کوّا اور فتاویٰ رشیدیہ
کوے کے متعلق فتاویٰ رشیدیہ پر بریلوی اعتراض کا دندان شکن جواب
ضرور پڑھیں ، بند آنکھیں کھل جائیں گی انشاءاللہ
محمد امتیاز پلاموی ، مظاہری
بریلوی یا تو " عبارات اکابرین دیوبند" کے سمجھنے سے قاصر ہیں یا اپنی فطرت سے مجبور جان بوجھ کر غلط بیانی کرتے ہیں۔
سب سے پہلے یہ جان لیں کہ کتب احناف کی تصریح کے مطابق کوے کی تین قسمیں ہیں : (١) صرف دانہ کھانے والا کوا ، یہ بالاتفاق جائز ہے (٢) صرف مردار کھانے والا کوا ، یہ بالاتفاق حرام ہے (٣) خلطی یعنی مردار اور دانہ دونوں کھانے والا کوا ، اس میں اختلاف ہے ہے لیکن راجح قول اسکے حلال ہونے کا ہے ۔ یہی تفصیل بریلوی علماء کی متعدد کتابوں میں بھی موجود ہے ۔
اسی تفصیل کے مطابق علماء دیوبند نے بھی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔
اب اصل موضوع پر آجائیں : جب تین قسموں میں سے دو قسم کے کوے حلال ہیں تو ان کا کھانا بھی جائز ہے ، اب اگر حلال کوے کو بھی کوئی حرام کہے تو حدود شرعی سے آگے بڑھنے والا اور گناہ کرنے والا ہوا ۔
چنانچہ اسی طرح کا ایک سوال حضرت مولانا رشید احمد گنگوھی رحمہ اللّٰہ تعالٰی سے کیا گیا کہ : جہاں پر حلال کوے کو اکثر لوگ حرام جانتے ہوں اور کھانے والوں کو برا بھی جانتے ہوں تو وہاں پر حلال کوے کی حلت بتانے کے لیے حلال کوا کھانے سے ثواب ہوگا یا نہیں؟ یعنی کوا تو حلال ہے اس میں کوئی شک ہی نہیں ، حلال کوے کے متعلق ہی سوال کیا جارہا ہے۔حضرت نے جواب دیا کہ ہاں ثواب ملے گا۔ چنانچہ فتاویٰ رشیدیہ کی پوری عبارات مع سوال و جواب کے ملاحظہ فرمائیں 👇
فتاویٰ رشیدیہ میں کوے کے متعلق جو فتویٰ لکھا ہے اسے ذرا غور سے پڑھیں:
عنوان ہے " حلال کوا کھانا"
اس عنوان سے ہی معلوم ہو گیا کہ سوال یہ نہیں کہ کوا حلال ہے یا حرام ؟ بلکہ جو کوا واقعی حلال ہے اس کے کھانے کے بارے میں سوال ہے۔ سوال کی عبارات ملاحظہ فرمائیں:
سوال: جس جگہ زاغ معروفہ کو اکثر حرام جانتے ہوں ۔
سوال کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ " زاغ معروفہ" یعنی کوا تو حلال ہے ، کچھ لوگ حلال سمجھتے بھی ہیں مگر اکثر لوگ جہالت کی بنا پر ( جیسا کہ اکثر بریلوی اپنے بزرگوں کی کتابوں سے ناواقفیت کی بنا پر دوسروں پر طنز کرتے ہیں) اس زاغ معروفہ یعنی حلال کوا کو حرام سمجھتے ہیں۔
" اور کھانے والوں کو برا کہتے ہوں "
یعنی ایک حلال چیز کو صرف حرام ہی نہیں سمجھتے بلکہ کھانے والوں کو برا بھی سمجھتے ہوں ۔
" تو ایسی جگہ کوّا کھانے والے کو کچھ ثواب ہوگا یا نہ ثواب ہوگا نہ عذاب؟ "
یعنی ظاہر سی بات ہے کہ حلال چیز کو حرام سمجھنا قرآن مجید کے فرمان کے مطابق گناہ ہے ، اور اکثر لوگ حلال چیز کو حرام سمجھنے کی وجہ سے گناہ میں ملوث ہیں تو ایسی جگہ " حلال کوا " کھانا تاکہ سب کو اس کی حلت کا پتہ چل جائے " ثواب ہوگا؟ " یا نہیں؟
تو حضرت گنگوھی رحمہ اللّٰہ تعالٰی نے فقیہانہ شان کے مطابق مختصر جواب دیا کہ :
جواب : ثواب ہوگا۔
ذرا غور فرمائیں کہ سوال کوّے کی حلت و حرمت کے بارے میں ہے یا اس کوے کے بارے میں سوال ہے جو واقعی حلال ہے مگر اکثر لوگ حرام سمجھتے ہیں اور کھانے والوں کو برا جانتے ہیں؟
غور کرنے کے بعد نتیجہ یہی نکلے گا کہ سوال کوے کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں نہیں ہے، سائل کو تو حلال و حرام کا پتہ ہے ، سوال اس کوے کے بارے میں ہے جو حلال ہے لیکن اسے لوگ حرام سمجھتے ہیں۔
اور یہ بات تو " بریلویوں " کے یہاں بھی مسلم ہے کہ کوے کی کچھ قسمیں حلال ہیں ۔
اسکین دیکھیں 👇
یہی سوال ہم بریلوی علماء سے پوچھتے ہیں کہ
" بریلوی اعلیٰ حضرت" نے فتاویٰ رضویہ ، سمیت جن کتابوں میں کچھ کوؤں کو حلال لکھا ہے ، یا دیگر بریلوی علماء نے اپنی کتابوں میں حلت کی وضاحت کی ہے اس کی حلت فقہاء کرام کی کتب متداولہ میں مصرح ہے اسے حرام جاننے والوں کا کیا حکم ہے؟
یا جو چیز حلال ہو اس کو حرام جاننے والوں کا کیا حکم ہے؟
یا جو چیز شرعاً حلال ہو ، مگر اکثر لوگ اسے حرام جانتے ہوں تو وہاں پر اس کی حلت بتانے کے لیے اس کام کو کرنے پر ثواب ہوگا یا عذاب؟ یا نہ ثواب نہ عذاب ؟
0 Comments