اللہ پاک کہاں ہے؟ عرش پر یا ہر جگہ ؟ اللہ کے ہر جگہ ہونے کی حدیث سے دلیل

 اللہ کہاں ہے؟ عرش پر یا ہر جگہ؟

تحریر : محمد افضال 
ناشر : محمد امتیاز پلاموی 

اس ضمن میں دس صحیح الاسناد احادیث مبارکہ:

1: عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ قَالَ رَاٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم نُخَا مَۃً فِیْ قِبْلَۃِ الْمَسْجِدِ وَھُوَیُصَلِّیْ بَیْنَ یَدَیِ النَّاسِ فَحَتَّھَا ثُمَّ قَالَ حِیْنَ انْصَرَفَ :اِنَّ اِحَدَکُمْ اِذَا کَانَ فِی الصَّلٰوۃِ فَاِنَّ اللّٰہَ قِبَلَ وَجْھِہٖ فَلَا یَتَخَمَّنْ اَحَدٌ قِبَلَ وَجْھِہٖ فِی الصَّلٰوۃِ۔

(صحیح البخاری ج1ص104باب ھل یلتفت لامر ینزل بہ الخ، صحیح مسلم ج1ص207باب النہی عن البصاق فی المسجد الخ)

ترجمہ: حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ(کی جانب) میں کچھ تھوک دیکھا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے آگے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ نے اس کو چھیل ڈالا ۔اس کے بعد جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: جب کوئی شخص نماز میں ہوتو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے‘ لہذا کوئی شخص نماز میں اپنے منہ کے سامنے نہ تھوکے۔

2: عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیْ رضی اللہ عنہ یَقُوْلُ: بَعَثَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنَ الْیَمَنِ بِذُھَیْبَۃٍ فِیْ اَدِیْمٍ مَقْرُوْطٍ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِھَا قَالَ فَقَسَمَھَا بَیْنَ اَرْبَعَۃِ نَفَرٍ بَیْنَ عُیَیْنَۃَ بْنِ بَدْرٍ وَاَقْرَعَ بْنِ حَابِسٍ وَزَیْدٍ الْخَیْلِ وَالرَّابِعِ اِمَّا عَلْقَمَۃَ وَاِمَّا عَامِرِ بْنِ الطُّفُیْلِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ اَصْحَابِہٖ کُنَّا نَحْنُ اَحَقُّ بِھٰذَا مِنْ ھٰؤُلَائِ قَالَ فَبَلَغَ ذٰلکَ النبِِّیَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ :اَلَا تَاْمَنُوْنِیْ وَاَنَا اَمِیْنُ مَنْ فِی السَّمَائِ یَاْتِیْنِیْ خَبَرُ السَّمَائِ صَبَا حًا وَمَسَاء ً الحدیث

(صحیح بخاری ج2ص624باب بعث علی بن ابی طالب الخ ، صحیح مسلم ج1ص341باب اعطاء المؤلفۃ و من یخاف الخ)

ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رنگے ہوئے چمڑے کے تھیلے میں تھوڑا سا سونا بھیجا‘ جس کی مٹی اس سونے سے جدا نہیں کی گئی تھی (کہ تازہ کان سے نکلاتھا)آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے اسے چار آدمیوں عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان تقسیم کردیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک آدمی نے کہا کہ ہم اس سونے کے ان لوگوں سے زیادہ مستحق ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا:کیا تمہیں مجھ پر اطمینان نہیں ہے؟ حالانکہ میں اس ذات کا امین ہوں جو آسمان میں ہے۔ میرے پاس صبح وشام آسمان کی خبریں آتی ہیں۔

فائدہ: اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کا آسمان میں ہونا بتلایا گیاہے غیرمقلدین کا عقیدہ کہ اللہ عرش پر ہے اس سے باطل ہوگیا۔

تنبیہ:غیر مقلد اپنی تائید میں کچھ حدیثیں پیش کرتے ہیں کہ اللہ آسمان میں ہے حالانکہ یہ حدیثیں ان کے خلاف ہیں۔

