تاریخ بیت المقدس ( فلسطین ) فتح سے غصب تک

تاریخ بیت المقدس ( فلسطین ) فتح سے غصب تک




   از قلم: ابن عطاءاللہ بنارسی۔   


جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل 

تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار“

بیت المقدس کی ابتدائی تاریخ، اسماء اور جغرافیا

یہ شہر دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے، اور محل وقوع کے اعتبار سے دنیا کا عین درمیانی مقام ہے، علمائے ہیئت و جغرافیہ دانوں نے لکھاہے کہ بیت المقدس اور اسمیں وہ چٹان جس پر قبۃ الصخرۃ قائم ہے وہ دنیا کا بالکل بیچ کا مقام ہے، چناں چہ اگر آپ گوگل میپ پر دیکھیں تو فلسطین دنیا کے عین وسط میں نظر آئے گا، حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کو اس شہر میں آباد کیا، اس شہر میں ہماری تاریخ کا سلسلہ یہیں سے شروع ہوتاہے، حضرت اسحاق کے بیٹے حضرت یعقوب کا لقب اسرائیل تھا لہذا یہ شہر بنو اسرائیل کا آبائی شہر کہلایا، اس شہر کا قدیمی نام کنعان تھا، پھر جب بنو اسرائیل کے مشہور نبی حضرت داؤد علیہ السلام کی حکومت آئی تو آپ نے اس شہر کا نام یروشلم رکھدیا، چناں چہ یہود و نصاری آج تک اسے اسی نام سے یاد کرتے ہیں، بنو اسرائیل میں جب سخت نوعیت کا انتشار و تشتت واقع ہوا اور رفتہ رفتہ بنو اسرائیل یہودیت و عیسائیت کے دو مختلف مذہبی گروہ میں نہ صرف تقسیم ہوئے بلکہ ایک دوسرے کے بدترین دشمن بن بیٹھے، تو دنیا کی دوسری قومیں انکی خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاکر تاریخ کے مختلف ادوار میں بیت المقدس پر حملہ آور ہوئیں اور بنو اسرائیل کے قتل و خون کے ساتھ اس شہر کو تاخت و تاراج کرتی رہیں، اس تعلق سے 'بخت نصر' وغیرہ کا ظلم و ستم تاریخ میں مشہور ہے! ایک صدی قبل مسیح، جب رومیوں نے اس شہر کو فتح کیا تو اسکا نام یروشلم سے ایلیا کردیا، بعد میں رومیوں نے مسیحیت اختیار کرلی اور یوں ایک بار پھر بیت المقدس عیسائیوں کے ہاتھ میں آگیا، اور اسکا یہی نام یعنی ایلیا جوں کا توں باقی رہا، بیت المقدس عیسائیوں کی زیر نگیں آنے کے بعد یہودیوں کی شامت آگئی، عیسائی حکمران، یہودیوں کے لئے ہر قسم کا ظلم و ستم روا رکھتے، حتی کہ بیت المقدس میں یہودیوں کا داخلہ بھی سرکاری طور پر ممنوع قرار پایا؛ 

