شب برأت کی حقیقت و فضیلت | افادات مفتی محمّد تقی عثمانی صاحب

 شب برأت کی حقیقت و فضیلت 

شب برأت کی حقیقت و فضیلت 


 از قلم : محمد امتیاز پلاموی ،مظاہری

افادات: شیخ الاسلام مفتی محمّد تقی عثمانی صاحب 

شب برأت کے متعلق عوام میں بہت ساری غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، بہت سے لوگ شب برات کی فضیلت اور اس کی حقیقت کا انکار کر دیتے ہیں جیسے کہ غیر مقلدین جبکہ کچھ لوگ شب برات کی حقیقت اور فضیلت کو تسلیم کرتے ہوئے ساتھ میں بہت سی خرافات و بدعت کا اضافہ کر دیتے ہیں اس لیے شب برات کے متعلق مختصر انداز میں کچھ باتیں آپ حضرات کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں:

دین اتباع کا نام ہے 

واضح رہے کہ دین اتباع کا نام ہے اپنی طرف سے کوئی راستہ گھڑ کر اس پر چلنے کا نام دین نہیں ہے ؛ اسی لیے جو چیزیں شریعت سے ثابت ہوں ان پر عمل کیا جائے باقی کو چھوڑ دیا جاۓ ۔ جیسا کہ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی کا ارشاد گرامی ہے:

جس چیز کا ثبوت قرآن میں یا سنت میں یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے آثار میں تابعین اور بزرگان دین کے عمل میں نہ ہو اس کو دین کا حصہ سمجھنا بدعت ہے اور میں ہمیشہ یہ بھی کہتا رہا ہوں کہ اپنی طرف سے ایک راستہ گھڑ کر اس پر چلنے کا نام دین نہیں ہے ؛ بلکہ دین اتباع کا نام ہے۔ کس کی اتباع ؟ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع،آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اتباع، تابعین اور بزرگان دین رحمہم اللہ کی اتباع، اب اگر واقعتاً یہ بات درست ہو کہ اس رات کی کوئی فضیلت ثابت نہیں تو بے شک اس رات کو کوئی خصوصی اہمیت دینا بدعت ہوگا جیسا کہ شب معراج کے بارے میں عرض کر چکا ہوں کہ شب معراج میں کسی عبادت کا ذکر قرآن و سنت میں موجود نہیں۔ (اصلاحی خطبات جلد ٤ / ١٩٧ مکتبہ مدنیہ دیوبند )

شب برأت کی فضیلت 

شب برأت کی فضیلت کے متعلق متعدد احادیث منقول ہیں جو عموماً سنداً ضعیف ہیں ؛ اسی لیے بہت سے غیر مقلدین اس رات کی اہمیت و فضیلت کے قائل نہیں ؛ لیکن خیال رہے کہ اگرچہ روایات ضعیف ہیں مگر متعدد شواھد کی وجہ سے قابل عمل ہیں اس لیے سرے سے شب برأت کی فضیلت کا انکار کرنا صحیح نہیں ؛ چنانچہ شیخ الاسلام حضرت مولانا و مفتی محمّد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی فرماتے ہیں:

لیکن واقعہ یہ ہے کہ شب برأت کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں حقیقت یہ ہے کہ 10 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بے شک کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماء نے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے ؛لیکن حضرات محدثین اور فقہاء کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تائید بہت سی احادیث سے ہو جائے تو اس کی کمزوری دور ہو جاتی ہے اور جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ دس صحابہ کرام سے اس کی فضیلت میں روایات موجود ہیں ؛ لہذا جس رات کی فضیلت میں 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے روایت مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بالکل غلط ہے۔ اصلاحی خطبات ٤/١٩٨ مکتبہ مدنیہ دیوبند 

شب برأت اور خیرالقرون 

ایک سوال ہے کہ کیا خیرالقرون یعنی حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین عظام کے دور میں اس رات کا اہتمام ہوتا تھا یا نہیں؟ اس سلسلہ میں حضرت شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ :

امت مسلمہ کے جو خیر القرون ہیں یعنی صحابہ کرام کا دور تابعین کا دور تبع تابعین کا دور رضی اللہ عنہم اجمعین اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے لوگ اس رات کے اندر عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں ؛ لہذا اس کو بدعت کرنا یا بے بنیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے اس رات میں جاگنا اس میں عبادت کرنا باعث اجر و ثواب ہے اور اس کی خصوصی اہمیت ہے۔ ( اصلاحی خطبات ٤/١٩٨ مکتبہ مدنیہ)

شب برأت کی مخصوص عبادات

اب سوال یہ ہے کہ شب برأت کی فضیلت اور اس کا اہتمام خیرالقرون سے ثابت ہے تو کیا اس شب کی کوئی مخصوص عبادت بھی ہے؟ اگر مخصوص عبادات ہیں تو کیا ہیں اور اگر نہیں ہیں تو بعض جگہوں پر دیکھا گیا ، کچھ کتابوں میں پڑھنے کو ملا کہ شب برأت میں اس مخصوص انداز سے نماز پڑھنے پر اتنا ثواب ملے لا، اتنے گناہ معاف ہوں گے ، پہلی رکعت میں یہ سورہ اتنی مرتبہ پڑھنا ہے وغیرہ اس کی کیا حقیقت ہے ؟

جواباً عرض ہے کہ اس رات کی کوئی مخصوص عبادت نہیں ہے ؛ بلکہ جو شخص انفرادی طور پر جنتی نوافل پڑھ سکتا ہے پڑھے، جتنا ہوسکے دعاؤں کا اہتمام کرے، جتنی چاہے تسبیحات و درود و سلام کی کثرت کرے ؛ لیکن یہ سمجھنا کہ شب برأت میں اس انداز سے نماز پڑھیں گے تو اتنا ثواب ملےگا بالکل غلط ہے ۔ چنانچہ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی فرماتے ہیں:

البتہ یہ بات درست ہے کہ اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں طریقے سے عبادت کی جائے جیسے بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک طریقہ گھڑ کر یہ کہہ دیا کہ شب برات میں اس خاص طریقے سے نماز پڑھی جاتی ہے مثلا پہلی رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے دوسری رکعت میں فلاں صورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے وغیرہ وغیرہ اس کا کوئی ثبوت نہیں یہ بالکل بے بنیاد بات ہے بلکہ نفل عبادات جس قدر ہو سکے وہ اس رات میں انجام دی جائیں نفلی نماز پڑھیں قران کریم کی تلاوت کریں ذکر کریں تسبیح پڑھیں دعائیں کریں یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جا سکتی ہیں لیکن کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں۔ ( اصلاحی خطبات ٤/١٩٨)

شب برأت کے متعلق کن چیزوں کا ثبوت ہے؟

آن لائن دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کے بیان کے مطابق یہ چیزیں حدیث سے ثابت ہیں:

شعبان کی پندرہویں شب اور آنے والے دن کے بعض فضائل احادیث سے ثابت ہیں:

  1. مثلاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس رات منادی ہونا
  2.  بندوں کی مغفرت وبخشش ہونا
  3.  روزہ کا مستحب ہونا
  4. اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شب میں بقیع قبرستان تشریف لیجانا اور مُردوں کے لیے دعائے مغفرت کرنا ۔

 شب برأت میں قبرستان جانا اور ضروری سمجھنا

اوپر کی تفصیل سے معلوم ہوا کہ شب برأت میں قبرستان جانا پیارے نبی ﷺ کے عمل سے ثابت ہے ؛ لیکن آج کل اس میں خوب غلو کیا جارہا ہے ، لائٹنگ اور سجاوٹ کرکے میلے ٹھیلے کی شکل دی جارہی ہے ، اس سلسلہ میں حضرت شیخ الاسلام فرماتے ہیں:

