حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و نبوت سے پہلے دنیا کے حالات

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و نبوت سے پہلے دنیا کے حالات 

 


المستفاد ... دینیات ( ص ، ٢٥٧: تا : ٢٦٢ )

محمد اکرام پلاموی 

اب سے کوئی چودہ سو سال پہلے کی بات ہے ، دنیا کا بہت برا حال تھا ۔ ہر طرف لوٹ مار ، چوری ، دھوکہ ، فریب ، جوا ، شراب ، بے شرمی اور بے حیائی پھیلی ہوئی تھی ۔ پوری دنیا میں کفر اور شرک کا اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔ اللہ کی مرضی بتانے والا کوئی رسول نہ تھا ۔ رسول سب جا چکے تھے ، دنیا والے گمراہ ہو گئے تھے ، اللہ کے باغی بن گئے تھے ، رسولوں کی تعلیم بھلا بیٹھے تھے ، اللہ کا راستہ چھوڑ چکے تھے ، اپنی من مانی کرتے تھے ، یا اپنے جیسے آدمیوں کا حکم مانتے ، یا خاندان اور برادری کے رسم و رواج پر چلتے ، اللہ کی کتابیں بگاڑ دی تھیں ، ان میں اپنی اپنی باتیں ملا رکھیں تھیں ۔ 

لوگ پتھر کے بت بنا کر پوجتے ، دیوی دیوتاؤں کو پوجتے تھے ، ان کے نام پر جانور ذبح کرتے ، منت مانتے ، چڑھاوے چڑھاتے ، پیڑ ، پہاڑ ، ندی ، نالے، جاندار اور بے جان سب ان کے معبود تھے ۔ غرض جتنے آدمی تھے اتنے ہی راستے ہو گئے تھے ۔

اللہ کا دین چھوڑنے کا یہی نتیجہ ہوتا ہے ۔ جب دنیا والے بہت زیادہ بگڑ گئے ، بالکل ہی گمراہ ہو گئے ، تو اللہ کو ان پر رحم آیا اور ان کی ہدایت کے لیے دونوں جہاں کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ۔

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 

پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاول کے مہینے میں مطابق ٥٧١ ءدوشنبہ ( پیر ) کے روز پیدا ہوئے ۔ یہ تاریخ انسانیت کا سب سے مبارک دن تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہر مکہ میں پیدا ہوئے ، اللہ کا پاک گھر کعبہ اسی شہر میں ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب شریف 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب مطہر تمام دنیا سے زیادہ شریف اور پاک ہے اور یہ وہ بات ہے کہ تمام کفار مکہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بھی اس سے انکار نہ کر سکے ۔ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے بحالت کفر شاہ روم کے سامنے اس کا اقرار کیا ۔ حالانکہ وہ اس وقت چاہتے تھے کہ اگر کوئی گنجائش ملے تو آپ پر عیب لگائیں ۔

آپ کا نسب شریف والد ماجد کی طرف سے یہ ہے ۔ محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان ۔ 

یہاں تک سلسلہ نسب باجماع امت ثابت ہے اور یہاں سے حضرت آدم علیہ السلام تک اختلاف ہے ۔ اس لیے اس کو ترک کیا جاتا ہے ۔ 

اور والدہ ماجدہ کی طرف آپ کا نسب یہ ہے محمد بن آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب ۔ اس سے معلوم ہوا کہ کلاب بن مرہ میں آپ کے والدین کا نسب جمع ہو جاتا ہے ۔

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان 

اس ملک میں بہت سے قبیلے تھے ، قریش کا قبیلہ ان میں سب سے زیادہ عزت والا قبیلہ تھا ۔ اسی قبیلے کے لوگ کعبہ کی خدمت کرتے تھے ، سارا عرب قریش کی عزت کرتا تھا ۔ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسی قبیلے سے تھے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلے میں بعض بہت مشہور آدمی گزرے ہیں ، ان میں ایک قصی تھے ۔ قصی اپنے قبیلے کے سردار تھے ، حج کے موقع پر سارے حاجیوں کو اپنا مہمان بناتے ، تین دن تک انھیں مفت کھانا کھلاتے ۔ قصی کی اولاد میں ہاشم بہت مشہور ہیں ۔ قبیلے کے تمام لوگوں میں ان کی بڑی عزت تھی ، ہاشم بہت بہادر اور سخی تھے ۔ ایک بار قحط پڑا ، ہاشم نے اپنے پیسوں سے بہت زیادہ غلہ خریدا اور لوگوں میں مفت تقسیم کرایا ۔ ہاشم کے کئی بیٹے تھے ، ان میں سب سے مشہور عبدالمطلب تھے ، یہ بھی اپنے قبیلے کے سردار تھے۔ 

عرب میں پانی بہت کم ہے ، مکہ والوں کے لیے،، زمزم کا کنواں ،، اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے ، مگر ایک عرصے سے وہ مٹی سے بھر کر زمین کے برابر ہو گیا تھا ۔ کسی کو یہ خبر نہ تھی کہ وہ کہاں ہے ، عبدالمطلب نے کوشش کر کے پتہ لگایا ۔ بڑی محنت سے اسے صاف کرایا ۔ مکہ والوں کو پانی کی آسانی ہو گئی ، اس احسان کی وجہ سے مکہ کے لوگ ان کی بڑی قدر کرتے تھے ۔ 

عبدالمطلب کے کئی بیٹے تھے ان میں سب سے چھوٹے اور چہیتے عبداللہ تھے ۔ یہی عبداللہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ابو میاں تھے ۔ عبداللہ کی شادی بی بی آمنہ سے ہوئی تھی ۔ بی بی آمنہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امی جان تھیں ۔

عبداللہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے کچھ دن پہلے ہی انتقال فرما چکے تھے ۔ دادا میاں عبدالمطلب زندہ تھے ، انہوں نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی خبر سنی ، تو بہت خوش ہوئے ، گھر آۓ ، پوتے کو گود میں لیا ، تیار کیا ، کعبہ میں لے گئے ، وہاں دعا مانگی ، محمد نام رکھا ، ساتویں دن عقیقہ کیا ، سب کی دعوت کی ، لوگوں نے پوچھا یہ نام کیوں رکھا ، بولے میں چاہتا ہوں کہ میرے بیٹے کی ساری دنیا تعریف کرے ، اللہ تعالی نے ان کی آرزو پوری کی ۔

Post a Comment

0 Comments