اسلامی سلام میں سلامتی ہی سلامتی ہے
المستفاد ..... بکھرے موتی ( جلد چہارم )
محمد اکرام پلاموی
سلام ایک ایسی عظیم چیز ہے جو جھگڑوں کو ختم کر دیتی ہے ۔ سلام آدمی نہ کرے تو برا سمجھا جاتا ہے اور اگر سلام کر لے تو جاہل بھی جھک جائیں گے کہ یہ بڑا اچھا آدمی ہے سلام کر رہا ہے ۔ اس واسطے فرمایا گیا اگر باہم دشمنیاں بھی ہوں ، عداوتیں بھی ہوں ، اگر دشمن کو آپ سلام کریں گے تو دشمنیاں ڈھیلی پڑ جائیں گی ۔ وہ وعلیکم السلام کہنے پر مجبور ہوگا ۔ جس کا مطلب ہے کہ تمہارے لیے بھی سلامتی ہو ۔ جب سلامتی کی دعا دے گا تو جھگڑا اٹھائے گا کیوں ؟ خود کہہ رہا ہے کہ اللہ تمہیں صحیح سلامت رکھے تو دعا بھی دے اور اوپر سے جھگڑا بھی اٹھائے ؟ اس سلام نے ساری دشمنی ختم کر دی ۔ اس واسطے حدیث میں فرمایا گیا کہ : تقرء السّلام علی من عرفت ومن لم تعرف ( بخاری ، مسلم)
آج کے زمانہ کا تمدن یہ ہے کہ جب تک تیسرا آدمی تعارف نہ کرائے نہ بول ، نہ چال ، نہ سلام نہ کلام ، یہ متکبرانہ تمدن ہے ۔ یہ اسلام کا تمدن نہیں ہے ۔ اسلام کا تمدن یہ ہے کہ جب ہم میں اور تم میں اسلام کا رشتہ مشترک ، اسلامی اخوت اور بھائی بندی پھیلی ہوئی ہے تو کیا ضرورت ہے کہ کوئ تیسرا تعارف کرائے ۔ پہلے سے ہی تعارف حاصل ہے ۔ یہ ہمارا بھائی مسلمان ہے ۔ اس میں اسلام بھرا ہوا ہے ۔ ملیں تو یہ انتظار نہ کریں کہ دوسرا مجھے سلام کہے ۔ بلکہ سلام کرنے میں پہل کیجئے اس میں زیادہ ثواب ہے ۔
حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ : یہودیوں کا سلام انگلیوں سے ہے ، نصاری کا سلام ہتھیلی سے ہے اور مسلمانوں کا سلام السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہے ۔ یعنی یہود و نصاری کا سلام صرف اشارہ ہے اور مسلمانوں کا سلام ایک مستقل دعا ہے کہ تم پر سلامتی ہو ، اللہ کی رحمتیں تم پر نازل ہوں ، برکتیں تم پر نازل ہوں ۔ ہر مسلمان دوسرے کو دعا دے ۔ اس سے اس کی خیر خواہی اور محبت ظاہر ہوگی ۔ تعلق بھی مضبوط ہو جائے گا ۔
قصہ مشہور ہے کہ کسی آدمی کے سامنے جن آگیا ۔ تو اسے خطرہ لاحق ہو گیا کہ یہ تو کھا جائے گا ۔ اس نے آگے بڑھ کر کہا ماموں جان! سلام ۔اس نے کہا بھانجے وعلیکم السلام اور کہا کہ میرا ارادہ تجھے کھانے کا تھا لیکن تو نے ماموں کہا اور سلام کہا میرے دل میں رحم آگیا میں نے چھوڑ دیا اب تو آزاد ہے ، جہاں چاہے چلا جا ، تو نے سلام کر کے جان بچائی ۔ یہی صورت دشمن کی بھی ہے ۔ اگر کسی سے پکی دشمنی ہے ۔ آپ کہیں السلام علیکم وہ پسیج جائے گا ۔ دشمنی ڈھیلی پڑ جائے گی ۔ الغرض یہ بہت بڑی نعمت اور عظیم دعا ہے ۔
