ماہ ربیع الاول اور حب رسول کے تقاضے

 ماہ ربیع الاول اور حب رسول ﷺ کے تقاضے 


 

محمد اکرام پلاموی

ماہ ربیع الاول اسلامی سال کاتیسرا مہینہ ہے، ربیع الاول میں دو لفظ ہیں:  پہلا لفظ ہے ربیع جس کا معنی ہے موسم بہار ، دوسرا لفظ ہے اول جس کا معنی ہے پہلا ، تو پورا معنی ہوا پہلا موسم بہار ؛ چونکہ موسم بہار دو زمانوں پر مشتمل ہوتا ہے، ایک ابتدائی زمانہ، جبکہ کلیاں چٹکتی اور پھول کھلتے ہیں اور دوسرا زمانہ وہ ہوتا ہے ، جب پھل پک جاتے ہیں، پہلے زمانے کو ربیع الاول اور دوسرے کو ربیع الآخر یا ربیع الثانی کہا جاتا ہے۔ 

 ان مہینوں کے یہ نام اس لیے رکھے گئے ؛ کہ جس وقت ان مہینوں کا نام رکھا جا رہا تھا اس وقت موسم بہار تھا تو اس مناسبت سے ان دونوں مہینوں کا نام ربیع الاول اور ربیع الثانی رکھا گیا (لسان العرب لابن منظور ؛٨/١٠٣)

ماہِ ربیع الاول کی خصوصیات 

 اس ماہ مبارک کو اسلامی کلینڈر میں خصوصی اہمیت حاصل ہے ؛ کیونکہ ربیع الاول ہی وہ مبارک ماہ ہے ، جس میں اللہ تعالی نے پیغمبر اعظم ، نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت کل جہاں بنا کر روئے زمین پر مبعوث فرمایا اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس لے جانے کے لیے بھی اسی ماہ مبارک کا انتخاب کیا ۔

رمضان یا ذی الحجہ کے مہینے کی طرح ربیع الاول میں روزہ رکھنے نماز پڑھنے یا دعا کی کوئی خاص فضیلت نہیں بیان کی گئی ہے ؛ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اس ماہ میں پیش آنے والے واقعات اس کو خاص پٔر عظمت اور بابرکت بناتے ہیں ۔ 

نبی ﷺ کی پیدائش کس تاریخ کو ہوئی ؟

اور اس مہینے کی عظمت کیوں نہ ہو ؟ جبکہ اس مہینے میں اللہ رب العالمین کا دنیا والوں پر سب سے بڑا انعام و احسان ہوا کہ اللہ رب العالمین نے اپنے مخلوق میں سب سے برگزیدہ، سب سے محبوب اور سب سے اعلی و اولی نبی کو دنیا میں بھیجا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے؛ لیکن اس بابت جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا میں تشریف لائے ، تو وہ ماہ ربیع الاول اور پیر کا دن تھا ۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لاتے ہی آپؐ کے ذریعے طرح طرح کے معجزات کا ظہور شروع ہو گیا، نبوت سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی نظر میں مقبول ہو گئے اور لوگ آپ کو صادق و امین کے لقب سے پکارنے لگے ۔ ہر طرح کے معاملات میں آپ پر اعتماد اور بھروسہ کرتے البتہ۔

 دنیا کی یہ تاریخ رہی ہے، یہ انسان کا نیک اور بھلا ہونا کسی کو برا نہیں لگتا، بلکہ تعریف کرتے ہیں ، سب سے معزز سمجھتے ہیں ؛ لیکن آدمی نیک بھی ہو اور اس نیکی کی تبلیغ شروع کر دے تو وہی شخص جس کی نیکی کی لوگ تعریف کرتے تھے، اپنے میں سب سے افضل اور بہتر سمجھتے تھے ، دعوت و تبلیغ کی وجہ سے اس شخص کے خلاف ہو جاتے ہیں اور اس میں کمیاں نکالنا اور اس کو طرح طرح کے خراب القاب سے پکارنا شروع کر دیتے ہیں ، ٹھیک اسی طرح جب اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے تقاضے کے مطابق تاج نبوت سے سرفراز کیے جانے کے بعد ، تبلیغ دین شروع کی تو آپ کو صادق و امین کہنے والے ، آپ کو عرب میں سب سے اعلی اور افضل سمجھنے والے اور آپ کی ہر بات، ہر کلام، ہر قضیہ و فیصلہ اور ہر ہر چیز پر یقین و اعتماد کرنے اور ماننے والے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہو گئے اور آپ کو ساحر و کاہن اور کذاب کہنے لگے۔

نبی ﷺ پر تبلیغ کی وجہ سے مصیبتیں 

 دعوتِ دین کی وجہ سے آپ پر طرح طرح کے مصائب ڈھانے لگے ؛ لیکن یہ اصول ہے کہ حق ہی کا غلبہ ہوتا ہے ؛ لہذا لاکھ رکاوٹوں اور اذیتوں کے باوجود رفتہ رفتہ رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لوگ اسلام میں داخل ہوتے رہے ؛ یہاں تک کہ دین اسلام ہی کی خاطر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی ، مدینہ طیبہ میں تیزی کے ساتھ لوگ اسلام میں داخل ہوئے ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ طیبہ ہجرت کر کے جانے کے بعد ، آپ کے اخلاق و حلم اور آپ کے نرم کلامی کو دیکھ کر دور دراز سے قبائل آ کر اسلام کی دولت سے سرفراز ہوتے رہے اور دین اسلام تمام ادیان باطلہ پر غالب آگیا اور فرمان باری تعالی (وقل جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا "سورۃ الاسراء:٨١)