بیت المقدس اسلام کی آغوش میں

قدیم عربی اور دیگر جغرافیہ دان، مشرق وسطی کے ایک حصہ کو جسمیں فلسطین اور دمشق وغیرہ بھی شامل ہے ' شام' کہا کرتے تھے، فلسطین شام کا آخری صوبہ تھا جیسا کہ صاحبِ 'معجم البلدان' نے لکھاہے[:معجم/ج4ص474] سیدنا صدیق اکبر اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنھما کے عہدِ مسعود تک یہ علاقے رومی سلطنت کے تحت تھے جنکا پائے تخت قسطنطنیہ ( حالیہ استانبول) تھا، آپ دونوں خلفاء کے زمانے میں جب عرب کی خانہ بدوش قوم، شاہان عجم کی سطوت اپنے گھوڑوں کے ٹاپوں تلے مسلنے لگی تو سلطنت روم کا یہ اہم حصہ یعنی شام کا پورہ علاقہ فتح ہوکر سلطنت اسلامیہ میں داخل ہوگیا، چونکہ اس زمانے میں فلسطین، شام کا ایک صوبہ ہوا کرتا تھا لہذا اسکو فتح کرنے کے لئے حضرت فاروق اعظمؓ نے اسلام کے مشہور جرنیل حضرت عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ کو منتخب فرمایا، جس وقت حضرت ابن العاص نے فلسطین کا محاصرہ کیا ہوا تھا عین اسی وقت ہماری تاریخ کے ایک دوسرے جرنیل حضرت عبدالرحمن ابن الجراح رضی اللہ عنہ شام کے دوسرے علاقوں کو فتح کرتے ہوئے حضرت ابن العاص کی فوج سے جا ملے، یوں فلسطین کا محاصرہ سخت ہوگیا اور عیسائیوں کو مجبوراً صلح کا معاہدہ کرنا پڑا، صلح کا سیاق وسباق مضمون کی طوالت کا موجب ہے، لہذا مختصراً صلح نامہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں! تاکہ ہماری تاریخ کا یہ عجیب و غریب باب آپ کے سامنے کھلے اور ہمیں ادراک ہو کہ جب مسلمانوں نے بیت المقدس کو فتح کیا تو عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ کتنا ترحم و تلطف بھرا سلوک کیا؟ اور بعد میں ان قوموں نے کیسی احسان فراموشی اور کتنی دغابازی  کی؟ جمہور مؤرخین کے مطابق بیت المقدس 16ھ میں فتح ہوا، اس زمانے میں جنگوں کا یہ دستور تھا کہ جب کوئی فوج مقابل فوج سے لڑائی کی استطاعت نہیں رکھتی تو اس سے صلح کرتی اور صلح میں اسے ہر وہ شرط ماننی پڑتی جو مقابل فوج رکھ دیتی، لیکن اسلامی فوج کا دستور اس حوالے سے نہایت انسانیت نواز اور مخلوق پرور رہا، لہذا اسلامی فوج نے فلسطینی عیسائیوں پر بغیر کوئی ظالمانہ شرط مسلط کئے نہایت آسان اور سہل آمیز صلح نامہ پیش کیا، تاریخ کے امام حضرت علامہ ابن جریر طبری اور دیگر مؤرخین نے صلح نامے کے الفاظ یوں نقل فرمائے ہیں:

”یہ وہ امان ہے جو خدا کے غلام امیر المومنین عمرؓ نے ایلیا کے لوگوں کو دی، یہ امان ان کی جان مال، گر جا، صلیب نتندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لیے ہے، نہ ان کے گر جاؤں میں سکونت کی جائے گی اور نہ وہ ڈھائے جائیں گے، نہ ان کو یا ان کے احاطے کو کوئی نقصان پہنچایا جائے گا، نہ ان کی صلیوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی ، مذہب کے بارہ میں ان پر جبر نہ کیا جائے گا، نہ ان میں کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا، ایلیا میں ان کے ساتھی یہودی نہ رہنے پائیں گے، ایلیا والوں پر فرض ہے کہ وہ اور شہروں کی طرح جزیہ دیں، اور یونانیوں کو اپنے یہاں سے نکال دیں، ان یونانیوں میں سے جو شہر سے نکلے گا، اس کی جان اور مال کی اس وقت تک حفاظت کی جائے گی جب تک وہ اپنی جائے پناہ پر نہ پہنچ جائے اور ان میں سے جو ایلیا ہی میں سکونت اختیار کرنا چاہے، اس کے لیے بھی امن ہے، اس کو ایلیا والوں کی طرح جزیہ دینا ہوگا، ایلیا والوں میں سے جو شخص اپنی جان و مال لے کر یونانیوں کے ساتھ نکل جانا چاہے وہ بھی اور ان کے گرجے اور صلیب مامون ہیں، تا آنکہ وہ اپنی جائے پناہ تک نہ پہنچ جائیں ، اس تحریر پر خدا، رسول، خلفاء اور مسلمانوں کا ذمہ ہے، بشرطیکہ یہ لوگ مقررہ جزیہ ادا کرتے رہیں، اس پر خالد بن ولید، عمرو بن العاص، عبد الرحمن بن عوف اور معاویہ بن ابی سفان رضی اللہ عنہم گواہ ہیں 17 ہجری میں یہ معاہدہ لکھا گیا“ تاریخ طبری/ج5/ص420]:تاریخ الامم الاسلامیۃ/ج2/ص8]