اس رات میں ایک اور عمل ہے جو ایک روایت سے ثابت ہے وہ یہ کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع میں تشریف لے گئے اب چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے گئے تھے اس لیے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شب برات میں قبرستان جائیں لیکن میرے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ ایک بڑی کام کی بات بیان فرمایا کرتے تھے ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے فرماتے تھے کہ جو چیز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہو اسی درجے میں اسے رکھنا چاہیے اس سے اگے نہیں بڑھنا چاہیے لہذا ساری حیات طیبہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ جنت البقیع جانا مروی ہے کہ آپ شب برأت میں جنت البقیع تشریف لے گئے چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لیے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاؤ تو ٹھیک ہے لیکن ہر شب برأت میں جانے کا اہتمام کرنا التزام کرنا اور اس کو ضروری سمجھنا اور اس کو شب برات کے ارکان میں داخل کرنا اور اس کو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا اور اس کے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برات نہیں ہوئی یہ اس کو اس درجے سے اگے بڑھانے والی بات ہے لہذا اگر کبھی کوئی شخص اس نقطہ نظر سے قبرستان چلا گیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تھے میں بھی اپ کی اتباع میں جا رہا ہوں تو انشاءاللہ اجر و ثواب ملے گا لیکن اس کے ساتھ یہ کرو کہ کبھی جاؤ کبھی نہ جاؤ لہذا اہتمام اور التزام نہ کرو پابندی نہ کرو یہ درحقیقت دین کی سمجھ کی بات ہے کہ جو چیز جس درجے میں ثابت ہو اس کو اسی درجے میں رکھو اس سے اگے مت بڑھاؤ اور اس کے علاوہ دوسری نفل عبادات کر لو۔ ( اصلاحی خطبات ٤/١٩٩) 

شب برأت اور حلوہ

شب برأت کے موقع پر بہت سے مسلم گھرانوں میں حلوہ پکانے کا رواج ہے ، پوری کچوری اور طرح طرح کے قسم قسم کے پکوان پکانے کا رواج ہے اور اسے شب برأت کے نام پر پکایا جاتا ہے، شب برأت کی خوشی میں پکایا جاتا ہے شب برأت کی مناسبت سے پکایا جاتا ہے اور نذر و نیاز اسکے علاوہ طرح طرح کے کام کیے جاتے ہیں۔  یاد رکھنا چاہیے کہ ان سب چیزوں کا شب برأت سے کوئی تعلق نہیں ہے، شب برأت عبادت کے لیے ہے نہ کہ کھانے کے لیے۔ 

حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب ارشاد فرماتے ہیں: 

 بہرحال یہ شب برأت الحمدللہ فضیلت کی رات ہے اور اس رات میں جتنی عبادت کی توفیق ہو اتنی عبادت کرنی چاہیے باقی جو اور فضولیات اس رات میں حلوہ وغیرہ پکانے کی شروع کر لی گئی ہیں ان کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں اس لیے کہ شب برأت کا حلوہ سے کوئی تعلق نہیں اصل بات یہ ہے کہ شیطان ہر جگہ اپنا حصہ لگا لیتا ہے اس نے سوچا کہ اس شب برات میں مسلمانوں کے گناہوں کی مغفرت کی جائے گی چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ اس رات میں اللہ تعالی اتنے انسانوں کی مغفرت فرماتے ہیں جتنے قبیلہ قلب کی بکریوں کے جسم پر بال ہیں شیطان نے سوچا کہ اگر اتنے سارے آدمیوں کی مغفرت ہو گئی پھر تو میں لٹ گیا اس لیے اس نے اپنا حصہ لگا دیا چنانچہ اس نے لوگوں کو یہ سکھا دیا کہ شب برأت آئے تو حلوہ پکایا کرو ویسے تو سارے سال کے کسی دن بھی حلوہ پکانا جائز اور حلال ہے جس شخص کا جب دل چاہے پکا کر کھا لے لیکن شب برأت سے اس کا کیا تعلق؟ نہ قرآن میں اس کا ثبوت ہے، نہ حدیث میں اس کے بارے میں کوئی روایت، نہ صحابہ کے آثار میں نہ تابعین کے عمل میں اور بزرگان دین کے عمل میں کہیں اس کا کوئی تذکرہ نہیں لیکن شیطان نے لوگوں کو حلوہ پکانے میں لگا دیا چنانچہ سب لوگ پکانے اور کھانے میں لگ گئے اب یہ حال ہے کہ عبادت کا اتنا اہتمام نہیں جتنا اہتمام حلوہ پکانے کا ہے ۔ 

( اصلاحی خطبات جلد ٤ صفحہ ٢٠٤-٢٠٥) 

Post a Comment

0 Comments