دعا کی قبولیت کا مطلب کیا ہے؟
دعاء قبول کب ہوتی ہے؟
اے دوست تم پوچھتے ہو کہ بسا اوقات میں جو چیز اللہ سے مانگتا ہوں ؛ اللہ وہ چیز نہیں دیتا ؟ تو میرا جواب یہ ہے کہ : تم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہو تو وہ تم سے پوچھ کر تمہاری پسندیدہ دوا نہیں دیتا وہ تمہارے مرض کے لیے جو دوا مفید سمجھتا ہے وہ دیتا ہے ۔
شاید تم نے ایسی چیز خدا سے مانگی ہو جو تمہارے لیے مضر ہو ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ادعونی أستجب لکم ، مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا ۔
اللہ نے دینے کا وعدہ کیا ہے مگر یہ نہیں کہا ہے کہ جو مانگو گے وہی دوں گا ، اور جس وقت مانگو گے بلا تاخیر اسی وقت دوں گا ۔ بچہ بسا اوقات چاقو ہاتھ میں اٹھا لیتا ہے تو چھین لیتے ہو ، اس کے رونے چلانے کی پرواہ نہیں کرتے ، کیونکہ ابھی چاقو ہاتھ میں لینے کا وقت نہیں آیا ، جب اس کے اندر چاقو کے استعمال کی استعداد پیدا ہو جائے گی تب اس کے ہاتھ میں چاقو بھی دیا جائے گا ، چھری بھی دی جائے گی اور وقت آنے پر تلوار بھی ۔
دراصل انسان اپنے سامنے کی موجودہ چیزوں کو ہی دیکھ سکتا ہے ، اس کو نتیجے کا علم نہیں ہو سکتا ، اور اللہ نتیجے سے باخبر ہے ، اس لیے وہ اپنے علم سے بہتر نتیجے کی تدبیر کرتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ آئندہ تمہاری مانگی مراد پوری ہو جائے ، مگر ابھی وقت نہیں آیا ۔وقت بھی اس کی حکمت کا حصہ ہے جسے تم نہیں دیکھ سکتے ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ولما بلغ أشدہ واستوی آتیناہ حکما و علما
اور جب موسی علیہ السلام کی عمر پختہ ہو گئی اور ان کی نشو ونما مکمل ہو گئی تو ہم نے ان کو حکمت و دانائی عطاء کی ۔ حالانکہ اللہ تعالی پہلے بھی دے سکتے تھے ، مگر اللہ تعالی نے پہلے ان کی تربیت فرمائی اور جب ان کے اندر علوم نبوت کے تحمل کی استعداد پیدا ہو گئی تب عطاء فرمایا ۔
مسلمان چاہتے تھے کہ ہجرت سے پہلے مکہ ہی میں اپنی تلواریں نکالیں اور اپنی جان بچائیں ، لیکن اجازت نہیں ملی ، حالانکہ جس اللہ نے مدینہ میں مدد کی ؛ وہ مکہ میں بھی مدد کر سکتا تھا ، مگر اس کی حکمت کا تقاضہ ہوا کہ ابھی کچھ دنوں مجاہدوں میں صحابہ کا ایمان پکایا جائے ، چنانچہ تیرہ سالہ مکی زندگی تربیتی پیریڈ تھا ، مدینہ جا کر قتال کی اجازت ملی ، کیونکہ جس تلوار کے پیچھے ٹھوس عقیدہ اور کمال ایمان نہ ہو وہ تلوار جلد راستہ بھٹک جاتی ہے ، اللہ چاہتا تھا کہ تلوار صرف اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے اٹھائی جائے نہ کہ دشمن سے انتقام لینے کے لیے ۔
اسی طرح اے دوست ! دعا کی قبولیت میں تاخیر کبھی تمہاری تربیت کے لیے ہوتی ہے ، جب تمہارے اندر اس کی اہمیت پیدا ہو جائے گی تمہاری مراد پوری کر دی جائے گی ، اور کبھی تو مانگی چیز نہیں دیتے اس کے عوض کوئی آفت ، کوئی بلا ، کوئی بیماری ڈال دیتے ہیں ۔
لہذا اے میرے دوست ! بارگاہ خداوندی کا ادب ملحوظ رکھ اور مایوس مت ہو ، مانگنا بند مت کر ، اس کے سامنے تضرع تذلل اور عاجزی و انکساری سے پیش آ ، اپنی ہر حاجت اس کے سامنے پیش کرتا رہ ، تیری سب حاجتیں اپنے اپنے وقت پر پوری ہوتی رہیں گی ، اگر پوری نہ ہوئیں تو آخرت میں پوری ہونا تو یقینی ہے ، کیونکہ اس کا وعدہ ہے ، اور اللہ تعالی وعدہ خلافی نہیں کرتا ، لہذا یہاں نہیں تو وہاں تو ملنا ہی ملنا ہے ۔
1 Comments
S juber
ReplyDelete