گاندھی میدان کے دروازے اور ان کے انوکھے نام

 گاندھی میدان کے دروازے اور ان کے انوکھے نام

Patna-gandhi-maidan

مولانا قیام الدین قاسمی صاحب 

پروگرامز میں عموماً دروازوں کے نام شخصیت کے نام پر ہوتے ہیں ؛ لیکن حضرت امیر شریعت نے ہمیں حکم دیا کہ پروگرام وقف پر ہے، تو لوگوں کو وقف سے متعلق واقفیت میں اضافہ بھی ہونا چاہیے ؛ لہذا گاندھی میدان کو وقف اور دستور سے متعلق دروازوں سے سجایا گیا۔

 گاندھی میدان میں ٹوٹل 12 دروازے ہیں ؛ لیکن 8 دروازوں سے انٹری ہوتی ہے، ہر گیٹ پر ڈبل گیٹ لگایا جاتا ہے، ایک باہر کی جانب سے ،دوسرا اندر کی جانب سے، تاکہ باہر والوں کو بھی اور اندر والوں کو بھی سیم چیز پڑھنے کو ملے، تو آٹھوں دروازوں کا مواد تیار کیا گیا، ہندی میں بھی اور اردو میں بھی، دایاں حصہ اردو میں رکھا گیا اور بایاں حصہ ہندی میں، جس کی تفصیل درج ذیل ہے: 

(١) بابِ امارت

इमारत गेट 

(5) بابِ وقف

वक़्फ़ गेट 

(7) بابِ امبیڈکر 

अम्बेडकर गेट 

(12) بابِ واقف

वाक़िफ गेट 

(8) بابِ دفعہ25 اور 26

आर्टिकल 25 और 26 गेट 

(4) بابِ متولی

मुतवल्ली गेट 

(2) بابِ گاندھی و جوہر

गांधी व जौहर गेट 

(10) بابِ دفعہ 13 اور 14

आर्टिकल 13 और 14 गेट 

ہر گیٹ کی تفصیل

(1) بابِ امارت: 

ہمارا عزم!  ہم اس وقت تک احتجاج کرتے رہیں گے جب تک یہ ایکٹ واپس نہیں لے لیا جاتا۔

بابِ وقف : 

وقف کیا ہے؟  وقف کا مطلب ہے کسی شخص کا اپنی جائیداد ہمیشہ کے لیے اللہ کے نام پر دے دینا، تاکہ اس کا فائدہ عوام کو پہنچے، وقف شدہ جائیداد نہ بیچی جا سکتی ہے، نہ خریدی جا سکتی ہے، نہ کسی کو دی جا سکتی ہے، یہ اللہ کی ملکیت بن جاتی ہے اور متولی کے ذریعے اس کا نظم چلتا ہے۔

 وقف کا مقصد:  اس سے حاصل آمدنی کو غریبوں، مسکینوں ، تعلیم ، علاج اور فلاحی کاموں پر خرچ کیا جاتا ہے۔

 پہلا وقف : سب سے پہلا وقف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور 1400 سال سے مسلمان یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

ہندوستان میں وقف : یہاں بادشاہوں ، نوابوں اور اہل خیر نے مسجد ، مدرسہ ، قبرستان ، ہاسپٹل، مسافر خانہ جیسے اداروں کے لیے زمین وقف کی ۔

موجودہ خطرہ : وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کے ذریعے حکومت ان جائیدادوں پر قبضہ کر کے ضرورت مندوں کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے جسے ملت ہرگز قبول نہیں کرے گی۔

بابِ دفعہ 13 اور 14:

آرٹیکل 13 (3) (a) صرف پارلیمنٹ یا اسمبلی کے بنائے ہوئے قوانین کو ہی نہیں ؛ بلکہ رائج طریقوں ، رسوم و رواج ، زبانی روایات اور قدیم عمل کو بھی قانون تسلیم کرتا ہے ۔

نیا وقف ایکٹ ان روایتی طریقوں کو کلعدم قرار دیتا ہے جو آرٹیکل 13 (3) (a) کے مطابق قانون کا درجہ رکھتے ہیں، مثلاً زبانی وقف یا متولی کا تقرر ،وقف روایتی استعمال کی بنیاد پر وقت کی حیثیت ؛ لہذا یہ ترمیم آئین کے مطابق تسلیم شدہ قانون یعنی رواج و روایت کی خلاف ورزی ہے۔

 آرٹیکل 14 ہر شہری کو قانون کے سامنے مساوات اور یکساں تحفظ کا حق دیتا ہے ؛ لیکن مسلمانوں کی وقف جائیداد پر قبضہ کرنے والا صرف 12 سال بعد مالک بن سکتا ہے ؛ لیکن مندر کی زمین پر ایسا قانون نہیں ہے۔

 اگر مسجد یا قبرستان کے کاغذ نہیں ہیں، تو چاہے وہ کتنے ہی پرانے ہوں حکومت اسے اپنی زمین مان لے گی، لیکن پرانے مندر محفوظ رہیں گے ۔

کوئی بھی شخص مندر کے لیے زمین دے سکتا ہے؛ لیکن مسلمان شخص اگر عملی مسلمان نہ ہو ، تو وہ وقف نہیں کر سکتا ۔

اگر وقف کی زمین پر جھگڑا ہو جائے تو فیصلہ کلیکٹر کرے گا اور جب تک فیصلہ نہ ہو زمین کا استعمال بھی رک جائے گا؛ جبکہ دوسرے مذاہب میں ایسا نہیں ہوتا۔