اور یوں۔۔۔ تاریخ کے ایک طویل عرصے پر محیط، اقتدار و انتزاع کی سفاک اور خوں ریز کشاکش کے بعد، اہلِ توحید کی یہ مقدس زمین اہلِ توحید اور اصل وارثین کی زیر نگرانی آگئی! خلافتِ فاروقی نے فلسطین کے لئے ایک عادلانہ نظام اور مساواتی آئین مرتب فرمایا جسمیں تمام مکینِ فلسطین کو یکساں شہری حقوق فراہم کئے گئے؛

صلیبی تحریک اور بیت المقدس پر عیسائی قبضہ

خلافتِ راشدہ میں دنیائے عیسائیت کو اسلام اور اہل اسلام سے جو بدترین ہزیمت پہنچی تھی، اسکے انتقام کی آگ اندر ہی اندر کسی آتش فشاں کی مثل سلگ رہی تھی، لیکن ایک کے بعد ایک مضبوط اسلامی سلطنتیں، دنیائے عیسائیت کی راہ میں ناقابل تسخیر دیوار بن کر کھڑی ہوجاتیں، پہلے خلافت راشدہ، پھر خلافت اموی، پھر خلافت عباسی، پھر سلطنت سلجوقی، دنیائے عیسائیت اور بیت المقدس کے درمیان ایک سنگ گراں کی طرح حائل رہیں، لیکن عیسائیوں اور انکے حلیفوں نے ہمت نہ ہاری، چناں چہ راہبوں کی ایک جماعت نے بیت المقدس کی فتح یابی کے لئے دنیائے عیسائیت کو بھڑکایا انکے مذہبی جذبات کے ساتھ چھل کرکے انہیں آگ بگولہ کیا، اسکے لئے باقاعدہ ایک تحریک چھیڑی جسے تاریخ میں 'صلیبی تحریک اور صلیبی جنگ' کہتے ہیں، اس تحریک کے دوران صلیبی رہنماؤں نے صلیب کے نام پر دنیائے عیسائیت کو ایک پرچم تلے جمع کیا، اور اپنی قوم کو مشتعل و برانگیختہ کرنے کے لئے اسلام اور اہل اسلام کے خلاف بدترین نوعیت کے پروپیگنڈے کئے، تحریک میں شامل ہونے کو جنت کی ضمانت، بلندی کا سبب اور بخشش کا ذریعہ قرار دیا، مؤرخین نے لکھاہے کہ صلیبی تحریک کے دوران دنیائے عیسائیت کا جوش و خروش اس قدر بڑھ گیا تھا کہ عیسائی عوام اپنی زمین، جائداد اور زیورات وغیرہ جنگی خرچ کے لئے عطیہ کرتے، دنیا کے مختلف ملکوں سے آ آکر تحریک میں حصہ لیتے، مولانا اسماعیل ریحان صاحب لکھتے ہیں: ”تاریخ یورپ میں اس قدر متنوع نسلوں اور مختلف زبانوں پر مشتمل لشکر کشی کی کوئی مثال نہیں ملتی، صلیبیوں کی خیمہ گاہ میں فرانس، جرمنی، آسٹریا، اسکنڈے نیویا، جنیوا، پیزا، اٹلی، وینس، سلی ، ڈنمارک، فریز لینڈ اور ہالینڈ سمیت بیسیوں ملکوں اور قوموں کے افراد یکجا نظر آتے تھے“

سلطان صلاح الدین ایوبی/ج2/ص447]

صلیبی تحریک کی اس منظم اور پیہم کوشش کے نتیجے میں آخر وہ گھڑی آن پہنچی جس گھڑی کا دنیائے عیسائیت کو صدیوں سے انتظار تھا، 1095ء سے شروع ہونے والی صلیبی جنگیں 1099ء آتے آتے اہل توحید کے اس مقدس شہر تک پہنچ گئیں، آخر کار 23  شعبان 492ھ مطابق 15 جولائی 1099ء کو، یہ شہر دوبارہ عیسائیوں کے دستِ چنگیزی کی نذر ہوگیا، پھر صلیب کے نام پر دنیائے عیسائیت نے فلسطین کی زمین پر ظلم و غارتگری، قتل و خون اور سفاکیت کا وہ ننگا ناچ کیا کہ جسے پڑھ اور سن کر انسانی تاریخ کانپ جاتی ہے، چنگیزیت و فروعنیت دنگ رہ جاتی ہے اور حیوانیت و بربریت آنکھیں موندھ لیتی ہے! مؤرخ علامہ ابن اثیر اور دیگر مؤرخین نے لکھاہے کہ صرف مسجد اقصی کے مقدس احاطے میں ستر ہزار مسلمانوں کو قتل کیا گیا، جسمیں اکثر تعداد علماء و مشائخ کی تھی [:ابن اثیر/ج10/ص98] بیت المقدس پر قبضہ کے بعد صلیبیوں نے جس وحشت و درندگی کا ثبوت دیا اس پر انہیں یورپ کے انصاف پسند مؤرخین نے بھی خوب ملامت کی، سچ تو یہ ہے کہ صلیبی تحریک، اہل یورپ کی پیشانی پر ایک ایسا بدنما داغ ہے، جسے دھویا نہیں جاسکتا؛

