کریم و شریف شوہر بیویوں کے ناز و نخرے برداشت کرتے ہیں
المستفاد : بکھرے موتی: جلد چہارم ( ص، ١٩: تا ٢١ )
محمد اکرام پلاموی ، نعمانی
بعض لوگ اپنی بیویوں کو ستاتے ہیں ۔ بیوی سے ذرا سی گستاخی ہو جائے تو بیوی کو ڈنڈا لے کر پٹائی کرتے ہیں کہتے ہیں کہ تم کو ناز کرنے کا کیا حق ہے ؟
لیکن سنیے ! سرور دو عالم ﷺ سے زیادہ کون غیرت مند ہو سکتا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا اے عائشہ ! جب تو روٹھ جاتی ہے ، ناز کرتی ہے ، تو مجھے پتہ چل جاتا ہے ۔ عرض کیا اے میرے پیارے نبی ﷺ ! میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ! آپ کو کیسے معلوم ہوتا ہے کہ میں آج کل روٹھی ہوئی ہوں ؟ فرمایا : کہ جب تو مجھ سے روٹھ جاتی ہے تو قسم اس طرح کھاتی ہے ورب ابراھیم ( ابراہیم کے رب کی قسم ! اور جب خوش رہتی ہے تو کہتی ہے ورب محمد محمد ﷺ کے رب کی قسم ) اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے دنیا والو ! سن لو جو لوگ اپنی بیویوں کو پیٹ پیٹ کر سیدھا کر رہے ہیں وہ کمینے لوگ ہیں ۔
تفسیر روح المعانی ( ج ٥ ص ١٤ ) میں علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالی نے اس روایت کو نقل کیا ہے کہ حضور ﷺ یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ کریم و شریف اور لائق شوہروں پر یہ عورتیں غالب آجاتی ہیں کیونکہ جانتی ہیں کہ یہ ناز اٹھائے گا ۔ اور کمینے شوہر ڈنڈے کے زور سے گالی گلوج سے ان پر غالب آجاتے ہیں ۔ سرور عالم ﷺ فرماتے ہیں کہ میں پسند کرتا ہوں کہ میں کریم رہوں چاہے مغلوب رہوں ۔ اور میں یہ پسند نہیں کرتا کہ کمینہ اور بد اخلاق بن کر ان پر غالب آجاؤں ۔
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ : ایک عورت سے اپنے شوہر کے کھانے میں نمک تیز ہو گیا ، وہ غریب آدمی تھا ، چھ مہینے کے بعد مرغی لایا تھا چھ مہینہ تک دال کھا کھا کر اس کی زبان مرغی کھانے کے لیے بے چین تھی ، مگر نمک تیز کر دیا لیکن اس نے بیوی کو کچھ نہیں کہا چپ چاپ کھا لیا اور کہا کہ یا اللہ ! اگر میری بیٹی سے نمک تیز ہو جاتا تو میں یہ پسند کرتا کہ میرا داماد اس کو معاف کر دے ، میرے کلیجہ کے ٹکڑے کو کچھ نہ کہے تو یہ میری بیوی بھی کسی کے کلیجے کا ٹکڑا ہے ، کسی ماں باپ کی بیٹی ہے اور اے خدا ! تیری بندی ہے بس میں تیری رضا کے لیے اس کو معاف کرتا ہوں ۔
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالی اپنے وعظ میں بیان فرماتے ہیں کہ جب اس کا انتقال ہو گیا تو اسے ایک بزرگ نے خواب میں دیکھا پوچھا بھائی تیرا کیا معاملہ ہے ؟ اس نے کہا اللہ نے مجھ سے فرمایا کہ تو نے یہ گناہ کیا ، یہ گناہ کیا ، میں سمجھا کہ اب دوزخ میں جاؤں گا ، آخر میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ جاؤ تم کو معاف کرتا ہوں اس نیک عمل پر کہ تم نے میری بندی کی ایک خطا معاف کی تھی اور اس کو ڈنڈا نہیں مارا اس کو گالی نہیں دی جس دن میری بندی سے نمک تیز ہو گیا تھا تو تم نے اس کی خطا کو معاف کر دیا تھا اس کے بدلہ میں آج میں تم کو معاف کرتا ہوں ۔
