعید کہنے لگے اور آپ کے والد ابوقحافہ ؟ وہ تو نہ ظلم کو روکتا تھا اور نہ مہمان نوازی کرتا تھا اللہ اسے بھی اپنی رحمت سے دور کرے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ مُردوں کو برا بھلا کہہ کر زندوں کو تکلیف مت پہنچاؤ۔(اخبارمکة للفاکہی ج٣ص١٢٣ رقم١٩١٥)
حدیث نمبر٩:
عن مسروق ان علیا بعث یزید بن قیس الأرحبي في أيام الجمل برسالة۔۔۔۔۔۔۔ اس کا حاصل لکھا جاتا ہے:
یعنی جنگ جمل کے زمانے میں حضرت علیؓ نے ایک خط یزید بن قیس کے ہاتھوں حضرت عائشہؓ کی خدمت میں بھیجا تو انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔۔۔۔۔ اور حضرت عائشہؓ زندگی میں اپنے فریق مخالف کو برا بھلا کہتی تھیں لیکن بعد موت کے اس سے رک گئیں اور فرمایا: إن رسول الله صلی الله علیه وسلم نهانا عن سب الأموات۔ (فتح الباری ج٣ص٢٥٩ باب ماینھی من سب الاموات)
حدیث نمبر١٠:
إن المغیرة بن شعبة سب علي بن أبي طالب فقام إلیه زید بن أرقم، فقال: یا مغیرة، ألم تعلم أن رسول الله صلی الله علیه وسلم نهی عن سب الأموات، فلم تسب علیا وقد مات؟ (مستدرک حاکم ج١ص٥٤١ رقم١٤١٩)
یعنی حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے حضرت علیؓ بن ابی طالب کو برا بھلا کہا تو زید بن ارقمؓ نے فرمایا کہ مغیرہ۔ آپ کو معلوم نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مُردوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ حضرت علیؓ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں حالانکہ وہ فوت ہوچکے ہیں ۔
حدیث نمبر١١:
حضرت عکرمہؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میرے والد ابوجھل کو لوگ گالیاں دیتے ہیں اس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ :
مابال أقوام یؤذون الأحیاء بشتم الأموات، ألا لا تؤذوا الأحیاء بشتم الأموات۔ (شرف المصطفی ج٤ص٥٢٤رقم٢٦٦)
یعنی پتا نہیں لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ مُردوں کو برا بھلا کہہ کر زندوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ خبردار تم ایسا مت کرنا۔
حدیث نمبر١٢:
جاء في روایة أنه قیل لرسول الله صلی الله علیه وسلم إن عمک أبا طالب کان یحوطک وینصرک فهل ینفعه ذلک؟ فقال: نعم وجدته في غمرات النار فأخرجته إلی ضحضاح من نار۔ وسبه عندي مذموم جدا لا سیما إذا کان فیه إیذاء بعض العلویین۔ (روح المعانی ج٦ص٣٣ سورہ توبہ کی تفسیر)
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ کے چچا ابوطالب نے آپ کی بہت مدد ونصرت کی تھی تو کیا اس سے ان کو کچھ فائدہ ہوا؟ آپ نے فرمایا ہاں! ہوا ۔ مگر ان کے بارے میں اس طرح کی بات کرنا یا ان کو برا بھلا کہنا میرے نزدیک سخت مذموم ہے خصوصاً جبکہ اس سے ان کے پسماندگان کو تکلیف ہو۔
حدیث نمبر١٣:
عن محمد بن علیؓ قال: نهی رسول الله صلی الله علیه وسلم أن یسب قتلی بدر من المشرکین، وقال لا تسبوا هٶلاء، فإنه لا یخلص إلیهم شٸ مما تقولون وتٶذوا الأحیاء۔ (الصمت لابن أبی الدنیا ج١ص١٨٣ رقم٣٢٠)
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر میں مقتول مشرکین کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا اور فرمایاکہ تم ان کو برا بھلا مت کہو اس لیے کہ تم ان تک اپنی گالی تو پہنچا نہیں سکتے ہاں! البتہ اس سے زندوں کو ضرور تکلیف ہوگی۔
کتبه : ۔ محمد نصیرالدین گریڈیہوی شاگرد مناظراسلام حضرت علامہ ومولانا سید طاھرحسین صاحب گیاوی علیہ الرحمہ والرضوان۔
0 Comments