صلیبیوں سے بیت المقدس کی دوبارہ فتح

اہل صلیب نے بیت المقدس پر تسلط قائم کرنے کے بعد مسلمانوں اور یہودیوں کے ساتھ یکساں ظلم و ستم جاری رکھاتھا، بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ انکا رویہ بالکل غیر انسانی رہا، انہوں نے عہد فاروقی میں کئے گئے احسانات کا بدلہ یوں چکایا کہ مسلمان مرد و عورت کے مقتول اجسام کو بھٹیوں میں جھونکا اور  شاہ راہوں پر لٹکایا! لیکن دنیائے عیسائیت کی یہ شیطنت زیادہ قرار نہ پاسکی۔۔۔ ایک طرف شیطان اپنی ظاہری فتح اور اہل توحید کی شکست پر خوش تھا، تو دوسری جانب، خالق کائنات کی حکمت ساز قدرت، زنگی خاندان کی آغوش میں ایک انقلاب کی پرورش کررہی تھی، وہ انقلاب جو مستقبل میں اہل صلیب پر قیامت بن کر ٹوٹنے والاتھا، اور اہل توحید کے مقدس شہر کو آزاد کرنے والا تھا، جس انقلاب کو ہماری تاریخ سلطان صلاح الدین ایوبی کے نام سے جانتی ہے، چناں چہ ایک خوں ریز جنگ میں دنیائے عیسائیت کی متحدہ افواج کو سلطان نے عبرت ناک شکست دے کر 27 رجب 583ھ مطابق ستمبر 1187ء کو بیت المقدس دوبارہ فتح کیا [:ابن اثیر/ج11/ص207] اور اس طرح 91 سال بعد اہل صلیب کے سفاکانہ اور ظالمانہ تسلط سے آزاد ہوکر بیت المقدس دوبارہ اہل توحید کے سایۂ عاطفت میں آگیا؛

