دجال کے فتنے اور قیامت کی نشانیاں
المستفاد ..... بکھرے موتی ( جلد چہارم )
محمد اکرام پلاموی ( نعمانی )
محدثین نے لکھا ہے کہ درج ذیل حدیث اپنے بچوں کو سکھائیے بروک لکھوائیے تاکہ انہیں بھی یاد رہے۔
ابن ماجہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ کا کم و بیش حصہ دجال کا واقعہ بیان کرنے ، اس سے ڈرانے میں ہی صرف کیا ۔ جس میں یہ بھی فرمایا کہ دنیا کی ابتدا سے لے کر انتہا تک کوئی فتنہ اس سے بڑا نہیں ۔ تمام انبیاء علیہ السلام اپنی اپنی امتوں کو اس سے آگاہ کرتے رہے ہیں ۔ میں سب سے آخری نبی ہوں اور تم سب سے آخری امت ہو وہ یقینا تمہیں میں آےگا ۔ اگر میری موجودگی میں آگیا تب تو میں اس سے نمٹ لوں گا اور اگر بعد میں آیا تو ہر شخص کو اپنا آپا اس سے بچانا پڑے گا ۔ میں اللہ تعالی کو ہر مسلمان کا خلیفہ بناتا ہوں ۔ وہ شام و عراق کے درمیان نکلے گا دائیں بائیں خوب گھومے گا ۔ لوگو ! اے اللہ تعالی کے بندو ! دیکھو : تم ثابت قدم رہنا ۔ میں تمہیں اس کی ایسی صفت سناتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی امت کو نہیں سنائی۔
وہ ابتداء دعوی کرے گا کہ میں نبی ہوں ، پس تم یاد رکھنا یہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ... پھر وہ اس سے بھی بڑھ جائے گا اور کہے گا میں خدا ہوں ، پس تم یاد رکھنا یہ خدا کو ان ان آنکھوں سے کوئی نہیں دیکھ سکتا ہاں مرنے کے بعد دیدار باری تعالی ہو سکتا ہے ۔ اور سنو ! وہ کانا ہوگا اور تمہارا رب کانا نہیں ، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہوگا ۔ جسے پڑھا لکھا اور ان پڑھ غرض ہر ایماندار پڑھ لے گا ۔
اس کے ساتھ آگ ہوگی اور باغ ہوگا ۔ اس کی آگ دراصل جنت ہے اور اس کا باغ دراصل جہنم ہے ۔ سنو! تم میں سے جسے وہ آگ میں ڈالے وہ اللہ تعالی سے فریاد رسی چاہے اور سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے ، اس کی وہ آگ اس پر ٹھنڈک اور سلامتی بن جائے گی۔ جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر نمرود کی آگ ہو گئی تھی ۔
اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہوگا کہ وہ ایک اعرابی سے کہے گا اگر میں تیرے مرے ہوئے ماں باپ کو زندہ کر دوں پھر تو تو مجھے رب مان لے گا ۔ وہ اقرار کرے گا ۔ اتنے میں دو شیطان اس کی ماں اور باپ کی شکل میں ظاہر ہوں گے اور اسے کہیں گے بیٹے ! یہی تیرا رب ہے تو اسے مان لے ۔
اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہوگا کہ وہ ایک شخص پر مسلط کر دیا جائے گا ۔ اسے آرے سے چروا کر دو ٹکڑے کروا دے گا ۔ پھر لوگوں سے کہے گا کہ میرے اس بندے کو دیکھنا اب میں اسے زندہ کر دوں گا ، لیکن پھر بھی یہ یہی کہے گا اس کا رب میرے سوا اور ہے ، چنانچہ یہ اسے اٹھائے بٹھائے گا اور یہ خبیث اس سے پوچھے گا کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دے گا میرا رب اللہ تعالی ہے اور تو خدا کا دشمن دجال ہے ۔ خدا کی قسم ! اب تو مجھے پہلے سے بھی بہت زیادہ یقین ہو گیا ۔ دوسری سند سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ مومن میری تمام امت سے زیادہ بلند درجہ کا امتی ہوگا ۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو سن کر ہمارا خیال تھا کہ یہ شخص حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہی ہوں گے ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت تک ہمارا یہی خیال رہا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہوگا کہ وہ آسمان کو پانی برسانے کا حکم دے گا اور آسمان سے بارش ہوگی وہ زمین کو پیداوار اگانے کا حکم دے گا اور زمین سے پیداوار ہوگی ۔ اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہوگا کہ وہ ایک قبیلے کے پاس جائے گا اور وہ اسے نہ مانیں گے اسی وقت ان کی تمام چیزیں برباد اور حالات ہو جائیں گی .. دوسرے قبیلے کے پاس جائے گا جو اسے خدا مان لے گا ۔ اسی وقت اس کے حکم سے ان پر آسمان سے بارش برسے گی اور زمین پھل اور کھیتی اگائے گی ان کے جانور پہلے سے زیادہ موٹے تازے اور دودھ والے ۔ سوائے مکہ اور مدینہ کے تمام زمین ( ممالک) کا دورہ کرے گا ۔ جب مدینہ کا رخ کرے گا تو یہاں ہر ہر راہ پر فرشتوں کو کھلی تلواریں لیے ہوئے پائے گا تو سبخہ کی انتہائی حد پر ظریب احمر کے پاس ٹھہر جائے گا ۔ پھر مدینہ میں تین بھونچال آئیں گے اس وجہ سے جتنے منافق مرد اور جس قدر منافقہ عورتیں ہوں گی وہ سب مدینہ سے نکل کر اس کے لشکر میں مل جائیں گے اور مدینہ ان گندے لوگوں کو اس طرح اپنے میں سے دور پھینک دے گا جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو الگ کر دیتی ہے ۔ اس دن کا نام یوم الخلاص ہوگا ۔
ام شریک رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! اس دن عرب کہاں ہوں گے ؟ فرمایا : اولا تو ہوں گے ہی بہت کم اور اکثریت ان کی بیت المقدس میں ہوگی ۔ ان کا امام ایک صالح شخص ہوگا جو آگے بڑھ کر صبح کی نماز پڑھا رہا ہوگا جب حضرت عیسی علیہ السلام نازل ہوں گے ۔ یہ امام پیچھے پیروں پیچھے ہٹے گا ۔تاکہ آپ آگے بڑھ کر امامت کرائیں ، لیکن حضرت عیسی علیہ السلام اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر فرمائیں گے کہ آگے بڑھو پڑھو اور نماز پڑھاؤ اقامت تمہارے لیے کہی گئی ہے ۔ پس ان کا امام ہی نماز پڑھائے گا ۔
نماز سے فارغ ہو کر آپ علیہ السلام فرمائیں گے دروازہ کھول دو ۔ پس کھول دیا جائے گا ادھر دجال ستر ہزار یہودیوں کا لشکر لیے ہوئے موجود ہوگا جن کے سر پر تاج اور جن کی تلواروں پر سونا ہوگا ۔ دجال حضرت عیسی علیہ السلام کو دیکھ کر اس طرح گھلنے لگے گا جس طرح نمک پانی میں گھلتا ہے اور ایک دم پیٹھ پھیر کر بھاگنا شروع کر دے گا ۔ لیکن آپ علیہ السلام فرمائیں گے خدا نے مقرر کر دیا ہے کہ تو میرے ہاتھ سے ایک ضرب کھائے گا ۔ تو اسے ٹال نہیں سکتا ۔ چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام اسے باب لد کے پاس پکڑ لیں گے اور وہیں اسے قتل کر دیں گے ... اب یہودی بدحواسی سے منتشر ہو کر بھاگیں گے ، لیکن انہیں کہیں سر چھپانے کو جگہ نہ ملے گی ہر پتھر ، ہر درخت ، ہر دیوار اور ہر جانور بولتا ہوگا کہ اے مسلمان ! یہاں یہودی ہے آکر اسے مار ڈال ۔ ہاں ببول کا درخت یہودیوں کا درخت ہے یہ نہیں بولے گا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پھر عیسی علیہ السلام میری امت میں حاکم ہوں گے ، عادل ہوں گے ، امام ہوں گے ، با انصاف ہوں گے ، صلیب کو توڑیں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے ، جزیے کو ہٹا دیں گے ، حسد اور بغض بالکل جاتا رہے گا ۔ ہر زہریلے جانور کا زہر ہٹا دیا جائے گا ۔ بچے اپنی انگلی سانپ کے منہ میں ڈالیں گے لیکن وہ انہیں کوئی ضرر نہ پہنچائے گا ۔ شیروں سے لڑکے کھیلیں گے ، نقصان کچھ نہ ہوگا ۔ بھیڑیے بکریوں کے گلے ( ریوڑ ) میں اس طرح پھریں گے جیسے رکھوالا کتا ہو ۔ تمام زمین اسلام اور اصلاح سے اس طرح بھر جائے گی جیسے کوئی برتن پانی سے لبا لب بھرا ہوا ہو ۔ سب کا کلمہ ایک ہو جائے گا ۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ ہوگی لڑائی اور جنگ بالکل موقوف ہو جائے گی ۔ زمین مثل سفید چاندی کے منور ہو جائے گی ۔ ایک جماعت کو ایک انگور کا خوشہ پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہوگا ، ایک انار اتنا بڑا ہوگا کہ ایک جماعت کھائے اور سیر ہو جائے ۔ بیل اتنی اتنی قیمت پر ملے گا اور گھوڑا چند درہموں پر ملے گا ۔ لوگوں نے پوچھا اس کی قیمت گر جانے کی کیا وجہ ہوگی ؟فرمایا : اس لیے کہ لڑائیوں میں اس کی سواری بالکل نہ لی جائے گی ۔ دریافت کیا گیا کہ بیل کی قیمت بڑھ جانے کی کیا وجہ ہے ؟ فرمایا اس لیے کہ تمام زمین میں کھیتیاں ہونی شروع ہو جائیں گی ۔
دجال کے ظہور سے تین سال پیشتر سے سخت قحط سالی ہوگی ۔ پہلے سال بارش کا تیسرا حصہ بحکم خدا روک لیا جائے گا اور زمین کی وداوار کا بھی تیسرا حصہ کم ہو جائے گا ۔ پھر دوسرے سال خدا آسمان کو حکم دے گا کہ بارش کی دو تہائیاں روک لے اور یہی حکم زمین کو ہوگا کہ اپنی پیداوار دو تہائی کم کر دے ۔ تیسرے سال آسمان سے بارش کا ایک قطرہ نہ برسے گا نہ زمین سے کوئی روئیدگی پیدا ہوگی ۔ تمام جانور اس قحط سے ہلاک ہو جائیں گے ، مگر جسے خدا چاہے ۔ آپ علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ پھر اس وقت لوگ زندہ کیسے رہ جائیں گے ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا : ان کی غذا کے قائم مقام اس وقت ان کا لا الہ الا اللہ کہنا اور اللہ اکبر کہنا اور سبحان اللہ کہنا اور الحمدللہ کہنا ہوگا ۔
امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میرے استاد نے اپنے استاد سے سنا وہ فرماتے تھے یہ حدیث اس قابل ہے کہ بچوں کے استاد اسے بچوں کو بھی سکھا دیں بلکہ لکھوائیں تاکہ انہیں بھی یاد رہے ۔ ( تفسیر ابنِ کثیر ، ج : ١ ، ص : ١٧٠,٦٥٧٢,٦٧١ )
0 Comments