حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شام کا سفر

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شام کا سفر



المستفاد... دینیات ( ص: ٢٦٨، تا: ٢٧٤ )

محمد اکرام پلاموی 

مکہ میں ایک مالدار خاتون تھیں ، ان کا نام ,, خدیجہ ،، تھا ۔ بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا بیوہ تھیں ، ان کے شوہر مر چکے تھے ۔ ان کا بڑا کاروبار تھا ، تجارت کے لیے لوگوں کو روپیہ دیتیں اور انہیں نفع میں شریک کر لیتیں ۔ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت داری اور سچائی کا چرچا سنا ، تو بی بی خدیجہ نے خواہش کی کہ آپ ان کا مال تجارت لے کر سفر پر جائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور فرما لیا اور بی بی خدیجہ کے غلام میسرہ کو لے کر شام ( سیریا ) کے سفر پر روانہ ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی محنت ، عقلمندی اور سچائی سے کام کیا ۔ 

:ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت سا نفع کما کر شام کے سفر سے لوٹے ، پائی پائی کا حساب دے دیا ۔ بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا نیک تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اچھائیاں دیکھ کر بہت خوش ہوئیں ، پھر میسرہ غلام نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایمانداری ، نیکی ، لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور محبت کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ۔ بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا بہت متاثر ہوئیں ، خود نکاح کا پیغام دیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیار ہو گئے ۔ چچا جان اور قریش کے کچھ اور لوگوں کو ساتھ لے کر بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر پہنچے اور نکاح ہو گیا ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پچیس سال کے تھے ، اور بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہ کی عمر چالیس سال تھی ۔

 :امن کی کوشش اور حجر اسود کا فیصلہ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کعبہ کی مرمت ہو رہی تھی ، پرانی دیواریں توڑ کر بنائی جا رہی تھیں ، ایک دیوار میں حجر اسود لگا ہوا تھا ، یہ ایک کالا پتھر تھا ، یہ پتھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار تھا ، سب اس کو متبرک سمجھتے تھے ۔ جب دیوار میں اس پتھر کو چننے کا وقت آیا ، تو آپس میں جھگڑا ہونے لگا ۔ ہر شخص یہ چاہتا تھا کہ یہ متبرک پتھر میں لگاؤں ۔ قریب تھا کہ خون خرابہ ہو جائے ، آخر طے ہوا کہ جو شخص کل صبح سب سے پہلے کعبہ میں آۓ ، اسی کا فیصلہ مان لیا جائے ۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ دوسرے دن سب سے پہلے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کعبہ میں تشریف لائے ۔ سب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھروسہ تھا ، سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فیصل مان لیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا اچھا فیصلہ کیا ۔ ایک چادر لی ، اس میں حجر اسود کو رکھا ، ہر قبیلے کے سردار کو ایک ایک کنارہ پکڑنے کو کہا ، سب نے مل جل کر اٹھایا ، جب پتھر وہاں تک لے آۓ جہاں اسے رکھنا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اٹھا کر دیوار میں لگا دیا ۔ اس طرح ہر قبیلے کو اس کام میں شریک ہونے کا موقع مل گیا ۔

:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب نبوت ملتی ہے 

مکہ کے قریب ایک پہاڑی تھی ۔ اس پہاڑی کا نام حرا تھا ۔ پہاڑی میں ایک غار تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں جاتے ، ستو پانی ساتھ لے جاتے ، کئی کئی دن تک وہاں تنہا رہتے ، اللہ تعالی کی عبادت کرتے ، لوگوں کی بھلائی کی تدبیریں سوچتے ، برائیوں کو مٹانے اور نیکیوں کو پھیلانے کے راستے ڈھونڈتے ۔ جب ستو پانی ختم ہو جاتا ، تو پھر گھر آتے ستو پانی لیتے اور لوٹ جاتے ۔ 

عمر کے چالیسویں سال جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں تشریف فرما تھے ، اللہ کے قاصد حضرت جبرئیل علیہ السلام اللہ کا کلام لے کر آۓ ، جس کو ,, وحی ،، کہتے ہیں ۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو بشارت دی کہ آپ اللہ کے رسول ہیں پھر کہا پڑھیے ۔ عرب میں اس وقت پڑھنے پڑھانے کا رواج کم تھا اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو سینے سے لگا کر بہت زور سے دبایا اور کہا : پڑھیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بھائی مجھے پڑھنا نہیں آتا ، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے تین مرتبہ دبایا اور چھوڑا اور ہر بار یہی کہتے تھے کہ پڑھیے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم برابر یہی فرماتے رہے کہ میں پڑھنا نہیں جانتا ۔

آخر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا پڑھیے ۔ اقرا بسم ربک الذی خلق، اس وحی کا نازل ہونا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر رسالت کا بوجھ پڑ گیا اور آپ خوف و ہیبت سے کانپ اٹھے اور ہے بھی یہ بات کہ سینکڑوں برس کے گمراہوں کو راہ پر لگانا ، اور سینکڑوں بتوں کے پجاریوں کو اللہ کا خالص بندہ بنانا ، آسان کام نہیں ہے ۔ آپ گھبرائے ہوۓ گھر تشریف لائے اور اپنی سچی ہمدرد بیوی سے تمام واقعہ بیان کیا ۔ بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ڈھارس بندھائی ، بولیں: آپ گھبراتے کیوں ہیں ، اللہ آپ کو ضائع نہ ہونے دے گا ۔ آپ نیکی کرتے ہیں ، صدقہ دیتے ہیں ، غریبوں کی مدد کرتے ہیں ، یتیموں بیواؤں کو سہارا دیتے ہیں ، مہمانوں کی خاطر کرتے ہیں ، لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، دکھیوں کو سہارا دیتے ہیں ، آپ کو کس چیز کا ڈر ہے ؟ 

 : اللہ کا پیغام 

جب حضرت جبرئیل علیہ السلام اللہ کا پیغام لے کر آۓ ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنچانا شروع کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے کہتے : اللہ ایک ہے ، وہی سب کا خالق ہے ، رازق اور حاکم ہے ، اسی کا حکم مانو ، اسی کی عبادت کرو ۔ میں اللہ کا رسول ہوں ، میری پیروی کرو ، برائیوں سے بچو ، بھلے کام کرو ، اللہ تم سے خوش ہوگا ، رہنے کو جنت دے گا ، برے آدمیوں سے اللہ ناراض ہوتا ہے ، بہت ہی سخت سزا دے گا ۔

Post a Comment

0 Comments