صہیونی تحریک اور بیت المقدس پر سہ بارہ قبضہ

ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ یہود و نصارٰی کی فلسطین اور بیت المقدس سے نسبی وابستگی ہے، لیکن قانونی طور پر اس سرزمین پر مالکانہ حق یہود و نصارٰی کا نہیں اسلئے کہ یہود و نصاری نے اسلام کو چھوڑ کر خود ساختہ مذہب اختیار کرلیاہے، صاف صاف شرک اور واضح کفر میں مبتلاء ہیں! پھر انکی انبیاء سے کیا نسبت؟ قانونی طور پر انبیاء کے وارث صرف اور صرف مسلمان ہیں! فلسطین کے تعلق سے یہود و نصاری کے دعوے محض بے اصل، رقیبانہ چشمک، بغض و عداوت اور اسلام دشمنی پر مبنی ہیں، چناں چہ عہد فاروقی ہی سے یہود و نصاری بیت المقدس کی تاک میں ہیں جسکا سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے، ماضی بعید کے کچھ اوراق آپ کے سامنے بیان کئے گئے جسمیں خاص طور پر صلیبی تحریک ہے، اب ماضی قریب کے  کچھ صفحات بھی ملاحظہ فرمائیں۔۔۔ صلاح الدین ایوبی کی فتح کے بعد سے فلسطین اور بیت المقدس مسلمانوں کے ہی زیر نگیں تھے، خلافت عثمانیہ کے خلفاء نے بیت المقدس کی حفاظت میں خاص دلچسپی لی، اور حفاظت کا حق بھی ادا کیا، ہم اوپر بیان کر آئے ہیں کہ فاروق اعظم کے زمانے میں عیسائیوں سے جو معاہدہ ہوا اسمیں یہ عہد بھی تھا کہ عیسائی آئندہ کبھی بھی یہودیوں کو بحیثیت شہری فلسطین یا بیت المقدس میں آباد نہیں ہوں نے دیں گے، چناں چہ خلافت عثمانیہ جب تک مضبوط رہی یہودی فلسطین میں آباد نہیں ہو پائے، لیکن اٹھارویں صدی کے اواخر میں جب خلافت میں کچھ زوال کے آثار نظر آئے تو یہودیوں کی دیرینہ تمنا جاگ اٹھی اور انہوں نے باقاعدہ ایک تحریک چھیڑی، جسکا مقصد فلسطین میں یہودیوں کو آباد کرنے کی راہ ہموار کرنی تھی، تاکہ وہ اس حکمت سے اپنے لئے ایک مستقل ملک قائم کرنی کی راہ نکال سکیں، یہ تحریک صلیبی تحریک کے نظریات سے بہت حد تک متاثر نظر آتی ہے، دوسرے لفظوں میں یہ تحریک صلیبی تحریک کی دوسری شکل تھی، بس فرق اتنا تھا کہ صلیبی تحریک سے صرف عیسائیوں کے اغراض وابستہ تھے، جبکہ صہیونی تحریک میں دونوں کے اغراض مشترک تھے، اس تحریک کو صہیونیت ZIONISM کہتے ہیں، جسکا بانی مشہور یہودی ادیب اور دانشور 'تھیوڈور ہرزل' Theodor Herzl ہے، جسنے انیسویں صدی کے آخر میں صہیونیت یعنی قیام اسرائیل کا نظریہ پیش کیا اور قیام اسرائیل کے لئے ایک نہایت منظم اور مربوط آرگنائزیشن بنائی، صہیونیت کی ایک دوسرے بڑے لیڈر 'نہم سکولو' Nahum Sokolow نے اس تحریک کی باقاعدہ تاریخ مرتب کی ہے، جو History of zonisam کے نام سے معروف ہے، اس کتاب میں ایک یہودی پادری کا خط نقل کیا گیا ہے جسمیں اس یہودی پادری نے حکومت برطانیہ کو اپنے نسلی اور مذہبی رشتے کا حوالہ دیکر عیسائی دنیا کو صہیونیت سے وابستہ ہونے کی نہایت پرجوش دعوت دی ہے، اسلئے کہ یہ عالمی سطح کی تحریک بدوں دنیائے عیسائیت کی معاونت کے پایۂ تکمیل کو پہنچنی مشکل تھی، چناں چہ نہم سکولو نقل کرتا ہے: “should we be unmindful of that land with which our past glory and future hope are inseparably connected?”


[: History of zonisam/:p242]


یہودی پادری عیسائیوں کو قیام اسرائیل کی پرجوش اور اشتعال انگیز دعوت دیتے ہوئے کہتاہے : کیا ہمیں[ یہود و نصاری کو] اس سرزمین سے بے خبر رہنا چاہیے؟ جس سے ہماری ماضی کی شان اور مستقبل کی امیدیں وابستہ ہیں؟ 


