ماہ محرم الحرام و یوم عاشورہ کے فضائل و اہم واقعات

  ماہ محرم الحرام  و یوم عاشورہ کے فضائل و اہم واقعات 


رشحات قلم: محمد امتیازپلاموی، مظاہری

خادم جامعہ امدادالعلوم الاسلامیہ مکھیالی، ضلع مظفرنگر یوپی

       ماہ محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے اس ماہ کے تین پہلو ہیں نمبر (١)  ماہ محرم کی فضیلت (٢) یوم عاشورہ کی فضیلت (٣) عاشورہ میں کرنے اور نہ کرنے والے کام۔

پہلو (١) ماہِ محرم الحرام کی فضیلت 

رمضان المبارک کے بعد ماہ محرم الحرام کو چار وجوہ سے خصوصی فضیلت و تقدس حاصل ہے۔(١)  پہلی وجہ تو یہ ہے کہ احادیث مبارکہ میں اس ماہ کی فضیلت وارد ہوئی ہے، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے سوال کیا کہ ماہ رمضان المبارک کے بعد کونسے مہینے کے میں روزے رکھوں؟ تو حضرت علی نے جواب دیاکہ ایک دفعہ یہی سوال ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا اور میں آپ کے پاس بیٹھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا " ان کنت صایما بعد شہر رمضان فصم المحرم فانہ شہر اللہ فیہ یوم تاب اللہ فیہ علی قوم و یتوب فیہ" علی قوم آخرین۔
   یعنی ماہ رمضان کے بعد اگر تمہیں روزہ رکھنا ہے تو محرم میں رکھو کیونکہ وہ اللہ تعالی کی خاص رحمت کا مہینہ ہےاس میں ایک دن ایسا ہے جس میں اللہ تعالی نے ایک قوم کی توبہ قبول کی اور آئندہ بھی ایک قوم کی توبہ اس دن قبول فرمائے گا ۔ایک دوسری روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ وسلم نے ارشاد فرمایا " افضل الصیام بعد صیام شھر رمضان شھر اللہ المحرم" (ترمذی شریف ١/١٥٧) ۔ یعنی ماہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزہ ماہ محرم الحرام کا روزہ ہے۔
(٢) دوسری وجہ جو کہ مندرجہ بالا دونوں حدیثوں سے معلوم ہوئی یہ ہے کہ یہ اللہ کی رحمت کا خاص مہینہ ہے اس لئے کہ حدیث مبارکہ میں مہینے کی اضافت اللہ رب العزت کی جانب کی گئی ہے یعنی "شھراللہ" تو کسی چیز کی اضافت اللہ سبحانہ و تعالی کی جانب کرنا ہی اس کی فضیلت و عظمت کے لیئے کافی ہے۔
(٣) تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ مہینہ "أشھر حرم"  میں سے ہے یعنی ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جن کی دوسرے مہینوں کے مقابلے میں خصوصی مقام حاصل ہے ،اور وہ چار مہینے محرم الحرام، رجب المرجب،ذی قعدہ اور ذی الحجہ ہیں۔
(٤) چوتھی وجہ یہ ہے کہ اس مہینے سے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے اور ظاہر سی بات ہے جب سال کا آغاز ایک مقدس اور بابرکت مہینے سے ہو رہا ہے تو نیک فالی کے طور پر امید رکھنی چاہیے اور دعا کرنی چاہیے کہ اس کی برکات و  رحمات پورے سال قائم و دائم رہیں۔
پہلو ٢ :------ یوم عاشورہ بہت ہی مہتم بالشان دن ہے، اس دن روزہ رکھنے کی احادیث مبارکہ میں بڑی فضیلت آئی ہے ؛ چنانچہ حدیث میں ہے کہ ماہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوم عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس دن روزہ رکھنے کی تاکید فرماتے، نیز رمضان المبارک کے روزے سے پہلے یوم عاشورہ کا روزہ فرض تھا لیکن فرضیت صوم رمضان کے بعد یوم عاشورہ کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی، لیکن اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ وسلم پابندی کے ساتھ اس دن میں روزہ رکھتے تھے؛ ہاں البتہ آپ صلی اللہ وسلم نے اپنی وفات کے آخری سال میں فرمایا "کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو ٩/تاریخ کو بھی روزہ رکھوں گا تاکہ یہودیوں کی مشابہت لازم نہ آئے" ۔ اسی لیے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ صرف یوم عاشورہ کو روزہ رکھنا یہود کی مشابہت کی بنا پر نامناسب ہے اس لیے یوم عاشورہ کے ساتھ ٩/  یا ١١/  تاریخ کو بھی روزہ رکھنا چاہیے۔مزید یہ کہ یوم عاشورہ کے ساتھ کئی اہم واقعات جڑے ہوئے ہیں
نمبر(1 )زمانہ جاہلیت میں اسی دن خانہ کعبہ پر غلاف ڈالا جاتا تھا نمبر(2 )اسی دن آسمان، زمین، قلم اور حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا۔ نمبر(3) اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔ نمبر(4) اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا ۔نمبر(5) اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی سیلاب کی ہولناکی سے بچ کر جودی پہاڑ پر ٹھہری۔ نمبر(6 )اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آگ گل گلزار ہوئی۔ نمبر(7) اسی دن حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم نے فرعون کے ظلم و ستم سے نجات پاءی۔ نمبر(8) اسی دن  حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے باہر تشریف لائے ۔نمبر (9 )اسی دن حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اور آسمان پر اٹھایا گیا۔ نمبر (10) اسی دن قیامت قائم ہوگی بھی۔
   پہلو ٣:---- شریعت مطہرہ مقدسہ نے یوم عاشورہ میں دو کام کرنے کا حکم دیا ہے ۔نمبر (١)- روزہ رکھنے کا جیسا کہ اس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے ۔ نمبر(٢) اہل و عیال کے کھانے پینے میں وسعت و کشادگی کرنے کا۔
       حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص یوم عاشورہ میں اپنے اہل و عیال کے لئے کھانے پینے میں فراخی کرتا ہے اللہ تعالی سال بھر اس کے رزق میں کشادگی پیدا فرما دیتا ہے ؛ چنانچہ حضر ت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" من اوسع علی اھلہ و عیال یوم عاشوراء اوسع اللہ علیہ سایر سنتہ۔" ( الترغیب والترہیب)
     لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا طرزعمل فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اور مذکورہ تعلیمات کے بالکل برعکس ہے -اس دن روزہ رکھنے کا حکم ہے لیکن ہمیں روزہ کا خیال ہی نہیں آتا،بلکہ ہم تو تعزیہ داری،کھچڑے کی تیاری اور مختلف خرافات مثلا جلوس،ڈھول،ماتم  اور  گانے بجانے میں لگے رہتے ہیں جن کا شریعت سے کوئی تعلق تو درکنار، دور کا بھی واسطہ نہیں ؛ بلکہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہونے کے ساتھ انسانی تہذیب و شرافت کے بھی منافی ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں عمل سمجھ کی توفیق عطا فرمائے اور اس ماہ کی قدر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔

Post a Comment

0 Comments