اس زمانہ میں خرافات سے پاک مجلس میلاد کا انعقاد جائز ہے ؟؟
تحریر :حضرت علامہ ساجد خان نقشبندی حفظہ اللہ
اس میں تو کوئی شک و شبہ نہیں کہ حضور ﷺ کی سیرت ،ولادت، معجزات کا ذکر کرنا باعث برکت و فضیلت والا امر ہے ۔لیکن شریعت کا مزاج ایسا ہے کہ بعض اوقات ایک جائز و مستحب کام سے اگر خرافات کا شیوع ہویا اسے ضروری سمجھنے لگا جائے تو اس جائز و مستحب کام کو ترک کردیا جائے گا تاکہ لوگ اپنی خرافات پر اس سے جواز کی دلیل نہ لیکر آئیں۔
بریلوی بھائیوں کے حکیم الامت مفتی احمد یار گجراتی صاحب اپنے تفسیری حاشیہ میں لکھتے ہیں:
’’ایک غیر ضروری عبادت فساد کاذریعہ بن جائے جو ہم سے مٹ نہ سکے تو اس کو چھوڑ دیا جائے ‘‘۔(نور العرفان ،۷۵۸)
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ربیع الاول کے مہینے میں میلاد کی مجالس منعقد کرنا کوئی ضروری عبادت نہیں اور اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ مجلس میلاد کے نام پر اب اس ماہ مقدس میں ایسی ایسی بدعات و خرافات کا ارتکاب کیا جارہا ہے کہ خود بدعت پسند بدعتی علما بھی چیخ رہے ہیں بیانات میں اس کی تردید کررہے ہیں اور اس کے خلاف کتب شائع کررہے ہیں (جیساکہ مفتی منیب الرحمن صاحب کے مدرسے کے مفتی صابر حسین نے کتاب شائع کی)ان خرافات کا ختم ہونا اب بدعتی علما کے بس میں بھی نہیں رہا لہذا گجراتی صاحب کے ذکرہ کردہ اصول کی روشنی میں اس قسم کی مجالس کو بالکلیہ اس ماہ میں ترک کیا جائےگا۔
بعض حضرات اس موقع پر شبہ پیش کرتے ہیں کہ نکاح میں بھی تو خرافات ہوتی ہیں اسے ختم کرنے کا کوئی نہیں کہتا؟ تو گجراتی صاحب کے اس اصول سے اس کا بھی جواب ہوگیا کہ نکاح سنت اور عبادت ضروریہ ہے ایسی چیز میں اگر خرافات در آئیں تو خرافات کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی نہ کہ عبادت کو جبکہ میلاد ،تیجہ عرس وغیرہ کوئی عبادات ضروریہ نہیں لہذا اگر یہ فساد کا ذریعہ بن رہی ہیں تو فساد کو ختم کرنا فرض و واجب ہے۔
نماز کےبعد سجدہ شکر کرنا ایک جائز اور باعث ثواب کام ہے لیکن ہمارے علما نے اس کو محض اس وجہ سے منع کیا ہے کہ کہیں عوام اس کو ضروری، فرض واجب یا سنت نہ سمجھنے لگیں ۔یہ قاعدہ ان حضرات کیلئے بھی باعث عبرت ہے جو کہتے ہیں کہ خرافات تو عوام کرتی ہے ہماری مجالس تو خرافات سے پاک ہوتی ہیں یہاں فتاوی کی کتب میں عوام ہی کے عقائد کے بگاڑ کے اندیشے سے اس جائز کام سے روکا جارہا ہے۔ لہذا آپ بے شک نہ کرتے ہوں لیکن عوام تو اس کو ضروری، فرض بلکہ ایمان کا حصہ سمجھتی ہے لہذا بہرصورت اس جایز کام سے بھی اس ماہ میں منع کیا جائے گا۔(حوالہ جات آخر میں)