جتنا زیادہ تہجد پڑھنے والے اور زیادہ ذکر کرنے والے ہیں میرا تجربہ ہے کہ اگر اہل اللہ کی صحبت یافتہ نہ ہو تو اکثر ان میں غصہ پیدا ہو جاتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھ پر ذکر کا جلال چڑھا ہوا ہے ، ذکر سے تو خدا کی مخلوق پر اور مہربان ہونا چاہیے مگر تو اتنا گرم ہو گیا کہ اپنے کو ہر وقت فرشتہ سمجھتا ہے ۔ اپنی بیٹی کو کوئی ستاوے تو فورا عاملوں کے پاس جائیں گے حضور تعویز دے دیں ۔ میری بیٹی کو میرا داماد ستا رہا ہے اور خود اپنی بیویوں کو ڈنڈے لگاتے ہیں اور گالیاں سناتے ہیں ۔ مخلوق خدا کو جو ستائے گا ، ہرگز اللہ کا ولی نہیں ہو سکتا ۔ ایک لاکھ حج و عمرہ کر لے ایک لاکھ ذکر کر لے لیکن جو اللہ کی مخلوق کو ستائے گا ، ہرگز وہ مومن کامل نہیں ہو سکتا ۔
اکمل المؤمنین ایمانا أحسنھم خلقا ( مشکوٰۃ ، صفحہ ٢٨٢ ) کامل ترین مومن وہ ہے جو بہترین اخلاق والا ہے ۔
حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمہ اللہ تعالی نے مجھے خود یہ واقعہ سنایا کہ بڑی پیرانی صاحبہ نے حضرت سے کہا کہ مولانا ذرا رشتہ داری میں جا رہی ہوں ۔ یہ مرغیاں جو ہم نے پالی ہیں آٹھ بچے دن میں ان کو ڈبہ سے نکال دینا اور دانہ پانی دے دینا ۔ اب اتنا بڑا مجدد زمانہ حکیم الامت جو ساٹھ خطوط کا روزانہ جواب لکھے اور پندرہ سو کتابیں لکھنے والا اس کو بھلا مرغیاں کہاں یاد رہتیں ؟ ! حضرت بھول گئے ، مرغیاں ڈربہ میں بند رہیں ۔ اب خطوط کا جواب ندارد ، تفسیر بیان القرآن کے لیے قلم اٹھایا سارے علوم ختم ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے ۔ دل میں اندھیرا آگیا ، سارے علوم و معارف غائب ہو گئے ۔
حضرت رحمہ اللہ تعالی سجدہ میں گر کر رونے لگے کہ یا اللہ مجھ سے کیا خطا ہو گئی ؟ کیا گناہ ہے کہ جس سے آج تیری نگاہ کرم میرے دل پر سے ہٹ گئی اور میرے دل سے سارے علوم غائب ہو گئے ، میں آج دل کو بالکل خالی پا رہا ہوں ۔
آسمان سے زور سے آواز آئی کہ اشرف علی ! میری مخلوق مرغیاں ڈربہ میں بند ہیں آج وہ اندر اندر کڑھ رہی ہیں میری مخلوق کو ستا کر علوم و معارف کا انتظار کرتے ہو ؟ جاؤ جلدی مرغیوں کو کھولو ۔ حضرت رحمہ اللہ تعالی کانپ گئے ، بھاگے ہوئے گئے ، مرغیوں کو کھولا اور دانہ پانی رکھ دیا ۔ جب واپس آئے تو دل میں فورا سارے علوم کا دریا بہنے لگا ۔ ایک جانور پر ظلم کا تو یہ عذاب ہے اور ہمارا کیا حال ہے ؟ سگا بھائی سگے بھائی کو ستا رہا ہے ، شوہر بیوی کو ستا رہا ہے ، ماں باپ سے لڑائی ، محلہ میں پڑوسیوں کو ستایا جا رہا ہے ذرا ذرا سی بات پر ڈنڈا چل رہا ہے کیا حال ہے اس وقت ؟


0 Comments