القصہ۔۔۔ یہود و نصاری کے خفیہ گٹھ جوڑ اور درپردہ سازش سے، صہیونیت کی یہ فساد آمیز تحریک پروان چھڑتی رہی، قیام اسرائیل کی راہ میں سب سے بڑا روڑا خلافت عثمانیہ تھی، دانشوران صہیونیت نے اس دیوار کو اپنی راہ سے ہٹانے کی ٹھان لی، پہلے یہودیوں نے دنیائے عیسائیت کو اس بات پر بھڑکایا کہ ہم دونوں مل کر خلافت عثمانیہ کے خلاف پلان تیار کرتے ہیں جسمیں عیسائی دنیا مال و دولت خرچ کرے گی اور یہودیوں کو فنڈ فراہم کرے گی اور یہودی اس تحریک کی تنظیم و ترتیب کریں گے، اور جب خلافت عثمانیہ بکھر جائے گی تو عیسائی حکومت ہمارے لئے فلسطین میں آباد ہونے کی راہ بنائے گی تاکہ یہودیوں کا ایک باقاعدہ ملک بن سکے! اور دنیائے عیسائیت کی برباد شدہ سطوےت لوٹ آئے! یہود و نصاری کا یہ تخریب آمیز اور انقلاب انگیز عزم حرف بحرف پورا ہوا، یہود و نصاری نے خلافت عثمانیہ کو منتشر کرنے اور اہل توحید کی سیاسی قوت ختم کرنے کے لئے دنیا میں پہلی جنگ عظیم چھیڑی جسمیں ایک طرف امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور اٹلی تھے، اور دوسری طرف خلافت عثمانیہ، بلغاریہ، آسٹریا اور جرمنی تھے، کہنے کو تو جرمنی اور عرب ممالک خلافت کے ساتھ تھے، لیکن در اصل اندر اندر سب کے سب ایک تھے، تنہا صرف خلافت عثمانیہ تھی! یہود و نصاری نے عربوں کو آزاد سلطنت دلوانے کی لالچ دے رکھی تھی، چناں چہ اہل عرب نے اقتدار کی ہوس میں قومیت کو پس پشت پھینک دیا اور دشمنان اسلام سے اپنے سیاسی اغراض وابستہ کرلئے، پھر ہوا وہی جو نہیں ہونا چاہیے تھا! عالم اسلام کے منظر نامے پر صہیونیت کا خواب شرمندۂ تعبیر بن کر ابھرا اور یہودیت کی دیرینہ آرزو تکمیل کی سرحد تک آگئی، واقعہ یوں ہوا کہ ۔۔۔پہلی جنگ عظیم 28 جولائی 1914ء سے 11 نومبر 1918ء تک جاری رہی، جسکے نتیجے میں خلافت عثمانیہ پوری طرح منتشر ہوگئی، اور مسلمانوں کا سیاسی زوال شروع ہوگیا، دیکھتے دیکھتے وہ تمام ممالک دولت و ثروت اور طاقت و قوت میں کھیلنے لگے جنہوں نے خلافت کے خلاف سازشیں رچی تھیں، خلافت عثمانیہ کے بکھرے ہوئے علاقوں کو دشمنان اسلام نے آپس میں تقسیم کرلیا، فلسطین برطانیہ کے حصے میں آیا اور عیسائیوں نے یہودیوں سے کئے گئے وعدے کے مطابق، فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کا اعلان کردیا جسے تاریخ میں 'اعلان بالفور' کہا جاتاہے، جنگ عظیم کے دوران ہی برطانیہ کی وزارت خارجہ سے اسرائیل کے ہونے والے صدر کے نام باقاعدہ ایک خفیہ خط لکھا گیا تھا جسکا انکشاف بعد میں ہوا اور دنیا نے یہود و نصاری کی خفیہ سازش کو ملاحظہ کیا، اس خفیہ خط کی عبارت کچھ یوں تھی:

Foreign Office,

November 2nd, 1917.

Dear Lord Rothschild,

I have much pleasure in conveying to you, on behalf of His Majesty's Government, the following declaration of sympathy with Jewish Zionist aspirations which has been submitted to, and approved by, the Cabinet

His Majesty's Government view with favour the establishment in Palestine of a national home for the Jewish people, and will use their best endeavours to facilitate the achievement of this object. it being clearly understood that nothing shall be done which may prejudice the civil and religious rights of existing non-Jewish communities in Palestine, or the rights and political status enjoyed by Jews in any other country"

I should be grateful if you would bring this declaration to the knowledge of the Zionist Federation.


یہ محض ایک خط نہیں بلکہ یہود و نصاری کی اس عالمی سازش کا کھلا ہوا ثبوت اور دنیائے عیسائیت کی دو رنگی، جھوٹ، فریب اور ظلم و استبداد کا ایک تاریخی دستاویز ہے! 

