المھند علی المفند پر اعتراض کا جواب
کمال التثقیف پر میثم عباس رضوی کو جواب
✍️از۔ ابو سعد لئیق رحمانی
قارئین کرام! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خان نے "حسام الحرمین" میں دھوکا و فراڈ کرکے علماء حرمین شریفین سے تصدیق حاصل کی تھی، ان مصدقین میں مفتی شافعیہ علامہ سید احمد برزنجی بھی شامل تھے مگر جب ان پر حق واضح ہوا تو انہوں نے اپنے مؤقف سے رجوع کرتے ہوئے حسام الحرمین کے جواب میں لکھی گئی کتاب "المہند علی المفند" کی تائید میں مستقل ایک رسالہ "کمال التثقیف" لکھا تھا۔
اس سلسلہ میں میثم عباس قادری صاحب نے چند اعتراضات اٹھائے ہیں نمبر وار اعتراض مع جوابات ملاحظہ فرمائیں۔
اعتراض نمبر۱: یہ ہے کہ ”بقول دیوبندیہ "کمال التثقیف" ان کی تائید میں ہے تو آج تک اس کو شائع کیوں نہیں کیا؟
جواب : "کمال التقثیف" ہماری تائید میں ہے یا نہیں؟ اس پر میں عبید رضاخانی کو باحوالہ مسکت و مدلل جواب دے چکا ہوں، پوسٹ کا لنک آخر میں درج کر رہا ہوں ملاحظہ فرمالیں۔
باقی رہی یہ بات کہ تائید میں تھی تو شائع کیوں نہ کرائی؟ تو جواباً عرض ہے کہ "حسام الحرمین" کی اشاعت میں تاخیر کے متعلق خود میثم صاحب لکھتے ہیں کہ :
”۱۳۲۵ھ میں اس کا اردوتر جمہ مکمل ہونے کے بعد عین ممکن ہے کہ مالی حالات کی وجہ سے یہ کتاب ۱۳۲۵ھ میں شائع نہ ہو سکی ہو۔ کاتب کی جانب سے بھی تاخیر ہوسکتی ہے ۔ تاخیر کی دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں“۔ (المہند اور اعلیٰ حضرت: ص)
پس ہماری طرف سے بھی ایسے ہی احتمالات قبول کرلیں کہ ہوسکتا ہے مالی حالات کی وجہ سے اب تک یہ کتاب شائع نہ ہوسکی ہو۔ یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے اکابر نے اشاعت کے لیے کسی کاتب کو دی ہو اور وہ کاتب تقیہ باز بریلوی ہو اور خان صاحب بریلوی کا مرید ہو تو اس نے کتاب ہی ضائع کردی ہو۔ اگر میثم صاحب یہ کہیں کہ مالی حالات وجہ تھی تو "غایۃ المامول" کیسے شائع ہوئی؟ تو جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے جس وقت "غایۃ المامول" شائع کرائی گئی اس وقت مالی حالات ٹھیک ہوں۔ کمال التقثیف کی اشاعت نہ ہونے کی دیگر بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہے۔ مگر یہ کہنا کہ دیوبندیوں کے خلاف تھی اس لیے شائع نہ ہوئی بالکل لغو اور فضول بات ہے۔ کیونکہ اگر یہ کتاب ہمارے خلاف ہوتی تو خان صاحب بریلوی تک اس کی نقل پہنچ چکی تھی وہ ضرور اس کی اشاعت کرواتے یا اس کے حوالے ہمارے خلاف پیش کرتے مگر ایسا نہیں ہوا لہذا یہ اس بات کی بین دلیل ہے کہ یہ کتاب ہماری حمایت ہے ورنہ بتاؤ کہ خان صاحب بریلوی نے اس کی اشاعت کیوں نہ کرائی؟ اس کے حوالے کیوں نہ پیش کیے؟؟؟