 ہندو اور سکھ اداروں میں غیر مذہب کا کوئی رکن نہیں ہو سکتا ؛ لیکن وقف بورڈ میں دو غیر مسلموں کا ہونا لازمی کر دیا گیا ہے۔

بابِ واقف: 

واقف کسے کہتے ہیں؟  واقف اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنی کوئی جائیداد ، زمین ، مکان، دکان یا کوئی بھی چیز اللہ کے نام پر ہمیشہ کے لیے وقف کر دے، اب اسے نہ خریدا جا سکتا ہے نہ بیچا جا سکتا ہے اور نہ ہی ہدیہ کیا جا سکتا ہے ۔

واقف کون بن سکتا ہے؟ اور وقف کون کر سکتا ہے ؟ وقف ایکٹ 1995 کے مطابق کسی بھی مذہب کا کوئی بھی شخص وقف کر سکتا تھا ؛  لیکن موجودہ سرکار نے نیا قانون سیکشن (3) (r) لا کر یہ قید لگا دی کہ ایسا کوئی شخص جو یہ ظاہر کرے یا ثابت کرے کہ وہ کم از کم پانچ سال سے اسلام پر عمل کر رہا ہے، کسی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کا مالک ہے اور اس جائیداد کے وقف کرنے میں کسی قسم کی چالاکی یا تدبیر شامل نہیں ہے۔

 اس شرط میں کئی خرابیاں ہیں: 

 مبہم : اسلام پر عمل کا کوئی صاف مطلب یا ثبوت نہیں۔

 ناانصافی : جو لوگ ابھی نیکی کی طرف آئے ہیں وہ وقف نہیں کر سکتے ۔

غیر اسلامی : اسلام میں وقف کے لیے وقت یا ظاہری دینداری کی شرط نہیں ۔

عمل ناممکن : کوئی افسر یہ کیسے جانے گا کہ کون دین پر عمل کر رہا ہے؟

 غیر آئینی : یہ شق مذہبی آزادی ارٹیکل 25 اور جائیداد کے حق آرٹیکل 30 اے کی واضح خلاف ورزی ہے۔

 بے بنیاد : وقف قانون کی تاریخ میں کبھی بھی اس نوعیت کی مذہبی جانچ کی شرط عائد نہیں کی گئی۔

بابِ دفعہ 25 اور 26

آرٹیکل 25 : ہر انسان کو یہ آزادی حاصل ہے ، کہ وہ جس مذہب کو چاہے اختیار کرے (ضمیر کی آزادی ) اس پر عمل کریں (نماز ،روزہ ، عبادات وغیرہ ) اس کی تبلیغ کرے (دوسروں کو اپنی مذہب کی دعوت دے) اور اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزاریں ۔

آرٹیکل 26:  ہر مذہبی فرقے (کمیونٹی) کو یہ حق حاصل ہے ، کہ وہ اپنے مذہبی ادارے اور اپنے مذہبی معاملات کے لیے اپنے طریقے سے چلائے ۔

آرٹیکل 25 اور 26 کی خلاف ورزیاں:  آسان زبان میں مسلمان جب تک یہ ثابت نہ کرے کہ وہ پانچ سال سے دین پر عمل کر رہا ہے وہ وقف نہیں کر سکتا ، یہ مذہبی آزادی میں مداخلت ہے۔

 اگر مسجد پر جھوٹا جھگڑا بھی کھڑا ہو جائے تو کلیکٹر نماز بند کرا سکتا ہے، یہ مذہبی آزادی میں مداخلت ہے۔

 پرانی مسجد کو تاریخی عمارت قرار دے کر نماز روک دینا ، اس کی شرعی حیثیت کو ختم کرتا ہے ، یہ مذہبی آزادی میں مداخلت ہے۔

بابِ متولی:

متولی کون ہے؟ متولی وقف جائیداد کا نگراں اور منتظم ہوتا ہے، مالک نہیں بلکہ امانتدار ٹرسٹی ہوتا ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ آمدنی کو صرف شرعی و فلاحی مقاصد میں استعمال کریں۔

 وقف ایکٹ 2025 زبانی تقرری کا شرعی اور آئینی رواج (کسٹم سیکشن) (3)  (1)  سے ختم کر دیا گیا ، جو دفعہ 13 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔ 

سیکشن 42 کے تحت متولی کی تقرری میں حکومت کو مداخلت کا اختیار دیا گیا یعنی اب دینی اصولوں کے بجائے سیاسی مفاد غالب آ جائے گا ۔

متولی پر جرمانہ 10 ہزار سے بڑھا کر 50 ہزار اور ایک لاکھ کر دیا گیا ہے، جس سے لوگ متولی بننے سے گھبرائیں گے اور وقف جائیداد غیر محفوظ ہو جائیں گی۔

مجھے بھی پڑھیں 

بابِ گاندھی و جوہر 

یہ دروازہ علامت ہے اس ہندو مسلم اتحاد کی جس نے انگریزوں کو لرزا دیا اور ہندوستان کی آزادی کی بنیاد مضبوط کی ۔

یہ باب یاد دلاتا ہے کہ جب قومیں متحد ہوتی ہیں ، تو ظلم خود کمزور ہو جاتا ہے، گاندھی اور جوہر کا اتحاد بھی ہندوستان کی اصل طاقت ہے۔

بابِ امبیڈکر 

انصاف، مساوات اور دستور کا دروازہ : یہ دروازہ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی وراثت کا نشان ہے ، جہاں ذات، دھرم ، زبان یا لباس کی بنیاد پر کوئی چھوٹا یا بڑا نہ ہو، جہاں ہر فرد کو برابر کا حق، تعلیم ، عزت اور آزادی حاصل ہو۔











Post a Comment

0 Comments