جب دنیا سے ایک بڑی سیاسی طاقت  یعنی خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو دنیا کی پشت پر دوسری طاقت ابھرنی تھی، اسلئے کہ روز اول سے دنیا کا یہی اصول رہاہے، چناں چہ امریکہ کی شکل میں خدا کی زمین پر ایک تازہ عالمی طاقت نمودار ہوئی اور یہ طاقت یکبارگی نہیں بلکہ یہود و نصاری کی مسلسل تحریک کے صلے میں نمودار ہوئی جن تحریکوں کا تذکرہ اوپر کی سطور میں ہوتا رہاہے، یہود و نصاری کے عزائم کے استحکام اور انکے نظریات کے انتظام کے لئے ابھی مزید طاقت اور مزید تجدید کاری کی ضرورت تھی، چناں چہ اس ضرورت کی تکمیل کے لئے جنگ عظیم پھر دہرائی گئی، 1939ء تا 1945ء تک دوسری جنگ عظیم ہوئی اور یہ جنگ تاریخ انسانی کی سب سے بدترین جنگوں میں سے ایک تھی! اس جنگ کے بعد امریکہ باقاعدہ طور پر اپنے آپ کو سپر پاور کہلوانے میں کامیاب ہوگیا، اور یہود و نصاری کی تحریک یعنی صہیونیت اور قدیم صلیبی تحریک میں کچھ جدید عزائم اور نئے اغراض شامل کرکے یہودیت و عیسائیت کی تحریک کو ایک تازہ شکل دی گئی اور اسکا نام 'اقوام متحدہ' رکھا گیا! چناں چہ جس دن سے آفتاب کی شعاؤں نے اقوام متحدہ کو دیکھا ہے اس دن سے کوئی دن ایسا نہیں ڈوبا کہ جب  اقوام متحدہ نے صہیونیت و صلیبیت کے مفادات سے پرے کوئی اقدام کیا ہو! اسکی نگاہ میں ہر وہ تحریک دہشت گردی ہے جو تحریک صہیونیت و صلیبیت کے نظریات سے ٹکراتی ہو! اور ہر وہ دہشت گردی، جمہوریت و انسانیت ہے جو یہود و نصارٰی کے مفادات پر کھری اترتی ہو! آپ اوپر پڑھ آئے ہیں کہ 1917ء میں برطانیہ نے فلسطین میں یہودیوں کو آباد کرنا شروع کردیا تھا، 1948ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی زمین پر ایک تازہ ملک کا قیام باقاعدہ طور پر تسلیم کرلیا، تسلیم کر کیا لیا بلکہ عالم انسانیت سے تسلیم کرا لیا اسلئے کہ دو عالمی جنگوں کے بعد اب کوئی طاقت امریکہ اور اسکے حواریوں سے بغاوت کرنے کا دم خم نہیں رکھتی تھی! اور اس طرح دن کے اجالے میں دنیا کی آنکھوں کے سامنے صلیبیوں اور صہیونیوں نے بیت المقدس ہی نہیں بلکہ تقریبا پورے فلسطین پر ظالمہ اور غاصبانہ تسلط قائم کرلیا، مذہبی اور سیاسی جذبات سے سرشار، مقاصد میں پر عزم اور ارادے میں مضبوط یہود و نصاری اپنے مفادات کو پہنچ گئے! اور اقتدار و اختیار کی ہوس میں مبتلاء عربی قوم اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی مقدس زمین کی بے حرمتی اور اپنی قوم کا قتل عام، پوری جسارت اور مکمل بے شرمی کے ساتھ دیکھتی رہی، جسکا سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔۔۔ صلیبی تحریک کا سنگین قلعہ ڈھانے کے لئے پروردگار عالم نے صلاح الدین ایوبی جیسا مجاہد پیدا کیا تھا، اور ہمیں یقین ہے کہ صہیونیت کا یہ قلعہ بھی مسمار کرنے والا کوئی ضرور پیدا ہوگا، مگر فی الحال تو ہمیں اپنوں اور غیروں کے ظلم و غارتگری کا تماشا کرنا ہی ہوگا، اسلئے کہ عرب و عجم کی ساری دنیا صہیونیت کے پنجۂ استبداد میں سراپا جکڑی ہوئی ہے، تہذیب، کلچر، زبان، سیاست، معیشت، تعلیم، ٹیکنالوجی الغرض انسانی دنیا کا کوئی ایک عنصر نہیں جو صہیونیت سے مرعوب نہ ہو، اس حقیقت کا انکشاف اقبال مرحوم نے اپنے انداز میں یوں کیا تھا کہ :

تری دوا نہ جنیوا میں ہے ، نہ لندن میں 

فرنگ کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے

دنیا یہ تو جانتی ہے کہ اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضہ کیا ہوا ہے، لیکن دنیا اس ناقابل انکار حقیقت سے یکسر نا آشنا ہے کہ اسرائیل نے صرف بیت المقدس پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیائے انسانی پر قبضہ کر رکھاہے، بیت المقدس کی آزادی در اصل پوری دنیا کی آزادی ہے

:ابن عطاءاللہ بنارسی/13 نومبر2023ء

Post a Comment

0 Comments