ھدایہ (کتاب الکراہیہ) و دیگر کتب میں واضح لکھا ہوا ہے کہ اگر کسی دعوت ولیمہ کی مجلس جس کو قبول کرکے شرکت کرنا سنت ہے میں ناچ گانا ،خرافات بدعات ہورہی ہوں اس میں شرکت خصوصا وہ لوگ جن کی اقتدا کی جاتی جائزنہیں کیونکہ عوام ان مقتداوں کو دیکھ کر یہی تصور کرے گی کہ یہ کام جائز ہے تبھی تو یہ کررہے ہیں ۔
ہمارے اسلاف نے اس ماہ میں خرافات سے پاک وقت کی تعیین کے بغیر نفس میلاد کی مجلس کو جائز لکھا ان کی کتب میں دور دور تک ان خرافات کا کوئی ذکر نہیں مگر آج عوام کالانعام انہی کتب کو پیش پیش کرکے کہتی ہے کہ دیکھو میلاد تو فلاں نے بھی کیا، فلاں نے اس پر کتاب لکھی ۔ لہذا اس زمانے میں خرافات سے پاک میلاد کی مجالس یا اس عنوان سے کسی قسم کی مجالس بھی جائز نہیں اور آپ کی اس حرکت سے اہل بدعت کو ان خرافات کے جواز کا موقع ملے گا اس سب کا گناہ آپ کے سر ہوگا۔
احکام الاحکام میں ہے کہ اگر ضعیف حدیث اہل بدعت کا شعار بن جایئے تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا سیاہ کپڑے پہنے میں کوئی حرج نہیں ،ہری پگڑی میں فی نفسہ کوئی حرج نہیں لیکن فی زماننا چونکہ یہ اہل بدعت کا شعار بن چکا ہے لہذا منع کیا جاتا ہے۔
مولانا احمد رضاخان صاحب نے بھی فتاوی رضویہ میں لکھا ہے :
کہ اگر تعزیہ خرافات سے پاک ہو تو اس تعزیہ میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس سے اہل بدعت کو اپنی خرافات پر جواز کا بہانہ ملے گا لہذا خرافات سے پاک تعزیہ نکالنا بھی جائز نہیں
لہذا آج خرافات سے پاک نفس میلاد سے بھی چونکہ اہل بدعت اور فساق کو اپنی خرافات کا جواز ملے گا لہذا اس کے جواز کی کوئی صورت نہیں۔
حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی رحمہ اللہ خرافات سے پاک میلاد میں شرکت کرتے لیکن فقیہ العصر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے اس سے سختی سے منع کیا ان کی خط و کتابت ہوئی حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اپنے شبہات پیش کئے حضرت فقیہ العصر نے ان کے جوابات دئے اور بالاخر حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے ان مجالس میں شرکت سے بالکلیہ انکار کردیا۔ احباب تذکرۃ الرشید میں اس خط و کتابت کو ضرور پڑھیں۔
انتہائی افسوس اور دکھ کا مقام ہے کہ بعض اہل حق کی طرف اپنی نسبت کرنے والے نہ صرف ان عنوانات سے مجالس منعقد کررہے ہیں بلکہ غضب خدا کا جلوس میلاد کے اشتہار چھپ رہے ہیں ایسے لوگ خدا کا خوف کریں آپ کے ذمہ اگلے تک حق بات پہنچانا ہے اگلے کی آخرت کی فکر میں اپنی آخرت خراب کرنا کہاں کی عقلمندی ہے ؟ اگر آپ کے علاقے کے لوگ سوائے میلاد کے عنوان کے کوئی اور جلسہ منعقد کرنے نہیں دیتے (حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے ہاں بھی یہی ماحول تھا)تو جلسہ منعقد کرنا کوئی فرض واجب نہیں ان کی اصلاح کیلئے جمعہ وغیرہ دیگر ذرائع بھی استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ھذا ما عند ی واللہ اعلم بالصواب۔