اعتراض نمبر ۲: یہ ہے کہ "النعمۃ الکبریٰ" مطبوعہ حقیقت کتابوی ترکی کے ساتھ "کمال التثقیف" کا جو خلاصہ شائع کیا گیا ہے اس میں میلاد شریف پر اہل سنت (بریلوی) کی بھرپور ترجمانی کی گئی ہے..... اور اس میں نانوتوی کے مؤقف کا رد بھی کیا گیا ہے۔ اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کیوں دیابنہ نے اس کو آج تک شائع نہیں کیا“۔
جواب: شائع نہ ہو پانے کی وجہ اوپر میں نے بیان کردی ۔باقی رہا میثم صاحب کا یہ کہنا کہ اس میں میلاد کا جواز بیان کیا گیا اور امام نانوتوی کے موقف کا رد کیا گیا اس وجہ سے دیوبندیوں نے شائع نہ کرائی، تو یہ بھی بالکل لغو اور فضول بات ہے۔ کیونکہ "غایۃ المامول" کے متعلق خود بریلویوں کا کہنا ہے کہ اس میں "حسام الحرمین" کی تائید موجود ہے، تو جب بقول بریلویہ ہم "حسام الحرمین" کی تائید والی کتاب چھاپ سکتے ہیں تو جوازِ میلاد اور امام نانوتوی کے مؤقف کی تردید ہمیں کیا نقصان پہنچا سکتے ہیں؟؟؟
ثانیاً: "حسام الحرمین" کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ میلاد وغیرہ کا اختلاف فروعی ہے، اصل اختلاف عبارات کا ہے، امام نانوتوی کے مؤقف کی تردید بھی کوئی معنی نہیں رکھتی کیونکہ یہاں بحث تکفیر و عدم تکفیر کی ہورہی ہے لہزا میثم عباس کو چاہئے کہ وہ "کمال التقثیف" کے خلاصہ سے تکفیر کا ثبوت پیش کریں۔ مگر ثبوت پیش کرتے وقت یہ خیال بھی رکھیں کہ "حسام الحرمین" میں علماء دیوبند کی طرف جو عقائد منسوب کرکے تکفیر کی گئی ہے وہ خود ہمارے نزدیک بھی کفر ہے، لہذا اگر ان عقائد کے کفریہ ہونے کی کوئی تصدیق کرتا ہے تو وہ ہمارے خلاف نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی اس شرط کے ساتھ "حسام الحرمین" کی تصدیق کرے کہ "اگر علماء دیوبند کے عقائد ایسے ہی ہیں جیسا حام الحرمین میں ظاہر کیا گیا ہے تو کافر"۔۔۔تو یہ بھی ہمیں مضر نہیں۔ ہاں اگر کوئی اس طور پر تصدیق کرے کہ میں نے علماء دیوبند کی کتب دیکھی ان کتب میں واقعی یہ کفریہ عقائد موجود ہیں تو وہ ضرور ہمارے خلاف ہوگا پھر ہم اس کا رد کریں گے۔ میثم سمیت تمام رضاخانیوں میں اگر دم خم ہے تو علامہ برزنجی سے ایسی تصدیق دکھائیں ۔ دیدہ باید! مگر ہم جانتے ہیں کہ
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
اعتراض نمبر۳ : یہ ہے کہ ”مولوی ابو ایوب دیوبندی نے اپنی کتاب پانچ سو با ادب سوالات میں ایک مقام پر قارئین کو "کمال التثقیف" کتاب پڑھنے کا کہا ہے سوال یہ ہے کہ جب یہ کتاب مکمل دستیاب ہی نہیں تو کیسے پڑھی جائے؟“
جواب : مولانا ابوایوب قادری صاحب نے قارئین کو نہیں، بریلوی قارئین کو پڑھنے کو کہا ہے مکمل عبارت ملاحظہ ہوں :