3: عَنِ ابْنِ عُمَر رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ اِذَا اسْتَوَیٰ عَلٰی بَعِیْرِہٖ خَارِجًا اِلٰی سَفَرٍ کَبَّرَ ثَلَاثًا قَالَ: سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ وَاِنَّا اِلیٰ رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ‘ اَللّٰھُمَّ نَسْئَلُکَ فِیْ سَفَرِنَا ہٰذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَیٰ وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی ‘ اَللّٰھُمَّ ھَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَاہٰذَا وَاطْوِعَنَّا بَعْدَہٗ ‘اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیْفَۃُ فِی الْاَہْلِ الحدیث

(صحیح مسلم ج۱ص۴۳۴ باب استجاب الذکر اذارکب دابۃ)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کہیں سفر پرجانے کے لیے اپنے اونٹ پر سوار ہوتے تو تین بار اللہ اکبر فرماتے پھر یہ دعا پڑھتے :پاک ہے وہ پروردگار جس نے اس جانور(سواری )کو ہمارے تابع کردیا اور ہم اس کو دبا نہ سکتے تھے اور ہم اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جانے والے ہیں۔ یااللہ! ہم اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی‘ پرہیز گاری اور ایسے کام جسے تو پسند کرے، کا سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ ! اس سفر کو ہم پر آسان کردے اور اس کی لمبان کو ہم پر تھوڑا کردے۔ یا اللہ! تو رفیق ہے سفر میں اور خلیفہ ہے گھرمیں۔

4) : حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ‘لوگ زور کی آواز سے تکبیریں کہنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اِرْبَعُوْاعَلٰی اَنْفُسِکُمْ‘اِنَّکُمْ لَیْسَ تَدْعُوْنَ اَصَمَّ وَلَا غَائِبًا، اِنَّکُمْ تَدْعُوْنَہٗ سَمِیْعاً قَرِیْباً وَھُوَ مَعَکُمْ۔‘‘

(صحیح مسلم؛ ج2ص 346باب استحباب خفض الصوت بالذکر )

ترجمہ: ’’اپنی جانوں پر نرمی کرو! تم بہرے و غائب کو نہیں پکار رہے ، تم جسے پکار رہے ہو وہ سننے والا، قریب اور تمہارے ساتھ ہے‘‘ ۔ 

 5: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

’’ارْحَمُوْا مَنْ فِی الْاَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِی السَّمَائِ۔‘‘ (جامع الترمذی ج 2 ص 14 باب ما جاء فی رحمۃ الناس )

ترجمہ: ’’تم زمین والوں پر رحم کرو، جو آسمان میں ہے وہ تم پر رحم کرے گا۔ ‘‘

فائدہ: اس حدیث میں اللہ تعالی کا آسمان میں ہونابتلایا گیا ہے ، غیر مقلدین کا عقیدہ کہ اللہ عرش پر ہے ،اس سے باطل ہوگیا۔

6۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:

’’لَوْاَنَّکُمْ دَلَّیْتُمْ بِحَبْلٍ اِلَی الْاَرْضِ السُّفْلیٰ لَھَبَطَ عَلَی اللّٰہِ۔‘‘ (جامع الترمذی ج 2 ص 165تفسیر سورۃ حدید )

ترجمہ: اگر تم ایک رسی زمین کے نیچے ڈالو تو وہ اللہ تعالی پر اترے گی 

فائدہ : رسی کا زمین کے نیچے اللہ تعالی پر اترنا دلیل ہے کہ ذات باری تعالی صرف عرش پر نہیں جیسا کہ غیر مقلدین کا عقیدہ ہے بلکہ ہر کسی کے ساتھ موجود ہے ۔

