اسلامی مہینے کی تاریخ
اسلامی کیلنڈر کا آغاز کیسے اور کب ہوا؟
محمد امتیاز پلاموی،مظاہری
جس طریقہ سے انگریزی سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں (١)جنوری(٢)فروری(٣)مارچ(٤)اپریل (٥)مئی (٦) جون (٧) جولائی (٨)اگست (٩)ستمبر (١٠) اکتوبر (١١) نومبر (١٢)دسمبر
اسی طریقے سے اسلامی تقویم کے اعتبار سے بھی سال میں بارہ مہینے ہوتے ہیں (١) محرم الحرام (٢)صفر المظفر (٣)ربیع الاول (٤)ربیع الثانی (٥)جمادی الاول (٦)جمادی الثانی (٧)رجب المرجب (٨) شعبان المعظم (٩) رمضان المبارک (١٠)شوال المکرم (١١) ذوالقعدہ (١٢)ذوالحجہ ۔
اور ان مہینوں کی گنتی اور تعداد کی تعیین روز اول سے ہے، یعنی جس دن اللہ تعالی نے آسمان و زمین کو پیدا کیا اسی دن یہ مہینے بھی متعین کر دیے گئے ،جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ان عدةالشهور عند الله اثنا عشر شهرا في كتاب الله يوم خلق السماوات والارض ،منها اربعه حرم ،ذلك الدين القيم.سورۂ توبہ آیت ٣٦/
ترجمہ: مہینوں کی تعداد اللہ کے یہاں بارہ ہے جیسا کہ اللہ کی کتاب یعنی لوح محفوظ میں مذکور ہے، اور یہ بارہ مہینوں کی تعداد اسی دن متعین کر دی گئی جس دن اللہ تعالی نے آسمان و زمین کو پیدا کیا، نیز ان مہینوں میں سے چار مہینے " أشهر حرم " یعنی محترم مہینے کہلاتے ہیں،اور یہی سیدھا راستہ ہے۔
اشہر حرم کا مطلب:
اسلامی ضابطہ کے مطابق چار مہینے (١) رجب المرجب (٢)ذوالقعدہ (٣) ذوالحجہ (٤) محرم الحرام اشہر حرم کہلاتے ہیں۔ یعنی یہ چار مہینے رمضان المبارک کے بعد سب سے اہم اور قابل تعظیم ہیں،زمانۂ جاہلیت میں بھی ان چار مہینوں کی تعظیم کی جاتی تھی اور ان میں قتل و قتال کو حرام سمجھا جاتا تھا،اسی طرح اب بھی ان چار مہینوں کا احترام اور ان کی تعظیم باقی ہے؛ البتہ جمہور علماء کے نزدیک ان مہینوں میں قتل و قتال کے عدم جواز کا حکم اب منسوخ ہو چکا ہے۔ ان مہینوں میں عبادت کا خاص اہتمام ہونا چاہیے،ان مہینوں میں عبادت کرنا دیگر مہینوں کی عبادت سے افضل ہے؛اسی طرح ان مہینوں میں گناہ کرنا بھی دیگر مہینوں کی نسبت زیادہ وبال کا باعث ہے۔
ا) اسی طرح حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کی آمد سعید کے بعد عیسوی سال کا آغاز ہو چکا تھا اور اسی کے لحاظ سے ہی بہت سارے کام سرانجام دیےجاتے تھے _ ساتھ میں اسلامی مہینے بھی چلتے تھے ؛لیکن اسلامی مہینے کے نام سے کوئی تقویم نہیں تھی،اسی طرح کفار کے یہاں بھی باضابطہ کوئی تقویم یا کیلنڈر نہیں تھا،البتہ مہینوں کے اعتبار سے سے حج کیا کرتے تھے، اور چار مہینوں کو قابل احترام سمجھا کرتے تھے؛ لیکن وہ لوگ مہینوں کو آگے پیچھے کر دیا کرتے تھے،کبھی محرم کے مہینے کو صفر کے بعد تو کبھی پہلے، شمار کرلیاکرتے تھے، جس کی وجہ سے بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک مہینوں میں خلط ملط ہوتا رہا؛ لیکن جب نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ دیاتو یہ واضح فرما دیا کہ اب مہینوں کی ہیرپھیر نہیں ہوگی؛ بلکہ مہینے اب معمول کے مطابق اور اللہ تعالی کے متعین کردہ ترتیب کے مطابق چلیں گے؛جیسا کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: خطب رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجۃ الوداع بمنى في اوسط ايام التشريق، فقال يا ايها الناس ان الزمان قداستدارك كهيئته خلق الله السماوات والارض،و ان عدةالشهور عند الله اثناعشر شهرا، منها اربعه حرم، اولها رجب مضر بين جمادى و شعبان وذو القعدة وذو الحجة والمحرم.
