حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب حیات و خدمات

 حیات و خدمات

قائد ملت ، امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم العالیہ 

Maulana Arshad Madani 


سید ارشد مدنی (پیدائش: 1941ء) ایک ہندوستانی دیوبندی عالم دین، مصنف اور استاذ حدیث ہیں۔ وہ جمعیت علمائے ہند (الف) کے قومی صدر و استاذِ حدیث، دار العلوم دیوبند کے موجودہ صدر مدرس، رابطہ عالم اسلامی، مکہ مکرمہ کے مؤقر رکن اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر ہیں۔

وہ مسلمانانِ ہند کی ایک مضبوط آواز تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کا نام 500 انتہائی بااثر مسلم شخصیات کی فہرست میں شامل ہے۔

ابتدائی و تعلیمی زندگی

ولادت و خاندان

سید ارشد مدنی 1360ھ بہ مطابق 1941ء کو سید حسین احمد مدنی کی چوتھی اہلیہ معروف بَہ آپا جان سے پیدا ہوئے۔ ان کے بڑے بھائی سید اسعد مدنی تھے، جو حسین احمد مدنی کی تیسری اہلیہ سے تھے۔

تعلیم و تربیت

سید ارشد مدنی نے تعلیم کی ابتدا حسین احمد مدنی کے معتمد و خلیفہ اصغر علی سہسپوری کے پاس کی، جن کے پاس انھوں نے 8 سال کی عمر میں حفظ قرآن کی تکمیل کی، اس کے بعد دار العلوم دیوبند ہی میں فارسی کا 5 سالہ نصاب مکمل کیا، پھر سنہ 1955ء سے دار العلوم دیوبند ہی میں عربی تعلیم کا آغاز کیا اور 1383ھ بہ مطابق 1963ء کو دار العلوم دیوبند سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی۔ ان کے شرکائے دورۂ حدیث میں سید حسین احمد عارف گیاوی بھی شامل تھے۔

انھوں نے دار العلوم دیوبند میں صحیح البخاری؛ سید فخر الدین احمد سے، جامع ترمذی جلد اول اور صحیح مسلم (از ابتدا تا کتاب الایمان)؛ محمد ابراہیم بلیاوی سے، جامع ترمذی جلد ثانی، شمائل ترمذی اور سنن ابی داؤد؛ سید فخر الحسن مراد آبادی سے، صحیح مسلم (از کتاب الطہارۃ تا ختم کتاب) اور سنن ابن ماجہ؛ نصیر احمد خان بلند شہری سے، سنن نسائی؛ ظہور احمد دیوبندی سے، شرح معانی الآثار؛ مہدی حسن شاہجہاں پوری سے، موطأ امام مالک؛ محمد طیب قاسمی سے اور موطأ امام محمد؛ عبد الاحد دیوبندی سے پڑھی۔

ان کے دیگر اساتذۂ دار العلوم دیوبند میں محمد اعزاز علی امروہوی، جلیل احمد کیرانوی، اختر حسین دیوبندی اور وحید الزماں کیرانوی شامل ہیں ںبیعت و خلافت
سید ارشد مدنی اپنے برادر اکبر سید اسعد مدنی سے بیعت تھے اور ان کے خلیفۂ اجل اور مجاز بیعت بھی ہیں۔

تدریسی زندگی

سید ارشد مدنی نے تعلیم سے فراغت کے بعد 1965ء میں جامعہ قاسمیہ، گیا سے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز کیا اور تقریباً ڈیڑھ سال تک وہاں تدریسی خدمات انجام دیں، پھر 1967ء کے آغاز میں وہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور تقریباً چودہ ماہ وہاں پر مقیم رہے۔

مدینہ منورہ سے واپسی پر اپنے استاذ سید فخر الدین احمد مراد آبادی کے ایما پر شوال 1389ھ بہ مطابق 1969ء میں وہ جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی، مراد آباد میں مدرس ہوئے اور 1403ھ بہ مطابق 1983ء تک 14 سال وہاں رہ کر تدریسی خدمات انجام دیں، وہاں پر کتب متوسطہ کے علاوہ مشکاۃ المصابیح، صحیح مسلم اور موطأ امام مالک جیسی حدیث کی کتابوں کا درس بھی ان سے متعلق رہا۔ 21 ذی قعدہ 1391ھ کو انھیں تدریس کے ساتھ مجلس تعلیمی کا کنوینر بھی بنایا گیا، پھر 11 جمادی الاولی 1393ھ کو انھیں نائب ناظم مجلس تعلیمی مقرر کیا گیا اور انھیں کی کاوشوں سے 1396ھ کو مدرسہ شاہی میں مجلس شوریٰ نے درس نظامی کی درجہ بندی منظور کی اور مدرسے کا تعلیمی معیار بلند تر ہوا۔ اسی طرح 14 شعبان 1396ھ کو وہ مدرسہ شاہی کی تقرر کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے۔

