لڑکیوں کی پیدائش کو بوجھ مت سمجھئے
المستفاد... .. بکھرے موتی (جلد چہارم)
محمد اکرام پلاموی
لڑکی کی پیدائش پر بھی اسی طرح خوشی منائیے جس طرح لڑکے کے پیدائش پر مناتے ہیں۔ لڑکی ہو یا لڑکا دونوں ہی خدا کا عطیہ ہیں اور خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ کے حق میں لڑکی اچھی ہے یا لڑکا ۔ لڑکی کی پیدائش پر ناک بھون چڑھانا اور دل شکستہ ہونا اطاعت شعار مومن کے لیے کسی طرح زیب نہیں دیتا ۔ یہ ناشکری بھی ہے اور نا قدری بھی ہے
حدیث میں ہے کہ جب کسی کے یہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو خدا اس کے ہاں فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں ۔ یہ گھر والو! تم پر سلامتی ہو۔ وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھرتے ہوئے کہتے ہیں ۔ یہ کمزور جان ہے جو ایک کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے ، جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا قیامت تک خدا کی مدد اس کے شامل حال رہے گی ۔ ( طبرانی )
لڑکیوں کی تربیت و پرورش انتہائی خوش دلی ، روحانی مسرت اور دینی احساس کے ساتھ کیجئے اور اس کے صلے میں خدا سے بہشت بریں کی آرزو کیجیے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے تین لڑکیوں یا تین بہنوں کی سرپرستی کی انہیں تعلیم و تہذیب سکھائی اور ان کے ساتھ رحم کا سلوک کیا ۔ یہاں تک کہ خدا ان کو بے نیاز کر دے تو ایسے شخص کے لیے خدا نے جنت واجب فرما دی ۔ اس پر ایک آدمی بولا ، اگر دو ہی ہوں تو ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، دو لڑکیوں کی پرورش کا بھی یہی صلہ ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر لوگ ایک کے بارے میں پوچھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کی پرورش پر بھی یہی بشارت دیتے ۔ ( مشکوٰۃ )
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن ایک عورت اپنی دو بچیوں کو لیے میرے پاس آئی اور اس نے کچھ مانگا ۔ میرے پاس صرف ایک ہی کھجور تھی ، وہ میں نے اس کے ہاتھ پر رکھ دی ۔ اس عورت نے کھجور کے دو ٹکڑے کیے اور آدھی آدھی دونوں بچیوں میں بانٹ دی اور خود نہ کھائی ۔ اس کے بعد وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور باہر نکل گئی ۔ اسی وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے ۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سارا ماجرا کہہ سنایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا ،، جو شخص بھی لڑکیوں کی پیدائش کے ذریعے آزمایا جاتا ہے اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کر کے آزمائش میں کامیاب ہو تو یہ لڑکیاں اس کے لیے قیامت کے روز جہنم کی اگ سے ڈھال بن جائیں گی ۔ ( مشکوٰۃ )
لڑکیوں کو حقیر نہ جانیے ، نہ لڑکے کو اس پر کسی معاملہ میں ترجیح دیجیے ۔ دونوں کے ساتھ یکساں محبت کا اظہار کیجئے اور یکساں سلوک کیجئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ،، کہ جس کے یہاں لڑکی پیدا ہوئی اور اس نے جاہلیت کے طریقے پر اسے زندہ دفن نہیں کیا اور نہ اس کو حقیر جانا اور نہ لڑکے کو اس کے مقابلے میں ترجیح دی تو ایسے آدمی کو خدا جنت میں داخل کرے گا ۔ ( ابوداؤد)
جائداد میں لڑکی کا مقررہ حصہ پوری خوش دلی اور اہتمام کے ساتھ دیجئے ۔ یہ خدا کا فرض کردہ حصہ ہے اس میں کمی بیشی کرنے کا کسی کو کوئی اختیار نہیں لڑکی کا حصہ دینے میں حیلے کرنا یا اپنی صوابدید کے مطابق کچھ دے دلا کر مطمئن ہو جانا اطاعت شعار مومن کا کام نہیں ہے ۔ ایسا کرنا خیانت بھی ہے اور خدا کے دین کی توہین بھی ۔ اللہ تعالی ہم سب کو صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین ۔
0 Comments