وَلَوْ قَرَأَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى} [الأعلى: 1] ، وَفِي الثَّانِيَةِ {قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ} [الكافرون: 1] ، وَفِي الثَّالِثَةِ {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ} [الإخلاص: 1] اتِّبَاعًا لِلنَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ حَسَنًا لَكِنْ لَا يُوَاظِبْ عَلَيْهِ كَيْ لَا يَظُنَّهُ الْجُهَّالُ حَتْمًا
(البدائع الصنائع،ج۱،ص۲۷۳)
وَسَجْدَةُ الشُّكْرِ: مُسْتَحَبَّةٌ بِهِ يُفْتَى لَكِنَّهَا تُكْرَهُ بَعْدَ الصَّلَاةِ لِأَنَّ الْجَهَلَةَ يَعْتَقِدُونَهَا سُنَّةً أَوْ وَاجِبَةً وَكُلُّ مُبَاحٍ يُؤَدِّي إلَيْهِ فَمَكْرُوهٌ(در مختار)
شامی:(قَوْلُهُ لَكِنَّهَا تُكْرَهُ بَعْدَ الصَّلَاةِ) الضَّمِيرُ لِلسَّجْدَةِ مُطْلَقًا. قَالَ فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ آخِرَ الْكِتَابِ عَنْ شَرْحِ الْقُدُورِيِّ لِلزَّاهِدِيِّ: أَمَّا بِغَيْرِ سَبَبٍ فَلَيْسَ بِقُرْبَةٍ وَلَا مَكْرُوهٍ، وَمَا يُفْعَلُ عَقِيبَ الصَّلَاةِ فَمَكْرُوهٌ لِأَنَّ الْجُهَّالَ يَعْتَقِدُونَهَا سُنَّةً أَوْ وَاجِبَةً وَكُلُّ مُبَاحٍ يُؤَدِّي إلَيْهِ فَمَكْرُوهٌ انْتَهَى.
وَحَاصِلُهُ أَنَّ مَا لَيْسَ لَهَا سَبَبٌ لَا تُكْرَهُ مَا لَمْ يُؤَدِّ فِعْلُهَا إلَى اعْتِقَادِ الْجَهَلَةِ سُنِّيَّتَهَا كَاَلَّتِي يَفْعَلُهَا بَعْضُ النَّاسِ بَعْدَ الصَّلَاةِ
(شامی ج۲،ص۱۲۰)
وَأَمَّا إذَا سَجَدَ بِغَيْرِ سَبَبٍ فَلَيْسَ بِقُرْبَةٍ وَلَا مَكْرُوهٍ وَمَا يَفْعَلُ عَقِيبَ الصَّلَوَاتِ مَكْرُوهٌ؛ لِأَنَّ الْجُهَّالُ يَعْتَقِدُونَهَا سُنَّةً أَوْ وَاجِبَةً وَكُلُّ مُبَاحٍ يُؤَدِّي إلَيْهِ فَمَكْرُوهٌ، هَكَذَا فِي الزَّاهِدِيِّ.
(عالمگیری ج۱،ص۱۹۶)
پیش کردہ: مفتی محمد امتیاز پلاموی مظاہری
شمس الدين أبو عبد الله محمد بن محمد بن عبد الرحمن الطرابلسي المغربي، المعروف بالحطاب الرُّعيني المالكي (المتوفى: 954هـ)
وَيَنْبَغِي مَعَ ذَلِكَ اشْتِرَاطُ أَنْ يَعْتَقِدَ الْعَامِلُ كَوْنَ ذَلِكَ الْحَدِيثِ ضَعِيفًا، وَأَنْ لَا يَشْتَهِرَ ذَلِكَ؛ لِئَلَّا يَعْمَلَ الْمَرْءُ بِحَدِيثٍ ضَعِيفٍ، فَيُشَرِّعُ مَا لَيْسَ بِشَرْعٍ، أَوْ يَرَاهُ بَعْضُ الْجُهَّالِ فَيَظُنُّ أَنَّهُ سُنَّةٌ صَحِيحَةٌ
(مواهب الجليل في شرح مختصر خليل،ج۲،ص۴۰۸)
0 Comments