حسام الحرمین کو ماننے سے بریلویوں کا انکار

 فاضل بریلوی کے ایک عقیدت مند کا حسام الحرمین سے انحراف

حسام الحرمین کا انکار

    ابو سعد لئیق رحمانی   

   یہ بھی رضاخانیوں کا بدترین جھوٹ ہے کہ جن بزرگوں نے تکفیر کے باب میں خان صاحب بریلوی کی موافقت نہیں کی یا علماء دیوبند کی توثیق کی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان بزرگوں کے سامنے حسام الحرمین یا کفریہ عبارتیں پیش نہیں ہوئی۔ جب بھی ہم اکابر علماء دیوبند کی توثیق پر کسی مسلم بین الفریقین بزرگ کا حوالہ پیش کرتے ہیں تو رضاخانی حضرات یہی جواب دیتے ہیں، بلکہ رضاخانی غزالی زماں احمد سعید کاظمی نے تو الحق المبین میں یہاں تک لکھ مارا کہ:

   ”ہمارے مخالفین میں سے آج تک کوئی شخص اس امر کا ثبوت پیش نہیں کرسکا کہ فلاں مسلم بین الفریقین بزرگ کے سامنے علماء دیوبند کی عبارات متنازعہ فیھا پیش کی گئیں اور انہوں نے ان کو صحیح قرار دیا یا تکفیر سے سکوت فرمایا“ـ (الحق المبین: ص ۵۶، دعوت اسلامی)

  اگرچہ اہل حق کی طرف سے اس ڈھکوسلے کے کئی جوابات، دست و گریباں جلد چہارم، کشف الخداع جلد اول وغیرہ میں دیے جا چکے ہیں۔ مگر یہاں ہم ایک ایسی شخصیت کو پیش کر رہے ہیں جو خان صاحب بریلوی کے نہایت قریبی تھے اور خان صاحب سے اظہار نسبت کے لیے اپنے نام کے ساتھ ”الرضوی“ بھی لکھتے تھے، انہوں نے حسام الحرمین کو دیکھا مطالعہ کیا مگر علماء دیوبند کو مسلمان ہی مانا ـ وہ شخصیت مفسر قرآن حضرت مولانا زاہدالحسینی صاحب مرحوم کے والد محترم حضرت مولانا قاضی غلام جیلانی رحمتہ اللہ علیہ ہیں ـ

   ان کا تعارف کراتے ہوئے رضاخانی مفتی محمد امین صاحب لکھتے ہیں:

   ”امام احمد رضا خان بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کے حکم پر حضرت مولانا غلام جیلانی نے دھوراجی کاٹھیاواڑ کے مدرسہ فخر عالم میں مدرس کے فرائض انجام دینے شروع کئے....... امام احمد رضا سے آپ کو گہری عقیدت تھی اور بارہا بریلی شریف تشریف لے گئے ـ امام احمد رضا خان بریلوی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک موقعہ پر جب ایک وفد علماء ندوۃ سے بات چیت کے لئے لکھنؤ بھیجا تو اس میں حضرت مولانا قاضی غلام جیلانی بھی شامل تھے ـ 

   اعلی حضرت سے اظہار نسبت کے لئے مولانا غلام جیلانی اپنے نام کے ساتھ ”الرضوی“ تحریر فرماتے تھے ـ امام احمد رضا رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت مولانا قاضی غلام جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے درمیان مراسلت سے تعلقات کی گہرائی کا بخوبی اظہار ہوتا ہے“ـ (عقیدہ ختم النبوۃ: ج ۷، ص ۱۱ ـ ۱۲)

  خان صاحب بریلوی سے اس قدر قربت عقیدت محبت کے باوجود قاضی غلام جیلانی رحمہ اللہ نے علماء دیوبند کی تکفیر کے سلسلہ میں حسام الحرمین کی تائید نہیں فرمائی ـ حالانکہ حسام الحرمین آپ کے پیش نظر تھی جیسا کہ مرزا ملعون قادیانی کے ایک شعر کا رد کرتے ہوئے قاضی صاحب اپنی کتاب ”تیغ غلام گیلانی“ میں رقم طراز ہیں کہ:

   ”اس بیت خبیث کے سبب سے فاضل بریلوی مجدد ماتۂ حاضرہ مولانا اعلیٰ حضرت احمد رضا خان صاحب نے مرزا پر اپنی کتاب مستطاب ”حسام الحرمین“ میں حکم کفر و ارتداد فرمایا جس کی حظیت کی وجہ سے علمائے مکہ و مدینہ زادھما اللّہ شرفا و کرامۃ وغیرہ کے نامی نامی بزرگان دین نے اس مرزا کے کفر پر مہریں کردیں جن حضرات کی تعداد چالیس (۴۰) تک ہے“ـ (تیغ غلام گیلانی: ص 27، مشمولہ عقیدہ حتم النبوۃ، ج 7، ص 41) 

  اس عبارت سے پتہ چلا کہ حسام الحرمین آپ کے سامنے تھی؛ مگر اس کے باوجود علماء دیوبند سے آپ کی عقیدت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ آپ نے اپنے فرزند عبدالحق کو دارالعلوم دیوبند پڑھنے کے لیے بھیجا تھا ـ (عبدالحق صاحب مرحوم ۱۹۲۲ ـ ۲۳ء میں دوران طالب علمی وہاں سے علیل ہوکر لوٹے اور وفات پا گئے ـ ملاحظہ ہو، حیات مستعار: صفحہ ۶۳)

