ہر مؤمن اپنے بھائ کا آئینہ ہے
المستفاد.... بکھرے موتی ( جلد چہارم )محمد اکرام پلاموی ، ( نعمانی )اپنے دوستوں کی اصلاح و تربیت سے کبھی غفلت نہ کیجئے اور اپنے دوستوں میں وہ بیماری کبھی نہ پیدا ہونے دیجئے جو اصلاح و تربیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ یعنی خود پسندی اور کبر ۔ دوستوں کو ہمیشہ آمادہ کرتے رہیے کہ وہ اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کو محسوس کریں ۔ اپنی خطاؤں کے اعتراف میں جرات سے کام لیں ۔ اور اس حقیقت کو ہمہ وقت نگاہ میں رکھیں کہ اپنی کوتاہی کو محسوس نہ کرنے اور اپنی برأت پر اصرار کرنے سے نفس کو بدترین غذا ملتی ہے ۔
دراصل نمائشی عاجزی دکھانا ، الفاظ میں اپنے کو حقیر کہنا ، رفتار اور انداز میں خشوع کا اظہار کرنا ، یہ نہایت آسان ہے لیکن اپنے نفس پر چوٹ سہنا ، اپنی کوتاہیوں کو ٹھنڈے دماغ سے سننا اور تسلیم کرنا اور اپنے نفس کے خلاف دوستوں کی تنقیدیں برداشت کرنا انتہائی مشکل کام ہے ۔ لیکن حقیقی دوست وہی ہیں جو بیدار ذہن کے ساتھ ایک دوسرے کی زندگی پر نگاہ رکھیں اور اس پہلو سے ایک دوسرے کی تربیت و اصلاح کرتے ہوئے کبر اور خود پسندی سے بچاتے رہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : تین باتیں ہلاکت میں ڈالنے والی ہیں ۔ (١) ایسی خواہش کے انسان اس کا تابع اور غلام بن کر رہ جائے ۔ (٢) ایسی حرص جس کو پیشوا مان کر آدمی اس کی پیروی کرنے لگے ۔ (٣) اور خود پسندی ۔ اور یہ بیماری ان تینوں میں سب سے زیادہ خطرناک ہے ۔( بیہقی ، مشکوٰۃ )
تنقید و احتساب ایک ایسا نشتر ہے جو اخلاقی وجود کے تمام فاسد مادوں کو باہر نکال پھینکتا ہے اور اخلاقی توانائیوں میں خاطر خواہ اضافہ کر کے فرد اور معاشرے میں نئی روح پھونک دیتا ہے ۔ دوستوں کے احتساب اور تنقید پر پھر نا ، ناک بھوں چڑھانا اور خود کو اس سے بے نیاز سمجھنا بھی ہلاکت ہے اور اس خوشگوار فریضے کو ادا کرنے میں کوتاہی برتنا بھی ہلاکت ہے ۔ دوستوں کے دامن پر گھناونے دھبے نظر آئیں تو بے چینی محسوس کیجئے اور انہیں صاف کرنے کے حکیمانی تدبیریں کیجیے اور اسی طرح خود بھی فراخ دلی اور عاجزی کے ساتھ دوستوں کو ہر وقت یہ موقع دیجئے یہ وہ آپ کے داغ دھبوں کو آپ پر نمایاں کریں ۔ اور جب وہ یہ تلخ فریضہ انجام دیں تو اپنے نفس کو پھلانے کے بجائے انتہائی عالی ظرفی ، خوش دلی اور احساس مندی کے جذبات سے ان کی تنقید کا استقبال کیجئے اور ان کے اخلاص و کرم کا شکریہ ادا کیجئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مثالی دوستی کو ایک بلیغ تمثیل سے اس طرح واضح فرمایا ہے : تم میں سے ہر ایک اپنے بھائی کا آئینہ ہے ۔ پس اگر وہ اپنے بھائی میں کوئی خرابی دیکھے تو اسے دور کرے ۔ ( ترمذی )اس تمثیل میں پانچ ایسے روشن اشارے ملتے ہیں جس کو پیش نظر رکھ کر آپ اپنی دوستی کو واقعی مثالی دوستی بنا سکتے ہیں ۔
(١) آئینہ آپ کے داغ دھبے اسی وقت ظاہر کرتا ہے جب آپ اپنے داغ دھبے دیکھنے کے ارادے سے اس کے سامنے جا کھڑے ہوتے ہیں ورنہ وہ بھی مکمل خاموشی اختیار کر لیتا ہے ۔اسی طرح آپ بھی اپنے دوست کے عیوب اسی وقت واضح کریں جب وہ خود کو تنقید کے لیے آپ کے سامنے پیش کرے اور فراخ دلی سے تنقید و احتساب کا موقع دے اور آپ بھی محسوس کریں کہ اس وقت اس کا ذہن تنقید سننے کے لیے تیار ہے اور دل میں اصلاح قبول کرنے کے لیے جذبات موجزن ہیں اور اگر آپ یہ کیفیت نہ پائیں تو حکمت کے ساتھ اپنی بات کو کسی اور موقع کے لیے اٹھا رکھے اور خاموشی اختیار کریں ۔ اور اس کی غیر موجودگی میں تو اس قدر احتیاط کریں کہ آپ کی زبان پر کوئی ایسا لفظ بھی نہ آۓ جس سے اس کے کسی عیب کی طرف اشارہ ہوتا ہو ۔ اس لیے کہ یہ غیبت ہے اور غیبت سے دل جڑتے نہیں بلکہ ٹوٹتے ہیں ۔