”احمد رضا خان صاحب نے دھوکے سے علماء عرب سے دیوبند والوں پر کفر کا فتوی حاصل کیا اور حسام الحرمین کے نام سے ہندوستان میں چھاپا اور مسلسل چھپ رہا ہے۔علماء دیو بند نے علماء عرب سے رابطہ کیا اور ان کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا تو علماء عرب نے اپنے فتوے سے رجوع کیا اور یہ ساری کارگزاری مستقل کتابوں اور رسالوں میں بیان کی مثلاً مطالعہ کریں: غایۃالمعمول، تقثیف الکلام، رجوع المذنبین علی رؤس الشیاطین وغیر ہم ۔ اب علماء عرب کا رجوع ثابت ہے تو بریلوی حضرات یہ بتادیں کہ آپ لوگ کس منہ سے یہ بات کہتے ہو کہ علماء عرب دیو بند والوں کی تکفیر کرتے ہیں؟ آپ لوگ حسام الحرمین میں علماء عرب کا حوالہ دے کر عوام کو کیوں دھوکہ دیتے ہو ؟ (بریلوی علماء و عوام سے پانچ سو با ادب سوالات ص 37-38)
تو یہاں کلام بریلویوں سے ہے کہ یہ کتابیں پڑھیں۔ اور چونکہ "کمال التثقیف" کی نقل فاضل بریلوی کے دو مریدین مولانا سید احمد علی قادری و مولانا کریم اللہ کے زریعے فاضل بریلوی تک پہنچ چکی تھی جیسا کہ لکھا ہے کہ :
”مفتی معزول برزنجی نے جو رسالہ لکھا ہے خلیل احمد کے رسالہ کے جواب میں جو کچھ انکی مدح اور ذم ہے اس کی نقل آپ کو بھیج دی ہے، ملاحظہ عالیہ سے گزری ہوگی۔(علماء عرب کے خطوط فاضل بریلوی کے نام : ص 41)
تو لہذا میثم اور دیگر بریلوی حضرات ہم سے یہ سوال نہ کریں کہ جب کتاب مکمل دستیاب نہیں تو کیسے پڑھی جائے؟ ورنہ ہمارا جواب یہ ہوگا کہ خان صاب بریلوی کے گھر جاکر "کمال التثقیف" تلاش کریں اور پڑھ لیں۔!!!
اب میثم صاحب ہمارے سوال کا جواب دیں
"کمال التثقیف" کے متعلق قاضی فضل احمد لدھیانوی بریلوی لکھتے ہیں کہ :
”وہ اصل رسالہ یہاں ہندوستان میں حلفیہ موجود نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس رسالہ کا کوئی نام لکھا ہے اور نہ عرب یا مصر میں طبع ہوا ہے۔... اور میں کہتا ہوں کہ در اصل وہ کوئی رسالہ ہے بھی یا نہیں؟... اس کا ثبوت کیا ہے کہ واقعی کوئی سید احمد برزنجی صاحب کا رسالہ لکھا ہوا ہے؟“۔ ((انوار آفتاب صداقت: ص 522))
قاضی فضل لدھیانوی صاحب رسالہ "کمال التثقیف" کے وجود پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ جبکہ اوپر حوالہ گزر چکا کہ خان صاحب تک "کمال التثقیف" کی نقل پہنچ چکی تھی اور "انوار آفتاب صداقت" پر فاضل بریلوی کی تقریظ موجود ہے جس میں موصوف نے تصریح کی ہے کہ ”میں نے یہ کتاب خود مصنف کی زبانی بالاستیعاب سنی ہے“۔ ((انوار آفتاب : 65))
تو فاضل بریلوی کی ذمہ داری تھی کہ وہ قاضی فضل احمد کی اصلاح کرتے اور سچ بیان کرتے کہ ہاں یہ رسالہ موجود ہے میرے پاس نقل پہنچی ہے مگر خان صاحب نے ایسا نہیں کیا تو ہمیں بھی کہنے کا حق ہے کہ یہاں خان صاحب کی خاموشی خود اس بات کی عکاسی کررہی ہے کہ رسالہ "کمال التثقیف" دیوبندیوں کی حمایت میں ہے۔ کیونکہ رد میں ہوتا تو خان صاحب قاضی فضل لدھیانوی کے انکار کی تائید نہ کرتے، بلکہ فوراً بول پڑتے کہ ہاں ہاں یہ رسالہ میرے پاس موجود ہے اور اس میں دیوبندیوں کا رد ہے۔!!!
((نوٹ : وہ خط جس میں کمال التثقیف کی نقل فاضل بریلوی تک پہنچنے کا ذکر ہے ۲۴ ربیع الآخر ۱۳۲۹ھ کا ہے جبکہ انوار آفتاب صداقت ۱۳۳۷ھ میں لکھی گئی))
جن کتابوں کے حوالے دیے گئے ہیں ان سب کا اسکین یہ ہیں 👇👇👇👇
0 Comments