واضح رہے کہ قاضی صاحب کی یہ کتاب جس میں حسام الحرمین کا ذکر کررہے ہیں ”تیغ غلام گیلانی“ ۱۹۱۱ء میں شائع ہوئی اور فرزند عبدالحق صاحب کا انتقال ۱۹۲۳ء میں ہوا، لہزا یہاں یہ بہانہ نہیں چل سکتا کہ فرزند کو تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند بھیجنے کا واقعہ حسام الحرمین دیکھنے سے پہلے کا ہوگا ـ

   اس کے علاوہ دیوبندی علماء دین سے قاضی صاحب رحمہ اللہ کی عقیدت کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ موصوف نے اپنی کتاب ”جامع التحریر فی حرمۃ الغناء والمزامیر“ میں مولانا کرامت علی جونپوری رحمتہ اللہ علیہ کے فرزند حضرت مولانا عبدالاول جونپوری رحمتہ اللہ علیہ کی تقریظ کس عقیدت و احترام کے ساتھ درج فرمائی ہے ـ قاضی صاحب کے الفاظ ملاحظہ ہو: 

   ”تقریظ جناب مستطاب عالم علم دین ہادی المسلمین منبع العلم والکرم حضرت مولانا عبدالاول صاحب جونپوری دام بالفیض المعنوی والصوری“- (ملاحظہ ہو، مجموعہ مواہیر: ص 4) 

  القابات پر غور فرمائیں ”عالم علم دین، ہادالمسلمین“ـ


   علاوہ ازیں قاضی صاحب مرحوم خان صاحب کے عقیدت مند ہونے کے باوجود ”دیوبندی شیخ طریقت“ سے بیعت ہوئے، مفتی محمد امین رضاخانی لکھتے ہیں:

  ”قاضی صاحب سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں سراج الاولیاء حضرت خواجہ محمد سراج الدین رحمتہ اللہ علیہ ۱۳۳۳ھ سجادہ نشین خانقاہ احمدیہ سعیدیہ موسیٰ زئی شریف ڈیرہ اسمعیل خان کے مرید و خلیفہ تھے“ـ (ایضاً: ص ۱۱)

   حضرت خواجہ سراج الدین رحمتہ اللہ علیہ کو مولوی حسن علی رضوی نے ”وہابی دیوبندی“ قرار دیا ہے، ملاحظہ ہوں (محاسبۂ دیوبندیت: ج ۱، ص ۴۰۶ ـ ۴۰۷)

حضرت خواجہ سراج الدین رحمتہ اللہ علیہ امام المؤحدین حضرت مولانا حسین علی واں بچھراں کے بھی پیرومرشد ہیں، گویا قاضی غلام جیلانی رحمہ مولانا حسین علی رحمہ اللہ کے پیر بھائی تھے ـ اب یہاں مولوی حسن علی رضاخانی کا یہ اصول بھی پڑھ لیں، مولانا کرامت علی جونپوری کے متعلق موصوف لکھتے ہیں: 

  ”سید احمد ساکن رائے بریلی کے مرید ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ مولوی اسماعیل قتیل کے پیر بھائی تھے ـ بھلا وہ اپنی ذرّیت پر کس طرح فتوی دیتے؟“ (محاسبۂ: ج ۱، ص ۳۹۵)

لہزا قاضی صاحب بھی مولانا حسین علی واں بچھراں کے پیر بھائی تھے تو وہ ((اپنی ذریت)) علماء دیوبند پر کس طرح فتویٰ دیتے ـ؟ 

   واضح رہے کہ قاضی صاحب رحمہ اللہ گستاخانِ رسول کے لیے کوئی نرم رویہ بھی نہیں رکھتے تھے، بلکہ آپ نے ابن حزم کا رد ہی اس بنیاد پر کیا کہ وہ گستاخان رسول کی تکفیر نہیں کرتا ـ چنانچہ لکھتے ہیں کہ:

    ”دوم یہ کہ ابن حزم اگر حیات عندالرفع کا قائل نہ بھی ہو تب بھی کوئی ضرر نہیں اس واسطے کہ ابن حزم فاسدالعقیدہ بدمذہب ہے .... وہ اسکا قائل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان پاک میں کسی قسم کی بے ادبی کرنے والا کافر نہیں ہوتا ـ حالانکہ (گستاخ رسول کے) کفر پر کل امت کا اجماع ہے سوائے ابن حزم کے ـ در مختار وغیرہ میں ہے کہ جو کوئی شخص حضرت کی شان میں بے ادبی کرنے والے کے کفر میں شک کرے وہ کافر ہے“- (جواب حقانی در رد بنگالی قادیانی: ص 84, مشمولہ عقیدہ ختم النبوۃ، ج 7، ص 282)

  مگر اس کے باوجود قاضی صاحب نے علماء دیوبند کی تکفیر میں خان صاحب بریلوی کی تائید نہیں فرمائی اور علماء دیوبند کے ساتھ عقیدت و محبت بلکہ بیعت و خلافت کا معاملہ کیا ـ تو اب اس صورت میں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر واقعی علماء دیوبند کی تحریروں میں کوئی بات کفر کی حد تک غلط ہوتی تو یہ بزرگان دین کبھی خاموش نہ بیٹھتے، خان صاحب بریلوی کی انتہا پسندی پر ان بزرگان دین کا رد عمل اس حقیقت کی منہ بولتی تصویر ہے کہ خان صاحب کی جانب سے علماء دیوبند پر لگائے گئے سب الزامات در اصل ان حضرات علماء دیوبند کی انگریز دشمنی کا سیاسی جواب تھے ـ

Post a Comment

0 Comments