7: عَنْ اَبِی الدَّرْدَائ رضی اللہ عنہ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ: مَنِ اشْتَکٰی مِنْکُمْ شَیْئًا اَوِ اشْتَکَاہُ اَخٌ لَّہٗ فَلْیَقُلْ :رَبُّنَا اللہّٰ ُ اَّلذِیْ فیْ السَّمَائِ، تَقَدَّسَ اسْمُکَ ‘اَمْرُکَ فِی السَّمَائِ وَالْاَرْضِ کَمَارَحْمَتُکَ فِی السَّمَائِ فَاجْعَلْ رَحْمَتَکَ فِی الْاَرْضِ‘ اِغْفِرْلَنَا حُوْبَنَا وَخَطَایَا نَا‘اَنْتَ رَبُّ الطَّیِّبِیْنَ ‘اَنْزِلْ رَحْمَۃً مِّنْ رَحْمَتِکَ وَ شِفَائً مِنْ شِفَائِکَ عَٰلی ہٰذَا الْوَجْعِ فَیَبْرَاُ۔

(سنن ابی داؤد ج2ص187باب کیف الرقی)

ترجمہ: حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے : تم میں سے جو شخص بیمار ہویا کوئی دوسرابھائی اس سے اپنی بیماری بیان کرے تو یہ کہے کہ رب ہمارا وہ اللہ ہے جو آسمان میں ہے ۔اے اللہ! تیرا نام پاک ہے اورتیرا اختیار زمین وآسمان میں ہے‘ جیسے تیری رحمت آسمان میں ہے ویسے ہی زمین میں رحمت کر۔ ہمارے گناہوں اور خطاؤں کو بخش دے۔ تو پاک لوگوں کا رب ہے ۔اپنی رحمتوں میں سے ایک رحمت اور اپنی شفاؤں میں سے ایک شفاء اس درد کے لیے نازل فرما کہ یہ درد جاتارہے۔

8: حضرت عبداللہ بن معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیا:

’’فَمَا تَزْکِیَۃُ الْمَرْئِ نَفْسَہٗ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!‘‘ قَالَ: اَنْ یَعْلَمَ اَنَّ اللّٰہَ مَعَہٗ حَیْثُمَا کَانَ۔

(السنن الکبری للبیھقی ج4ص95،96 باب لایاخذالساعی‘شعب الایمان للبیھقی ج3ص187باب فی الزکوۃ)

ترجمہ: آدمی کے اپنے نفس کا’’تزکیہ‘‘ کرنے سے کیا مرادہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ انسان یہ نظریہ بنا لے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہو اللہ اس کے ساتھ ہے۔

9: عَنْ عُبَادَ ۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم :اِنَّ اَفْضَلَ الْاِیْمَانِ اَنْ تَعْلَمَ اَنَّ اللّٰہَ مَعَکَ حَیْثُمَا کُنْتَ۔

(المعجم الاوسط للطبرانی ج6ص287رقم الحدیث8796)

ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افضل ایمان یہ ہے کہ تو یہ نظریہ بنا لے کہ اللہ تیرے ساتھ ہے تو جہاں کہیں بھی ہو۔

10: عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم :اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَقُوْلُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ :یَاابْنَ آدَمَ !مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِیْ ‘قَالَ یَارَبِّ کَیْفَ اَعُوْدُکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ؟ قَالَ :اَمَاعَلِمْتَ اَنَّ عَبْدِیْ فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْہٗ؟ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْعُدْتَّہٗ لَوَجَدْتَّنِیْ عِنْدَہٗ؟

(صحیح مسلم ج 2ص318باب فضل عیادۃ المریض،صحیح ابن حبان ص189،رقم الحدیث269)

ترجمہ: حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ عزوجل ارشاد فرمائیں گے :اے ابن آدم! میں بیمار تھا تو نے میری بیمار پرسی نہیں کی۔ بندہ کہے گا میں آپ کی بیمار پرسی عیادت کیسے کرتا؟ آپ تو رب العالمین ہیں۔ تو اللہ فرمائیں گے کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا‘ تو نے اس کی بیمار پرسی نہیں کی۔ تجھے پتا ہے کہ اگر تو اس کی بیمار پرسی کرتا تو مجھے وہاں پاتا۔

کاپی پیسٹ 

Post a Comment

0 Comments