ترجمہ: اور کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا ، یقیناً باطل مٹنے ہی والا ہے۔  پورا پورا صادق آیا ۔ اور جن لوگوں نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول کیا ، ان کو اللہ رب العالمین کی جانب سے رضی اللہ عنہ ورضوا عنہ کا مژدہ ملا اور ہر جگہ کامیابی اور کامرانی ان کو مقدر ہوئی اور جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ مانی،  آپ کی دعوت کو ٹھکرا دیا ان کے نصیب میں صرف اور صرف ناکامی اور ذلت و رسوائی آئی۔

 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو شریعت دی گئی ہے، وہ تا قیامت رہنے والی شریعت ہے اور آپ کی شریعت قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے راہ حیات، اسوہ نمونہ اور راہ زندگی ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:  لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ (الاحزاب "٢١) کہ یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین اسو ، نمونہ ہے)۔

ماہِ ربیع الاول میں جلسے جلوس

 اسی طرح حدیث شریف ہے:  حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں : کان خلقہ القرآن ،کہ آپ ﷺ کا اخلاق قرآن تھا ۔ ماہ ربیع الاول آتے ہی رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت طیبہ کی مناسبت سے، اظہار عقیدت و محبت کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے اور سیرت کے موضوع پر جلسے جلوس کا انعقاد کیا جاتا ہے اور یہ بات حتمی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ روئے زمین پر سیرت النبی ﷺ کے موضوع پر جتنے کثیر تعداد میں بیانات اور کانفرنسیں ہوتی ہیں کسی اور موضوع پر نہیں ہوتے ہوں گے۔

 اور یقیناً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت شرطِ تکمیلِ ایمان ہے ، جس کا اظہار لازم و ضروری ہے اور اس کے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کو پہچانا جائے اور ان کی ادائیگی کی جائے ۔ آپ کی زندگی کو اپنے لیے اسوہ اور نمونہ بنایا جائے ، نوجوان بچوں اور بچیوں کے دلوں میں آپ ﷺ کی محبت اور دین اسلام سے عقیدت کو زندہ کیا جائے، ان کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرائی جائے، کہ ہمارے اول ماڈل ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی حیات طیبہ ہے، نہ کہ اسٹیج پر اور پردے کے نیچے ناچنے اور ناچنے والیاں ۔ 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی مبارک ماہ میں تشریف لائے، اس لیے اس ماہ ربیع الاول اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کو اپنی زندگی میں مکمل طور پر داخل کریں اور اپنے نبی کے کسی بھی فرمان پر عمل اور اس کے اظہار سے  عار محسوس نہ کریں ؛ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے اور آپ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے میں ہمیں فخر محسوس ہونا چاہیے۔

 اگر کوئی آپ ﷺ کی شان کریمی میں گستاخی کرے اور اپنی ناپاک اور گندی زبان کھولے تو دفاع کیا جائے اور اپنی وسعت کے مطابق جواب دینے کو لازم سمجھیں، اہل بیت آپ سے عقیدت و محبت رکھی جائے اور اس کا اظہار کیا جائے؛ کیونکہ یہ بھی دین و ایمان کے جز اور آپ سے محبت اور ایمان کا تقاضا ہے۔

آپ ﷺ کے صحابہ ؓ سے محبت

 اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے محبت کرنا، یہ بھی آپ ہی کے حقوق میں آتا ہے ، اس لیے کہ حدیث کی رو سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی محبت بھی حب رسول ﷺ کی بنیاد پر ہوتی ہے اور صحابہ کرام سے دل میں بغض یا میل رکھنا آپ سے بغض کی علامت ہے۔

 خلاصہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو زندگی کے ہر ہر گوشے میں داخل کرنا ، اہل بیت اور صحابہ کرام سے عقیدت رکھنا یہ ضروری ہے ؛ بلکہ ایمان کے شرط اولین میں سے ہے اور ہماری کامیابی اور کامرانی بھی اسی میں ہے۔ 

 اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنے حال و استقبال کو ماضی کی طرح روشن اور تابناک بنائیں اور اس معاملے میں واقعی سنجیدگی سے سوچتے ہیں، تو سنت کے راستے پر آنا ہوگا اور محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اپنے لیے ائیڈیل اور نمونہ حیات بنانا ہوگا۔  آپ  ﷺ کے تمام حقوق کی ادائیگی کے لیے کمر بستہ ہونا ہوگا ؛ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں چلنے اور آپ سے محبت اور آپ کے اہل بیت اور صحابہ سے محبت میں ہی کامیابی اور کامرانی ہے۔

 مگر افسوس کہ غیر قومیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقوں کو اپنا کر کامیاب ہو رہی ہیں اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے اور آپ سے مسلسل محبت کے دعوے کے باوجود آپ ﷺ کے بتائے ہوئے راستے کو چھوڑ کر غیروں کے راستے کو اپنا رہے ہیں

 اور واضح سی بات ہے، اگر ہم مسلمان ہو کر اپنے نبی کے حیات طیبہ کو اپنی زندگی میں داخل نہیں کریں گے تو کیسے کامیابی اور کامرانی ہمیں نصیب ہوگی کیسے ہمارا حال و استقبال ماضی کی طرح ہوگا اگر ہم ظلم و ستم سے چھٹکارا چاہتے ہیں اپنے حالات کو بدلنا چاہتے ہیں تو ہر حال میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کو اپنانا ہوگا تاکہ کامیابی و کامرانی ہمیں نصیب ہو ۔

اللہ تعالی ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فرمان پر عمل کرنے اور اپ کے تمام حقوق کو پہچاننے اور ان کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Post a Comment

0 Comments