ازہرِ ہند دارالعلوم دیوبند میں

سید ارشد مدنی دار العلوم دیوبند کی نشأۃ ثانیہ کے بعد ذی قعدہ 1403ھ بہ مطابق 1983ء میں دار العلوم کی مسند تدریس پر فائز کیے گئے، 1987 سے 1990 عیسوی تک دار العلوم کے نائب ناظم مجلس تعلیمی رہے، پھر 1996 سے 2008ء تک دار العلوم کے ناظم مجلس تعلیمی رہے۔ 1403ھ بہ مطابق 1983ء سے اب تک دار العلوم دیوبند میں مشکاۃ المصابیح، صحیح مسلم اور ترمذی جیسی کتابوں کے اسباق ان سے متعلق رہے ہیں اور صحیح مسلم کو چھوڑ کر بقیہ دونوں کتابوں کے اسباق اب بھی ان سے متعلق ہیں۔

صفر المظفر 1442ھ بہ مطابق اکتوبر 2020ء سے دار العلوم دیوبند کے صدر المدرسین کے منصب پر فائز ہیں۔

 اعزازات و دیگر مناصب

مختلف ہندستانی عربی مدارس اور تنظیمیں سید ارشد مدنی کے زیر سرپرستی رواں دواں ہیں۔ وہ رابطہ عالم اسلامی، مکہ مکرمہ کے مؤقر ارکان میں سے ہیں۔ وہ سید اسعد مدنی کے بعد متحدہ جمعیت علمائے ہند کے صدر رہ چکے ہیں اور فی الحال جمعیت علمائے ہند (الف) کے صدر ہیں۔ وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے بانی ارکان میں سے ہیں اور نومبر 2021ء سے بورڈ کے نائب صدر بھی ہیں۔ ان کا نام 500 انتہائی بااثر مسلم شخصیات کی فہرست میں شامل ہے۔

ملی و قومی خدمات

سید ارشد مدنی کو اپنے والد سید حسین احمد مدنی اور اپنے بڑے بھائی سید اسعد مدنی کی طرح ابتدا سے ہی ملی اور سماجی سرگرمیوں سے دلچسپی رہی ہے، ابتدا میں وہ جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ اور امارت شرعیہ ہند کی مجلس شوریٰ کے سرگرم رکن رہ چکے ہیں۔ سید اسعد مدنی کے بعد 2 فروری 2006ء سے 5 مارچ 2008ء تک متحدہ جمعیت علمائے ہند کے صدر رہے اور 4 اپریل 2008ء سے جمعیت علمائے ہند (الف) کے صدر ہیں۔ 

 امارت شرعیہ ہند کی امارت کے لیے انتخاب

جولائی 2021ء کی ابتدا میں جمعیت علمائے ہند کی ذیلی تنظیم امارت شرعیہ ہند کی منعقدہ میٹنگ میں امارت شرعیہ ہند کے چوتھے امیر عثمان منصور پوری کی وفات کے بعد پانچویں امیر کے لیے سید محمود اسعد مدنی نے سید ارشد مدنی کا نام پیش کیا تھا، جس پر دار العلوم دیوبند کے مہتمم ابو القاسم نعمانی نے اپنی تائید پیش کی تھی اور حاضرین مجلس نے متفق ہو کر اس تجویز پر صاد کہا تھا اور اس طرح سید ارشد مدنی امارت شرعیہ ہند کے پانچویں امیر یا کہا جائے کہ اس کے امیرِ خامس منتخب کیے گئے تھے۔

مسلمانوں کے مسائل پر

سید ارشد مدنی نے مسلمانوں کے مفاد کے خلاف اٹھائے گئے ہر اقدام کی مخالفت کی ہے اور اس کے لیے قانونی چارہ جوئی کی کوششیں بھی کی ہیں، مثلاً: یکساں سول کوڈ کا نفاذ، طلاق ثلاثہ پر بل کی منظوری، این پی آر، این آر سی اور سی اے اے۔

بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنائے جانے کے فیصلے پر انھوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا استقبال کرتے ہوئے مسلمانوں سے امن و امان قائم رکھنے کی اپیل کی؛ مگر بابری مسجد کی متنازع اراضی پر رام مندر بنانے کے لیے ایک ٹرسٹ بنائے جانے اور اتر پردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ کو 5 ایکٹر زمین دیے جانے کے فیصلے پر انھوں کہا کہ ”بابری مسجد قانون اور عدل و انصاف کی نظر میں ایک مسجد تھی اور آج بھی شرعی لحاظ سے مسجد ہے اور قیامت تک مسجد ہی رہے گی۔“

مدارس کے سرکاری سروے کے انعقاد پر انھوں نے کہا تھا کہ ”ہمیں سروے پر نہیں؛ حکومت کی نیت پر شک ہے۔“ بعد میں رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کی میٹنگ کے بعد انھوں نے اور رابطہ کے ذمے داروں نے تسلی ظاہر کرتے ہوئے سروے کی حمایت بھی کی تھی۔

رفاہی خدمات

سید ارشد مدنی نے 1997ء میں ”مدنی چیریٹیبل ٹرسٹ“ کا انعقاد کیا اور اسی ٹرسٹ کے زیر اہتمام دینی ماحول میں تعلیم انتظام کے لیے دیوبند میں ”مولانا مدنی میموریل انگلش میڈیم اسکول“‌ قائم کیا۔

اسی ٹرسٹ کے زیر انتظام بہت سے تعلیمی ادارے قائم کیے گئے، اتر پردیش کے انبیٹھہ پیر زادگان اور گنگوہ میں مذہبی و جدید تعلیم پر مشترک دو تعلیمی ادارے قائم کیے گئے، اسی طرح پنجاب میں ایک آئی ٹی آئی اور دیگر رفاہی کاموں کے ساتھ پسماندہ اور غریب علاقوں خصوصاً ہریانہ، پنجاب اور ہماچل پردیش کے مرتد متاثرہ علاقوں میں مساجد کی تعمیر کی جا رہی ہے۔

قلمی خدمات

سید ارشد مدنی نے ہندی زبان کے ماہر کی مدد سے 1980ء میں قرآن کریم کے ترجمہ شیخ الہند و تفسیر عثمانی کا ہندی ترجمہ شروع کیا تھا، جو گیارہ سال کی محنت کے بعد 1991ء میں جمعیت علمائے ہند کی طرف سے شائع ہوا تھا۔

انھوں نے ”تفصيل عقد الفرائد بتكميل قيد الشرائد“ معروف بہ شرح منظومہ ابن وھبان کے مخطوطہ اپنی تحقیق و تعلیق کے ساتھ دو جلدوں میں شائع کیا۔

بدر الدین عینی کی ”نخب الافکار فی تنقیح مبانی الاخبار فی شرح معانی الآثار“ کے مخطوطہ کو اپنی تحقیق و تعلیق کے ساتھ اولا ہندوستان سے 12 جلدوں میں، پھر عالم عرب سے 23 جلدوں میں شائع کروایا۔ یہ مخطوطہ بہ شکل فوٹو اسٹیٹ انھیں ان کے چچا زاد بھائی سید حبیب محمود احمد مدنی (متوفی: 7 رمضان المبارک 1423ھ) نے قاہرہ، مصر کی سرکاری لائبریری ”دار الکتب العلمیہ“ سے فراہم کروایا تھا۔

عبد الرحمن مبارکپوری کی تحفۃ الاحوذی عربی شرح جامع ترمذی کے متکلم فیہ ابواب کو ”هدية الأحوذي“ کے نام سے احناف کے دلائل کے ساتھ 6 جلدوں میں شائع کروایا۔

اپنے والد سید حسین احمد مدنی کی خود نوشت آب بیتی ”نقشِ حیات“ کا پہلی بار عربی زبان میں ترجمہ کیا۔

اسی طرح انھوں نے پہلی بار ابراہیم بن موسیٰ بن ابو بکر طرابلسی حنفی کی مستند کتاب ’’البرھان فی شرح مواھب الرحمن‘‘ پر تحقیق و تجزیے کا کام شروع کیا ہے۔

Post a Comment

0 Comments