حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی تقریر

 حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی تقریر 



المستفاد ۔۔۔۔ دینیات ( ص ؛ ٢٨٢ : تا ؛ ٢٨٧ )

محمد اکرام پلاموی 

حضرت جعفر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے سردار تھے ، انہوں نے نجاشی کے دربار میں ایک تقریر کی ، تقریر بہت اچھی تھی ۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے بادشاہ ! ہم نادان تھے ، جاہل تھے ، بت پوجتے ، مردار کھاتے ، بدکاری کرتے ، آپس میں لڑتے ، امیر غریب پر ظلم کرتے ، نہ مہمانوں کی عزت ہوتی ، نہ پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ ہوتا ، بھائی بھائی سے لڑتا ، طاقتور کمزور کو ستاتا ۔ اللہ کو ہم پر رحم آیا ، ہم میں ایک رسول بھیجا ، ہم سب اس سے واقف تھے ، وہ بہت ہی نیک تھا ، اس نے سیدھی راہ دکھائی ، آپس میں محبت کرنا سکھایا ۔ اس نے ہمیں سمجھایا کہ ہم بت پوجنا چھوڑ دیں ، اللہ کی عبادت کریں ، سچ بولیں ، وعدہ پورا کریں ، برائیوں سے بچیں ، گناہوں سے دور رہیں ، یتیموں کا مال نہ کھائیں ، ظلم سے باز آجائیں ، آپس میں مل جل کر رہیں ۔ ہم نے اسے نبی جانا ، اللہ کا رسول مانا ، اس کی باتوں پر عمل کیا ، ہماری قوم ہماری دشمن بن گئی ، ہمیں ستانے لگی ۔ اس لیے ہم اپنا وطن چھوڑ کر یہاں چلے آۓ ۔

نجاشی نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی تقریر سنی ۔ تقریر بہت اچھی تھی ، بڑے غور سے سنا ، ان کی باتوں کا اثر لیا ، ان سے قرآن شریف سنا ، قرآن شریف سن کر رونے لگے ، کافروں کو نکلوا دیا ۔ مسلمانوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا ۔ کچھ دن بعد خود بھی مسلمان ہو گئے ۔ اللہ کی رحمت ہو ان پر 

پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت نہیں کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حبشہ نہیں گئے ، مکہ میں جمے رہے ، دکھ سہتے رہے ، اللہ کی طرف بلاتے رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میلوں میں جاتے ، منڈیوں میں جاتے ، حج کے موقع پر جگہ جگہ سے آۓ ہوئے لوگوں کو دین کی باتیں بتاتے ۔ اس طرح رفتہ رفتہ مکہ کے باہر دین پھیلتا رہا ۔

مسلمانوں کا بائیکاٹ 

مکہ مکرمہ میں اسلام دھیرے دھیرے پھیلنے لگا ، روزانہ کوئی نہ کوئی اسلام قبول کر لیتا ۔ دشمنوں کو بہت فکر ہوئی ، انہوں نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کا بائیکاٹ کیا اور شعب ابی طالب میں قید کر دیا ۔ مسلمانوں کو سخت تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس گھاٹی میں کھانے پینے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا ۔ مسلمان ، بوڑھے بچے ، عورتیں سب بھوک پیاس کی شدت برداشت کرتے تھے ۔ مسلمان تین سال تک اسی حالت میں گھاٹی میں قید رہے ۔

غم کا سال 

گھاٹی سے نجات پانے کے کچھ ہی عرصہ بعد نبوت کے دسویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہربان چچا ابو طالب کا انتقال ہو گیا ۔ ابھی چچا کا غم تازہ ہی تھا کہ وفادار اور جاں نثار بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بھی وفات ہو گئی ۔ ان دونوں واقعات سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت صدمہ پہنچا ۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال کو ,, غم کا سال ،، قرار دیا ، اب قریش کو کھلم کھلا ستانے کا موقع مل گیا ۔ پہلے تو ابو طالب کے لحاظ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی خاطر کچھ دبے رہتے تھے ؛ لیکن اب میدان صاف تھا ۔ مشرکین مکہ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ستانا اور تکلیف پہنچانا شروع کر دیا ۔

طائف کا سفر 

مکہ سے تقریبا پچاس میل دور ایک بستی ہے ، اس کا نام طائف ہے ۔ مکہ میں دین کا کام کرتے کرتے بہت دن ہو گئے تھے ، مکہ کا ایک ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن تھا ۔ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر دھیان نہ دیتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا کہ اب طائف جا کر کیوں نہ اللہ کا پیغام سناؤں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہاں کچھ لوگ سنیں اور کچھ ساتھی مل جائیں اور مل کر اللہ کے دین کا کام کریں ۔ یہ سوچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم طائف گئے ، طائف کے لوگ بہت برے تھے ، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں نہیں سنیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت برا سلوک کیا ، پتھروں سے مارا ، گالیاں دیں ، ستانے کے لیے نادان اور شریر بچے پیچھے لگا دیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لہو لوہان ہو گئے ؛ مگر بددعا نہ کی ، برابر دعا ہی کرتے رہے کہ اے اللہ ! یہ ناواقف ہیں ان کو ہدایت دے ۔ درود ہو پیارے رسول پر سلام ہو پیارے رسول پر ۔

Post a Comment

0 Comments