میاں بیوی رفیق بنیں ،فریق نہیں
محمد اکرام پلاموی
دنیائے انسانیت کی بقاء اور نسل انسانی کا وجود مرد عورت کے باہمی ارتباط و تعلق سے ہے۔ یہ تعلق جس قدر گہرا اور محبت و الفت سے لبریز ہوگا اسی قدر اس کا نتیجہ بھی بہتر اور نفع بخش ہوگا، انسان کی فطرت اللہ تعالی نے ایسی بنائی ہے کہ جب اسے کسی چیز سے محبت اور انس ہوتا ہے تو اس کے دیکھنے اور اس کے پاس رہنے سے راحت اور سکون محسوس کرتا ہے اور جس چیز سے طبعی طور پر نفرت ہوتی ہے اس سے اس کو گھٹن اور تکلیف کا احساس ہوتا ہے کیونکہ اللہ رب العزت کو دنیا کا نظام اور نسل انسانی کا وجود قیامت تک باقی رکھنا مقصود ہے اس لیے مرد کے اندر عورت کی طرف رغبت و خواہش اور عورت کے اندر مرد کی طرف طبعی میلان ودیعت فرما دیا ہے، چنانچہ انسانی زندگی میں ایک ایسا وقت اتا ہے جب مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کے سخت محتاج ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی ضرورت بن جاتے ہیں اللہ تعالی نے اپنی اخری کتاب قران کریم میں اس ضرورت کو نہایت لطیف پیرایہ میں بیان فرمایا ہے، اگر ہم صرف اس پر غور کریں اور اس کے مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش کریں تو انشاءاللہ ہماری ازواجی زندگی اتنی ہی خوشگوار اور اطمینان بخش ہوگی جو ہمارا مطلوب و مقصود ہے، اللہ تعالی نے اپنے بندوں سے فرماتا ہے,, وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو- یہاں اللہ رب العزت نے یہ ایک دوسرے کی احتیاج اور ضروری کو لباس سے تعبیر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ جس طرح انسان کو ہر موسم میں کپڑے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس سے زیب و زینت اختیار کرتا ہے، اسی طرح مرد و عورت کو ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے اور کوئی بھی ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ اس لیے چاہیے کہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت بن کر زندگی گزاریں نہ کہ ایک دوسرے سے بے نیاز ہو کر- دوران کریم کی اس ایت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح لباس انسان کے جسم سے جدا نہیں ہوتا اور پوری زندگی اس کو لباس کی احتیاج ہوتی ہے اسی طرح ایک عورت کو اپنے شوہر کے ساتھ اور شوہر کو اپنی بیوی کے ساتھ دوستانہ تعلق قائم رکھنا چاہیے اس انداز فکر سے ایک دوسرے کی کمی کو نظر انداز کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ محبت کی انکھیں عیب کو چھپاتی ہیں اور چشم پوشی کرتی ہیں- جبکہ نفرت و عداوت کی آنکھیں برائیوں کو تلاش کرتی ہے اور اس کو ظاہر کرتی ہے۔ لہذا فطری طور پر اللہ تعالی نے زوجین کے دل میں ایک دوسرے سے محبت اور جذبہ رحمت پیدا فرما دیا تاکہ ان کی زندگی خوشگوار ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ مرد کو خواہ مخواہ عورت کی عیب جوئی ورنہ اپ کو پسندیدگی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ اگر اس کی کوئی عادت بری ہے جو اسے ناپسند ہے تو دوسری عادت اور خصلت اچھی بھی ہوگی جو اسے خوش کر دے گی ۔(مسلم) ایک دوسری حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے۔ اگر تم اسے سیدھی کرنا چاہو گے تو اسے توڑ ڈالو گے لہذا اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو تو اچھی زندگی گزرے گی۔(ابن حبان) معلوم ہوا کہ عورت کے ساتھ رفاقت کے لیے ضروری ہے کہ اس کمزوریوں کو نظر انداز کیا جائے اس کو زیادہ سخت سست نہ کہا جائے اور اس کے ساتھ خوش گوار زندگی گزارنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ اگر اس نیت اور ارادہ سے اس کے ساتھ معاملہ کریں گے تو انشاءاللہ ازواجی زندگی ہمیشہ خوشگوار ہوگی۔ قران کریم کی اس ایت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جس طرح لباس انسان کے ظاہری عیوب کی پردہ پوشی کرتا ہے مرد اور عورت بھی ایک دوسرے کے لیے لباس کے مانند ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ ایک دوسرے کی پردہ پوشی کریں۔ اگر ایک طرف اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو تاکید کی ہے کہ وہ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور ان کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش ائے تو اس کے ساتھ عورتوں کے لیے بھی کچھ فرائض مقرر فرمائے ہیں۔
0 Comments