تعمیر قوم میں تعلیم کا کردار

تعمیر قوم میں تعلیم کا کردار

 



محمد اکرام پلاموی 


خاتم الانبیاء والمرسلین سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی جب دنیا میں تشریف آوری ہوئی تو اس وقت یہ دنیا ہر قسم کی شناعت و قباحت کا مرکز اور ہر طرح کی بے حیائی وفحاشی کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی ، عام لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کچھ بھی محفوظ نہ تھے اور نہ ہی اخلاق و کردار کا نام و نشان تھا ، ظلم و ستم اور جورو جفا کی انتہا نہ تھی اور معاشرے کا ہر فیصلہ " جس کی لاٹھی اس کی بھینس " کے اصول پر مبنی تھا ۔ 

تعلیم کی اہمیت قرآن پاک کی نظر میں : 

ان حالات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی ۔ پھر جب عمر مبارک چالیس برس ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کا تاج گھر بار پہنایا گیا ، تو ظاہرا یہ خیال ہو سکتا ہے کہ ان حالات میں پہلی وحی اصلاح عقیدہ یہ پہلو سے اثبات توحید اور ابطال شرک کے متعلق نازل ہونی چاہیے تھی ، یا انسانی نظریے سے مربوط ایک ایسی آیت اترنی تھی جس میں ظلم و تشدد سے روکا گیا ہو ، انسانی محبت و اخوت کی دعوت دی گئی ہو ، مگر آپ علیہ الصلاۃ والسلام پر سب سے پہلے جو آیت اتری اس میں مذکورہ امور میں سے کسی کا تذکرہ نہیں ہے ، بلکہ تعلیم و تعلم کا تذکرہ تھا ، چنانچہ وہ ی یہ اتری تھی ( اقرأ باسم ربک الذی خلق ؛) سورۃ العلق ؛آیت/١) ترجمہ: ( اے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے رب کے نام سے پڑھیے ، ( جس نے ہر چیز کو) پیدا فرمایا؛ یہ ابتدائی وحی تعلیم اور علم پر مشتمل کیوں تھی ؟ کیونکہ علم روشنی کی مانند ہے ، کہ جس طرح روشنی کی ہر شخص کو ضرورت ہے اسی طرح علم کے بغیر خوشگوار زندگی کا تصور ہی نہیں ہے ۔ 

اسلامی معاشرے میں تعلیم کا فقدان اور حل : 

آج مسلم سماج میں تعلیم و تربیت کی کمی وقت کوتاہی روز افزوں بڑھتی جا رہی ہے ، عقائد وہ اعمال اور معاشرت و اخلاق کی زیادہ تر برائیاں جہالت ہی کا نتیجہ ہیں ، مسلم لڑکیوں کا ارتداد اکثر کسی تعلیم و تربیت پر بے توجہی اور ایمانی کمزوری کا ہی اثر ہے ، لا علمی کی اندھیری ہی میں یہ تمام سپنے جڑ پکڑتے ہیں اس لیے حل یہ ہے کہ علم کی روشنی جتنی پھیلے گی یہ ہے مفاسد بھی خود بخود مٹ جائیں گے ، تعلیم کے بغیر معاشرتی خرابیوں کو دور کرنے کی مثال " جڑ کے بجائے ٹہنیوں اور پتوں میں پانی دینے کی ہے، 

اسلام کا مذہبی پر عدم انحصار : 

مذہب اسلام نے محض دینی تعلیم ہی کو اہمیت نہیں دی ؛ بلکہ اس عصری تعلیم کو بھی مرکز توجہ بنایا ہے جو انسان کو نفع دے ، نقصان نہ دے اور لوگوں کے مسائل کو حل کرے ، یعنی علم نافع کو اہمیت دی ہے چاہے وہ دینی اعتبار سے نفع بخش ہو یا دنیوی اعتبار سے ؛ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نافع کی دعا فرماتے تھے اور خبر ؛ یعنی بے نفع علم سے پناہ مانگتے تھے ، اس اصول پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بیشتر عصری علوم و فنون علم نافع کی فہرست میں آتے ہیں ۔ 

اسلام نے تحصیل علم کے اعتراف میں اپنے وہ بیگانے کا امتیاز نہیں کیا ؛ چنانچہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے غزوہ بدر میں غیر مسلم قیدیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا :" ان میں جو تعلیم یافتہ ہیں وہ دس مسلمانوں کو تعلیم دیں ، یہی ان کا فدیہ رہائی ہے " اس سے پتہ چلتا ہے کہ تحصیل علم بہرحال ضروری ہے ۔ خواہ اس کے لیے فاقہ کشی ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔ آج مسلمانوں کو یہی سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ چاہے وہ معاشی تنگی گوارا کریں ، مگر اولاد کو بہر صورت زیورے تعلیم سے آراستہ کریں ۔ 

رب کریم تمام مسلمانوں خاص کر اسلامیانے ہند کو عمل کی توفیق بخشے ، 

Post a Comment

0 Comments