حضرت مولانا طاہر گیاوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ
میرے مخلص استاد بھی تھے اور درسی ساتھی بھی تھے."
![]() |
Maulana Tahir Hussain Gayavi| مولانا سید طاہر حسین گیاوی |
(مفتی) ثمیرالدین قاسمی (انگلینڈ)
--------
"مولانا سید محمد طاہر گیاوی"
وہ ایک تارا جو ضو فگن تھا، حیا ت کے مغربی افق پرسیاہی شب کے پاسبانو! خوشی مناؤ کہ وہ بھی ڈوبا
وہ ایک سفینہ جو ترجماں تھا، بہت سی غرقاب کشتیوں کا
ہماری حالت پر ہنسنے والو، ہنسی اڑاؤ کہ وہ بھی ڈوبا
مناظر اسلام حضرت مولانا سید محمد طاہر گیاوی کی زندگی کا ٹمٹماتا چراغ ہواؤں کے رحم وکرم کبھی کم کبھی زیادہ ہورہا تھا، ان کی طبیعت اخیر دنوں میں کافی علیل رہی، ان کا سفینہ حیات ہچکولے کھاتا، ساحل مراد کی طرف بڑھتا، ڈگمگاتا بڑھتا چلا جارہا تھا. وہ اپنی طبعی عمر عرصہ پہلے پوری کرچکے تھے، ان کی پوری زندگی احقاق حق اور ابطال باطل سے عبارت تھی، انھوں نے کبھی بھی مصلحتوں سے سمجھوتا نہیں کیا، انھوں نے ہر دور میں باطل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کا کردار اداکیا، آندھیاں آئیں، بجلیاں گریں، برق بے امان سے الجھے، طوفانوں سے ٹکرائے، حوادث سے نبرد آزما رہے، ایسے ایسے علاقوں میں جاگھسے جہاں باطل کا مضبوط گڑھ تھا، ایسے ایسے باطل سورماؤں کو پٹخنی دی جن کو اپنے علوم اور علمیت پر غرہ تھا، ایسی ایسی بستیوں میں جادھمکے جہاں ان کا داخلہ ممنوع تھا،ایسے ایسے مضبوط لوگوں سے پنجہ آزمائی کی جن سے لوگوں کو خوف محسوس ہوتا تھا۔ طاہر گیاوی ایک نام نہیں ایک تحریک تھے، طاہرگیاوی ایک مناظر نہیں ایک سدسکندری تھے، طاہر گیاوی طبقہ دیوبند کے پشتیبان تھے، ان کے علمی دلائل کے آگے باطل کو ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی، وہ جس موضوع پر بولتے تھے پہلے خود مکمل تیاری کرتے تھے۔
مجھے یاد ہے ایک دفعہ مدرسہ امدادالعلوم زیدپور بارہ بنکی میں تشریف لائے. اس علاقہ میں کہیں تقریری پروگرام تھا. سردیوں کے موسم تھا تیسری منزل پر کتب خانے کے سامنے چھجے پر مولانا کے لئے مسند بچھادی گئی، مولانا کا نام ہر کوئی جانتا تھا، مولانا نے جن جن کتابوں کا تقاضا کیا تمام کتابیں ان کے سامنے رکھ دی گئیں. کتابوں کا اتنا بڑا چٹہ کہ مولانا اس چٹے میں گم ہوگئے۔ کبھی یہ کتاب کبھی وہ کتاب، کبھی اس کتاب سے کوئی نوٹ کبھی اس کتاب سے کوئی اقتباس، نہ کھانے کا فکر نہ ملنے والوں سے کوئی لینا دینا، انھیں تو بس اپنے مسلک کی ترجمانی کی دھن تھی. انھیں حق کے احقاق کا جنون تھا. چنانچہ مولانا کا یہی جنون انھیں پورے بھارت میں قبولیت اور محبوبیت کی قابل رشک شکل اختیار کرگیا، انھوں نے اپنے مطالعے کا نچوڑ لکھنا شروع کیا. ایک دو نہیں کم وبیش ایک درجن کتابیں ان کے قلم سے نکلی ہیں۔
آہ! ہم اب انھیں قیامت تک نہ دیکھ سکیں گے نہ براہ راست سن سکیں گے۔
اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ایک شخص نہیں گیا ایک تحریک ایک ترجمان اور ایک داعی چلاگیا ہے۔
0 Comments