حضرت طفیل کہتے ہیں کہ میں اکثر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور آپ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ بازار جایا کرتا ۔ جب ہم دونوں بازار جاتے تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جس کے پاس سے بھی گزرتے اس کو سلام کرتے ، چاہے وہ کوئی ہوتا آپ اس کو سلام ضرور کرتے ۔ ایک دن میں نے آپ کی خدمت میں آیا تو آپ نے کہا چلو بازار چلیں ۔ میں نے کہا حضرت ! بازار جا کے کیا کیجئے گا ؟ آپ نہ تو کسی سودے کی خریداری کے لیے کھڑے ہوتے ہیں نہ کسی مال کے بارے میں معلومات کرتے ہیں ۔ نہ مول بھاؤ کرتے ہیں ۔ نہ بازار کی محفلوں میں بیٹھتے ہیں ۔ آۓ یہیں بیٹھ کر کچھ بات چیت کریں ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے بڑے پیٹ والے ! ہم تو صرف سلام کرنے کی غرض سے بازار جاتے ہیں کہ ہمیں جو ملے ہم اسے سلام کریں ۔ ( موطاامام مالک)
ہمیشہ زبان سے السلام علیکم کہہ کر سلام کیجئے اور ذرا اونچی آواز سے سلام کیجئے تاکہ وہ شخص سن سکے جس کو آپ سلام کر رہے ہیں ۔ البتہ اگر کہیں زبان سے السلام علیکم کہنے کے ساتھ ہاتھ یا سر سے اشارہ کرنے کی ضرورت ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ مثلا آپ جس کو سلام کر رہے ہیں وہ دور ہے اور خیال ہے کہ آپ کی آواز اس تک نہ پہنچ سکے گی یا کوئی بہرا ہے اور آپ کی آواز نہیں سن سکتا ۔ تو ایسی حالت میں اشارہ بھی کیجیے ۔ ( آداب زندگی ، ص: ٢١٨ )
بہرحال اس حدیث میں ہدایت کی گئی ہے کہ پہچان پہچان کر سلام نہ کرو ۔ اس واسطے کہ تعارف کرانے میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی بڑا آدمی ہو ، اس کا تو تعارف ہو گیا اور اگر کوئی چھوٹا موٹا آدمی آۓ تو اس کا کوئی تعارف نہیں کراتا ۔ گویا آپ کا سلام بڑے آدمی کو تو ہوگا چھوٹے کو نہیں ہوگا ۔ یہ خود ایک تکبر ہے کہ چھوٹوں کو منہ نہ لگایا جائے اور بڑوں کے سامنے جھکے۔
اسی واسطے فقہاء لکھتے ہیں کہ اگر کوئی سواری پر سوار جا رہا ہو اور لوگ سڑک پر سامنے بیٹھے ہوں تو سوار ہونے والے کا فرض ہے کہ وہ بیٹھے لوگوں کو سلام کرے ۔ اپنے اندر خاکساری پیدا کرے ۔ ایسی صورت نہ پیدا ہونے دے جس میں یہ انتظار ہو کہ یہ مجھے سلام کریں کیوں کہ یہ میرے سے چھوٹے ہیں یہ چھوٹائ بڑائی کہاں کی ؟ آدمی خود ہی چھوٹا ہے ۔ بڑا اللہ ہے ۔ سب سے بڑی ذات وہ ہے ۔ اس کے سامنے سب چھوٹے ہیں ۔ اس لیے ہر شخص یہ سمجھے کہ میں چھوٹا ہوں وہ بڑا ہے ۔ جب یہ سمجھے گا تو سلام کی ابتداء کرنے کی کوشش کرے گا ۔
0 Comments