یعنی : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر میدان منی میں یہ تقریر فرمائی کہ اے لوگو زمانہ اپنے معمول پر آ چکا ہے، جس ترتیب سے اللہ تعالی نے پیدا کیا تھا، چنانچہ اللہ کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے اور ان میں سے ٤/ چار حرمت کے مہینے ہیں، ان میں سے پہلا رجب کا مہینہ ہے جو کہ جمادی الثانی اور شعبان کے بیچ میں آتا ہے، اور ذوالقعدہ،ذوالحجہ اور محرم ہے۔
اسلامی سال بعد ظہور اسلام:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بعد بھی باضابطہ اسلامی تقویم یا اسلامی کیلنڈر کا آغاز نہیں ہوا تھا یعنی اسلامی سال کا کیا نام رکھاجائے،کس مہینے کو سال کا پہلا مہینہ قرار دیا جائے یہ متعین نہیں ہوا تھا۔
جب خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا،اور اپنے گورنروں کو خط لکھا کرتے تھے، تو اس میں تاریخ درج نہ ہونے کی وجہ سے گورنروں کو یہ نہیں معلوم ہوتا تھا کہ یہ خط کب کا ہے، جس کی وجہ سے تعمیل حکم میں کبھی دشواری ہوا کرتی تھی،لہٰذاصحابہ کرام ، بالخصوص حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ آپ کے حکم نامہ میں تاریخ درج نہ ہونے کی وجہ سے کبھی کبھی یہ سمجھنے سے قاصر ہوجاتے ہیں کہ یہ حکم نامہ کب کا ہے ؟ (کیونکہ کہ اس زمانے میں گھوڑوں کے ذریعہ خط و کتابت ہوتی تھی جس سے خط پہنچنے میں تاخیر ہو جایا کرتی تھی، اس لحاظ سے بھی حکم کی تعمیل میں دشواری ہو جاتی تھی) اس لئےآپ اپنی تحریروں میں تاریخ درج کر دیا کریں، لیکن چونکہ اس وقت تک اسلامی تقویم یا اسلامی کلینڈر کا باضابطہ اجراء نہیں ہوا تھا ،بلکہ عیسویں تاریخ کا رواج تھا،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلامی تقویم کا آغاز کرنے کا ارادہ فرمایا اور اکابرین صحابہ کو جمع کرکے مشورہ کیا ۔
پہلی بات یہ زیر بحث آئی کہ اسلامی سال کا آغازکس سال سے کیا جائے؟ صحابہ کرام کی جانب سے مختلف آراء سامنے آئیں؛ چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے تمام لوگوں کے مشوروں کو بغور سماعت فرمانے کے بعد فیصلہ فرماتے ہوئے کہا کہ اسلامی سال کا آغاز ہجرت کے سال سے کیا جائے؛ کیوں کہ ہجرت کے بعد اسلام کو تقویت ملی ہے، اس لیے اس سے اسلامی سال کا آغاز کرنا مناسب رہے گا۔
اسی طرح دوسری بات کے لیے یہ مشورہ ہوا کہ سلامی سال کا پہلا مہینہ کس مہینے کو قرار دیا جائے؟ اس بارے میں بھی مختلف مشورے سامنے آئے ؛ چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ شروع زمانہ سے ہی محرم الحرام کے مہینے سے سال کا آغاز کیا جاتا رہا ہے،نیز حاجی لوگ اسی مہینے میں اپنے گھر لوٹتے ہیں،جو کہ امن و سلامتی اور خوشی کا لمحہ ہوتا ہے؛ اس لیے اسی ترتیب کو برقرار رکھا جائے( ان کے علاوہ بھی مختلف وجوہات ہیں) اس کے بعد سے آج تک اسی ترتیب کے مطابق، اسلامی مہینے اور اسلامی کلینڈر کی ترتیب چلی آرہی ہے کہ ہجرت کے سال سے سنہ کا آغاز جبکہ محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ شمار کیا جاتا رہاہے ۔
0 Comments