(٢) آئینہ چہرے کے انہیں داغ دھبوں کی صحیح صحیح تصویر پیش کرتا ہے جو فی الواقع چہرے پر موجود ہوتے ہیں ، نہ ہو کم بتاتا ہے اور نہ وہ ان کی تعداد بڑھا کر پیش کرتا ہے ۔ پھر وہ چہرے کے انہیں عیوب کو نمایاں کرتا ہے جو اس کے سامنے آتے ہیں ، وہ چھپے ہوئے ایوب کا تجسس نہیں کرتا اور نہ کرید کرید کر عیوب کی کوئی خیالی تصویر پیش کرتا ہے ۔اسی طرح آپ بھی اپنے دوست کے عیوب بے کم و کاست بیان کریں ۔ نہ تو بے جا مروت اور خوشامد میں عیوب چھپائیں اور نہ اپنی خطابت اور زور بیان سے اس میں اضافہ کریں ۔ اور پھر صرف وہی عیوب بیان کریں جو عام زندگی سے آپ کے سامنے آئیں ۔ تجسس اور ٹوہ میں نہ لگیں ۔ پوشیدہ عیبوں کو کریدنا کوئی اخلاقی خدمت نہیں بلکہ ایک تباہ کن اور اخلاق سوز عیب ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ممبر پر چڑھے اور نہایت اونچی آواز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین کو تنبیہ فرمائی :مسلمانوں کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو ۔ جو شخص اپنے مسلمان بھائیوں کے پوشیدہ عیوب کے در پے ہوتا ہے ، خدا اس کے پوشیدہ عیوب کو طشت ازبام کرنے پر تل جاتا ہے اور جس کے عیب افشا کرنے پر خدا تل جائے اس کو رسوا کر کے ہی چھوڑتا ہے ۔ اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر گھس کر ہی کیوں نہ بیٹھ جائے ۔ ( ترمذی)
(٣) آئینہ ہر غرض سے پاک ہو کر بے لاگ انداز میں اپنا فرض ادا کرتا ہے اور جو شخص بھی اس کے سامنے اپنا چہرہ پیش کرتا ہے وہ بغیر کسی غرض کے اس کا صحیح نقشہ اس کے سامنے رکھ دیتا ہے نہ وہ کسی سے بغض اور کینہ رکھتا ہے اور نہ کسی سے انتقام لیتا ہے ۔ آپ بھی ذاتی اغراض ، جذبہ انتقام ، بغض و کینہ اور ہر طرح کی بد نیتی سے پاک ہو کر بے لاگ احتساب کیجیے اور اس لیے کیجئے کہ آپ کا دوست اپنے کو سنوار لے ۔ جس طرح آئینہ کو دیکھ کر آدمی اپنے کو سنوار لیتا ہے ۔
(٤) آئینہ میں اپنی صحیح تصویر دیکھ کر نہ تو کوئی جھنجھلاتا ہے اور نہ غصے سے بے قابو ہو کر آئینہ کو توڑ دینے کی حماقت کرتا ہے ۔ بلکہ فورا اپنے کو بنانے اور سنوارنے میں لگ جاتا ہے اور دل ہی دل میں آئینے کی قدر و قیمت محسوس کرتے ہوئے زبان حال سے اس کا شکریہ ادا کرتا ہے اور کہتا ہے واقعی آئینے نے میرے بننے سنورنے میں میری بڑی مدد کی اور فطری فریضہ انجام دیا اور پھر نہایت احتیاط کے ساتھ دوسرے وقت کے لیے اس کو بحفاظت رکھ دیتا ہے ۔ اسی طرح جب آپ کا دوست اپنے الفاظ کے آئینے میں آپ کے سامنے آپ کی صحیح تصویر رکھے تو آپ جھنجھلا کر دوست پر جوابی حملہ نہ کریں ۔ بلکہ اس کے شکر گزار ہوں کہ اس نے دوستی کا حق ادا کیا اور نہ صرف زبان سے بلکہ دل سے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسی لمحے اپنی اصلاح و تربیت کے لیے فکر مند ہو جائیں اور انتہائی فراغ دلی اور احسان مندی کے ساتھ دوست کی قدر و عظمت محسوس کرتے ہوئے اس سے درخواست کریں کہ آئندہ بھی وہ آپ کو اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتا رہے ۔
(٥) اور آخری اشارہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے ہر ایک اپنے بھائی کا آئینہ ہے اور بھائی بھائی کے لیے اخلاص و محبت کا پیکر ہوتا ہے ، وفادار اور خیر خواہ ہوتا ہے ، ہمدرد اور غمگسار ہوتا ہے ۔ بھائی کو مصیبت میں دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے اور خوش دیکھ کر باغ باغ ہو جاتا ہے ۔ اس لیے بھائی اور دوست جو تنقید کرے گا اس میں انتہائی دل سوزی اور غم خواری ہوگی ۔ محبت اور خلوص ہوگا ۔ بے پایا درد مندی اور خیر خواہی ہوگی ۔ اور لفظ لفظ جذبہ اصلاح کا آئینہ ہوگا ۔ اور ایسی ہی تنقید سے دلوں کو جوڑنے اور زندگیوں کو بنانے کی توقع کی جا سکتی ہے ۔
0 Comments